موت کے بعد کی دنیا
ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ باہر سے ایک گیت کے الفاظ سنائی ديے۔ اس کی ایک لائن یہ تھی—کیسے بیتیں گی وہ راتیں، کیسے بیتیں گے وہ دن—یہ سن کر اچانک میرا ذہن موت کے بعد کی زندگی کی طرف منتقل ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں انسان کو سب کچھ حاصل ہے، اس کو پیاس لگتی ہے تو یہاں پانی موجود ہے۔ اس کو بھوک لگتی ہے تو یہاں مختلف قسم کے کھانے موجود ہیں۔ اسی طرح اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اس کو یہاں پوری طرح حاصل ہیں ۔ مثلاًگھر، فرنیچر ، سواری، ٹیلی فون، بینک بیلنس ، وغیرہ۔
پھر میں نے سوچا کہ یہ سب کچھ موت سے پہلے کے مرحلہ حیات میں ہے ۔ موت کے بعد کے مرحلہ حیات میں آدمی اپنے آپ کو ایک ایسے ابدی صحرا میں پائے گا، جہاں کوئی بھی چیز اس کے لیے موجود نہ ہوگی۔ اچانک وہ اپنے آپ کو کامل طور پر محرومی کی حالت میں پائے گا۔
آدمی اگر اس آنے والے دن کو حقیقی طور پر یاد کرے تو وہ تڑپ اٹھے گا۔ اس کی آنکھوں میں درد کے آنسو آجائیں گے۔ وہ کہے گا کہ — وہ دن میرے ليے کتنے تاریک دن ہوں گے، اور وہ راتیں میرے ليے کتنی بڑی مصیبت بن جائیں گی۔ آج کے حالات میں آدمی کو سب کچھ ملا ہوا ہے، مگر کل کےحالات میں اُس سے سب کچھ چھن چکا ہوگا۔ یہی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور ہر مرد کو چاہيے کہ وہ آج سے زیادہ، کل کے بارے میں سوچے۔ وہ اپنی زندگی کی مستقبل رخی پلاننگ (future-oriented planning)کرے، تا کہ آنے والے دن وہ اُس انجام سے بچ سکے جس کو بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ وہاں ان کے ليےابد تک رونا اور دانت پیسنا ہوگا:
There will be wailing and gnashing of teeth. (Matthew 13: 42)