موت کے بعد
موت ہر انسان کے لیے ایک غیر مطلوب واقعہ ہے۔آدمی لمبی مدت تک جینا چاہتا ہے، مگر وہ اچانک ایک دن مرجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدمی سفر میں تھا، وہ زیادہ دور تک جانا چاہتا تھا، مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے موت نے یک طرفہ فیصلے کے تحت، اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ ہر عورت اور ہر مرد کا سوال ہے۔ ہر ایک یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیوں کر ایسا ہوتاہے۔ زندگی کیا ہے اورموت کیا۔ کیوں ایسا ہے کہ آدمی زیادہ دن تک جینا چاہتا ہے، مگر اس کو درمیان ہی میں اس کی مرضی کے بغیر، موت کے فیصلے کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
جب ہم اِس معاملے پر غور کرتے ہیں تو ہم کو سب سے پہلا سُراغ (clue) ڈی این اے (DNA) کی جدید دریافت میں ملتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر انسان کے اندر اس کا ڈی این اے بھی موجود ہوتا ہے۔ہر انسان کا ڈی این اے گویا کہ اس کی شخصیت کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔اِس ڈی این اے کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہماری بڑی سے بڑی انسائیکلو پیڈیا سے بھی سیکڑوں گنا زیادہ بڑا ہے۔ ہر انسان کے ڈی این اے میں اس کی شخصیت (personality) کے تمام چھوٹے اور بڑے پہلو موجود ہیں۔
مگر عجیب بات ہے کہ ڈی این اے انسانی شخصیت کے صرف ایک پہلو کے اندراج سے خالی ہے۔ کسی انسان کے ڈی این اے کا مطالعہ کرکے، اس کے بارے میں ہر بات کو معلوم کیا جاسکتا ہو، مگر صرف ایک بات کو معلوم کرنا ممکن نہیں، اوروہ یہ کہ کسی انسان کی موت کب واقع ہوگی۔ یہ فطرت کی طرف سے اِس بات کا اعلان ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے اعتبار سے ایک نہ مرنے والی مخلوق ہے۔ انسان کے لیے مسلسل زندگی ہے، حقیقی معنوں میں اس کی شخصیت پر موت وارد ہونے والی نہیں۔
اب یہاں انسانی شخصیت کے ایک اور پہلو کو شامل کر لیجیے، وہ یہ کہ تمام ذی حیات چیزوں میں صرف انسان ہے جو کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ تمام حیوانات صرف آج (today) میں جیتے ہیں، کسی حیوان کا کوئی کل نہیں۔ اپنے محدود شعور کے اعتبار سے حیوانات میں سے ہر ایک کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آج میں پیدا ہوئے ا ور آج ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر انسان استثنائی طورپر ایک ایسی مخلوق ہے جو واضح طور پركَل کا تصور رکھتا ہے۔
اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ایک پہلو کو شامل کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر آدمی جو اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ ان گنت تمناؤں (ambitions) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں۔ اِس اعتبار سے، ہر آدمی نامکمل تمناؤں(unfulfilled desires) کا کیس ہے۔ کائنات کے عام نظام کو دیکھیے تو یہ واقعہ بالکل بے جوڑ ہے۔ اِس وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو اِس مسئلے سے دوچار ہے، انسان کے سواکوئی بھی دوسری مخلوق اِس مسئلے سے دوچار نہیں۔
یہ صورتِ حال بتارہی ہے کہ اِس مسئلے کا جواب ہونا چاہیے۔ انسان کی تمناؤں کو اُسی طرح فل فل مینٹ (fulfilment) ملنا چاہیے جس طرح دوسری مخلوقات کو ملا ہوا ہے۔یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا کے بعد ایک اوردنیا آنے والی ہے، یعنی وہ دنیا جہاں انسان اپنی تمناؤں کی کامل تسکین پاسکے۔
اِس طرح اِس معاملے کا ایک اور پہلو بہت زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ انسان کے اندر فطری طورپر انصاف (justice) کا ذہن پایا جاتا ہے۔ انسان فطری طورپر یہ چاہتا ہے کہ اِس دنیا میں عدل کے ساتھ فیصلہ ہو۔ نیک لوگوں کو ان کی نیکی کا پورا بدلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو ان کی برائی کی سزا دی جائے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ یہ تقاضا بھی چاہتا ہے کہ ایک دنیا آئے، جہاں عدل کا یہ تقاضا پورا ہو۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
مذکورہ سوالات کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو آخرت (hereafter) کا نظریہ بالکل حقیقی نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ آخرت کے نظریے کو ماننے کی صورت میں آدمی کو ہر سوال کا مکمل جواب مل جاتا ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر درست ہوجاتی ہے:
Everything falls into place