تعزیتی جلسے ایک بدعت
آج کل عام طورپر یہ رواج ہے کہ جب کوئی بڑا شخص مرتا ہے تو تعزیت کے نام پر جلسے کیے جاتے ہیں اور تعزیتی بیانات اخباروں میں چھپوائے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بلا شبہ ایک بدعت ہے۔ اِس قسم کی تعزیت کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض ایک مظاہرہ ہے، نہ کہ کوئی اسلامی عمل۔ اِس طریقے کے بدعت ہونے کا یقینی ثبوت یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں تعزیتی دھوم کا ایسا کوئی واقعہ ثابت نہیں۔
موت کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کیا جائے، اور اپنی تنہائیوں میں خدا سے اپنے لیے اور مرنے والے کے لیے دعائیں کی جائیں۔ موت کا واقعہ خدا کی طرف سے ایک یاددہانی ہے، یہ یاددہانی کہ جس طرح ایک شخص کی موت ہوئی ہے، اُسی طرح دوسرے تمام مردوں اور عورتوں کی موت واقع ہوگی۔ موت کے واقعے کو اِسی یاد دہانی کے اعتبار سے لینا چاہیے،نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ دوسرے تمام طریقے جو آج کل مسلمانوں میں رائج ہیں، وہ سب کے سب بدعت ہیں، اور بدعت بلاشبہ صرف ایک ضلالت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی فعل۔ کسی بڑے انسان کی موت کے بعد جو تعزیتی جلسے کیے جاتے ہیں، یا تعزیتی بیانات جاری ہوتے ہیں، اُن میں صرف مرنے والے کا تعریفی تذکرہ کیاجاتا ہے، نہ کہ موت کا تذکرہ۔ حالاں کہ ایسے موقع پر اصل ضرورت یہ ہے کہ موت کو یاد کیا جائے۔ موت کے بارے میں اپنے شعور کو زندہ کیا جائے۔ موت کے بعد پیش آنے والے حساب و کتاب کو سوچ کر خدا سے دعائیں کی جائیں۔