دنیا اور آخرت

ایک دوکاندار نے کہا کہ میں ہر روز اپنی دکان کھولتا ہوں ۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک دن دکان کھولنے کی قیمت ایک سو روپیہ ہے۔ ملازم کی تخواہ بجلی کا بل اور دوسرے مختلف اخراجات۔ پھر میں کیوں دکان کھولتا ہوں اور کیوں ہر روز ایک سو روپیہ کا خرچ برداشت کرتا ہوں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میں ایک سو روپیہ خرچ کر کے ایک ہزار روپیہ کماؤں گا۔ اگر مجھے یہ یقین نہ ہو تو میں کبھی سو روپیہ روز خرچ کرنے کی ہمت نہ کروں ۔

یہی زندگی کا اصول ہے ۔ آدمی اسی وقت کسی چیز میں اپنی طاقت خرچ کرتا ہے جب کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں جتنا خرچ کروں گا اس سے زیادہ میں حاصل کروں گا۔ یہ یقین نہ ہو تو زندگی کی تمام سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ جائیں ۔

دنیا کے معاملے میں جس طرح لوگ خرچ کرتے ہیں اسی طرح وہ آخرت کے معاملے میں خرچ نہیں کرتے۔ اس کی وجہ کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے معاملے میں نتیجہ فوراً سامنے آجاتا ہے۔ یہاں خرچ کرتے ہوئے آدمی کو یقین رہتا ہے کہ وہ" ایک سو" خرچ کر کے "ایک ہزار " پا سکتا ہے۔ مگر آخرت کے معاملے میں نتیجہ فوراً سامنے نہیں آتا ۔ اس لیے آدمی یقین نہیں کر پاتا کہ وہ جو کچھ خرچ کرے گا وہ اضافے کے ساتھ اس کی طرف لوٹے گا ۔ دنیا کے معاملے میں خرچ کو وہ پیسہ لگانا (Investment) سمجھتاہے اور آخرت کے معاملے میں خرچ کو پیسہ برباد کرنا ۔

آخرت کے معاملےمیں خرچ کا "ریٹرن " اگرچہ اپنی پوری شکل میں اگلی دنیا میں ملے گا مگر اس کا ایک حصہ آدمی کو اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔

یہ دنیوی ریٹرن وہ ہے جو آدمی کو نفسیاتی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کو شکر، قناعت اور اعتماد کی دولت ملتی ہے ۔ وہ اعلیٰ ربانی احساسات کا تجربہ کرتا ہے ۔ وہ بندوں کو دے کر خدا سے پاتا ہے ۔ وہ مادی انفاق کر کے روحانی سرمایہ حاصل کرتا ہے ۔ وہ کھونے میں پانے کی لذت کا تجربہ کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس آخرت کو حسّی طور پر آج ہی کے دن پالیتا ہے جس کو عملی طور پر وہ کل کے دن پائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom