پہلی زندگی، دوسری زندگی
انسان جب پیدا ہو کر موجودہ دنیا میں آتا ہے تو یہ اس کی پہلی زندگی ہوتی ہے۔ یہاں اُس کی طلب کے بغیر اس کے لیے سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ یہاں وہ پاتاہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کو ایک پُرمحبت خاندان مل گیا۔ اُس کو ایک ایسی دنیا مل گئی جو انتہائی حدتک اس کے لیے ایک موافق دنیا تھی۔ اس کو ایک مکمل قسم کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system)حاصل ہوگیا جس کے بغیر اس کے لیے زندگی ممکن نہ ہوتی۔ یہ ساری چیزیں اُس کو یک طرفہ طورپر حاصل ہوتی ہیں۔ خواہ وہ اُس کو شعوری طورپر محسوس کرے، یا وہ اس کو شعوری طورپر محسوس نہ کرے۔
اِس طرح ایک محدود مدت گزارنے کے بعد آدمی مرجاتا ہے۔ موت کا یہ واقعہ اس کے لیے ایک نئے سفر کا معاملہ ہوتاہے۔ موت کے بعد آدمی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، جہاں دوبارہ وہ اکیلا ہوتا ہے۔ اب بھی وہ پہلے کی طرح ایک زندہ اور حسّاس وجود ہوتا ہے، لیکن پچھلی دنیا میں ملی ہوئی تمام چیزیں اُس سے چھوٹ جاتی ہیں۔ اب وہ پھر اِس کا محتاج ہوتاہے کہ دوبارہ اس کو تمام چیزیں از سرِ نو حاصل ہوجائیں، تاکہ وہ عافیت اور سکون کی زندگی گزار سکے۔
انسان کو پہلی زندگی کاتجربہ اِس لیے کرایا جاتا ہے کہ اُس کے دل سے یہ دعاء نکلے کہ —اے میرے رب، تو نے جس طرح پہلی زندگی میں میری ضرورت کی تمام چیزیں کسی استحقاق کے بغیر مجھے دے دی تھیں، اُسی طرح دوسری زندگی میں بھی تو مجھے میری ضرورت کی تمام چیزیںمزید اضافے کے ساتھ دے دے۔ پہلی زندگی میں میں نے تیرے عطیات کا جو ابتدائی تجربہ کیا تھا، دوسری زندگی میں تو اُس کو انتہائی صورت میں میرے لیے مقدر کردے۔ پہلی زندگی میں تونے جوکچھ مجھے دیا، وہ بھی غیر مستحق ہونے کے باوجود مجھے دیاتھا، دوسری زندگی میں بھی تو غیر مستحق ہونے کے باوجود تمام چیزیں مجھ کو عطا کردے۔ پہلی زندگی میرے لیے تیری نعمتوں کا آغاز تھا، دوسری زندگی میں تو میرے لیے اِن نعمتوں کا اِتمام فرمادے۔