اندھیرے میں اجالا
سید امیر علی (1928 – 1849) کی مشہور انگریزی کتاب ہے جس کا نام روح اسلام (The Spirit of Islam)ہے ۔ اس کتاب کے نویں باب میں انھوں نے ایک جرمن مستشرق کا اقتباس ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
It was the Koran–––––"a book by the aid of which the Arabs conquered a world greater than that of Alexander the Great, greater than that of Rome, and in as many tens of years as the latter had wanted hundreds to accomplish her conquests; by the aid of which they alone of all the Shemites came to Europe as kings, whither the Phoenicians had come as tradesmen, and the Jews as fugitives or captives; came to Europe to hold up, together with these fugitives, the light to humanity; they alone, while darkness lay around, to raise up the wisdom and knowledge of Hellas from the dead, to teach philosophy, medicine, astronomy, and the golden art of song to the West as to the East, to stand at the cradle of modern science, and to cause us late epigoni for ever to weep over the day when Granada fell" (p.394).
قرآن ہی وہ کتاب ہے جس کی مدد سے عربوں نے ایک ایسی دنیا کو فتح کیا جو سکندر اعظم سے بھی زیادہ بڑی تھی ، جو روم کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی۔ اور وہ بھی چند دہے میں جس کو پورا کرنے میں موخر الذکر کو کئی سو سال لگ گئے ۔ قرآن ہی کی مدد سے ایسا ہوا کہ تمام سامی اقوام میں وہ تنہا لوگ تھے جو یورپ میں حکمراں کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔ جہاں فینیقی تاجر کی حیثیت سے آئے تھے ، اور یہودی پناہ گیر یا قیدی کی حیثیت سے۔ وہ یورپ آئے تاکہ ان پناہ گیروں کے ساتھ انسانیت کو روشنی دکھائیں ۔ جب کہ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ انھوں نے یونان کے علم و حکمت کو دوبارہ زندہ کیا۔ انھوں نے مغرب کو فلسفہ ، طب ، فلکیات ، اور موسیقی کا زریں فن سکھایا جیسا کہ انھوں نے مشرق کو سکھا یا تھا۔ وہ جدید سائنس کا گہوارہ بن کر کھڑے ہوئے ۔ اور انھوں نے ہم بعد میں آنے والوں کو اس کا ماتم کرایا جب کہ غرناطہ ان کے قبضہ سے نکل گیا۔
پچھلے زمانے کے مسلمانوں کے لیے قر آن ایک تسخیری طاقت ثابت ہوا تھا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے قرآن کوئی تسخیری طاقت نہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں نے قرآن کی طاقت کو استعمال ہی نہیں کیا ۔