ترکی کا سبق
ترکی کے عصمت انونو ( 1973 - 1884) ایک فوجی افسر تھے ۔ انھوں نے کمال اتاترک کا ساتھ دیا۔ اتاترک کی وفات (10 نومبر 1938 ) کے بعد وہ تُرک حکومت کے صدر مقرر ہو گئے ۔
کمال اتاترک کے مشہور چھ اصولوں میں سے ایک اصول سیکولرزم تھا۔ اس کا مطلب ان کے نزدیک محض مذہبی ناطرفداری نہ تھا۔ بلکہ جارحانہ لامذہبیت تھا۔ کمال اتاترک کے پورے دور ِحکومت میں اور پھر عصمت انونو کے دور حکومت میں یہی حکومت کی مستقل پالیسی رہی۔ مگر مذہب (اسلام ) کے خلاف پوری حکومتی طاقت استعمال کرنے کے باوجود ترکی سے مذہب کا خاتمہ نہ کیا جاسکا۔ وہ بدستور پوری طاقت کے ساتھ زندہ رہا ، یہاں تک کہ خود عصمت انونو کو اپنے آخری الکشن کے موقع پر بہت سی مذہبی پابندیوں کو ختم کرنا پڑا، کیوں کہ اس کے بغیر وہ عوامی حمایت کی امیدنہیں کر سکتے تھے ۔
عصمت انونو جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آخر وقت میں انھوں نے اس معاملے میں اپنےتجربات کا خلاصہ بیان کیا ۔ ان کا یہ تجرباتی تأثر عربی رپورٹ کے مطابق یہ تھا :
إنني لا أكاد أصدّق ما أرى - لقد بذلنا كل ما نستطيع لانتزاع الإسلام من نفوس الأتراك وغرس مبادئ الحضارة الغربية مكانه - فإذا بنا نفاجأ بما لم نكن نتوقعه - فقد غرسنا العلمانية فأثمرت الإسلام -(الوعی الاسلامی، کویت، ذو القعده 1408ھ صفحہ 27) میرے لیے اس کا یقین کرنا مشکل ہے جس کو میں دیکھ رہا ہوں ۔ ہم نے اپنے بس بھر تمام کوشش کی کہ ترکوں کے دل سے اسلام کو نکال دیں اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کو ان کے اندر داخل کریں۔ مگر حیرت انگیز طور پر نتیجہ ہماری توقع کے خلاف نکلا۔ ہم نے سیکولرزم کا پودا لگایا مگر اس سےجو پھل نکلا وہ اسلام تھا۔
اسلام کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری جمی ہوئی ہیں ۔ جس طرح فطرت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اسی طرح اسلام کو بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے خادموں کو ساری کوشش دعوت کے محاذ پر کرنا چاہیے ، اسلام کی حفاظت تو اپنے آپ ہو رہی ہے ۔