میدانِ عمل

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں الرسالہ کا پرانا قاری ہوں اور اس کو پابندی کے ساتھ شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں۔ مگر مجھے ایک معاملہ میں آپ سے اختلاف ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسلمانوں کو پسپائی کا سبق دیتے ہیں۔ انھوں نے چند "مفکرین اسلام "کا نام لے کر کہا کہ ان کو دیکھئے ، وہ ہمیشہ اقدام کی باتیں کرتے ہیں۔ مسلمان پیغمبر اعظم کی امت ہیں ، وہ پسپائی کے پیغام کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد انھوں نے فخر کے ساتھ فارسی کا مشہور مقولہ دہرایا :

کیش مرداں  نہ کہ مذہب گوسفنداں

میں نے کہا کہ میرے اور مذکورہ مفکرین کے درمیان یہ فرق نہیں ہے کہ میں پسپائی کی بات کرتا ہوں ، اور وہ لوگ اقدام کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی اقدام کی بات کرتے ہیں ۔ جو فرق ہے وہ اس معاملے میں ہے کہ اس اقدام کا میدان کیا ہو ۔ وہ لوگ جنگ اور ٹکراؤ کے میدان میں اقدام کا نعرہ لگاتے ہیں اور میں دعوت اور تبلیغ کے میدان میں اقدام کی تجویز پیش کرتا ہوں ۔ بالفاظ دیگر ، دوسرے لوگ شمشیری اقدام کے مبلغ ہیں اور میں نظریاتی اقدام کا مبلغ ہوں۔ میرا اور ان کا فرق میدانِ اقدام کے بارے میں ہے نہ کہ نفسِ اقدام کے بارے میں۔

اقدام کسی اندھا دُھند کار روائی کا نام نہیں، نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خواہ مخواہ کسی چٹان پر سر پٹک کر اپنی جان دے دے ۔ اقدام ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے ۔ ایک حقیقی اقدام کے لیے وسیع علم اور زبردست ذہانت درکار ہے ۔ اقدام ہمیشہ کسی فریق کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اس کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ پیشگی جائزہ لے کر معلوم کیا جائے کہ حالات کی موافقت کس کےساتھ ہے۔ ایک صورت یہ ہے آپ فریقِ ثانی کے موافق میدان میں اس سے مقابلہ کریں :

To contest on another man's ground.

میدان مقابلہ اگر فریق ثانی کے حق میں ہو تو ایسی حالت میں فریق ثانی سے ٹکرا ؤچھیڑنا اپنے آپ کو جان بوجھ کر شکست کی طرف لے جاتا ہے ۔ جب ایسا ہو تو فریق اول کو چاہیے کہ وہ حکیمانہ تدبیر سے مقابلہ کو اس میدان میں لے آئے جہاں وہ فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ بہتر پوزیشن رکھتا ہو۔

To bring one's enemy to fight on

the ground of one's own choice.

موجودہ زمانہ میں سید احمد شہید بریلوی سے لے کر اب تک ، مسلمانوں نے بے شمار چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑی ہیں اور تقریباً ہر بار انھیں یک طرفہ ناکامی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اقدام برائے اقدام کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ وہ فریق ثانی کے اپنے موافق میدان میں اس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ حالاں کہ عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا ہے کہ حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اس کو خود اپنے موافق میدان میں لایا جائے اور پھر اس سے مقابلہ کیا جائے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے یہاں میں ایک مثال دوں گا۔

ہندستان کے مسلم لیڈر عام طور پر اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ ہندستان کی آزادی کے لیے انھوں نے برابر کی قربانیاں دیں۔ مگر جب ہندستان آزاد ہوا تو انھیں اس میں برابر کا حصہ نہیں ملا۔ ان سے ہر جگہ "امتیاز" کا سلوک کیا جاتا ہے۔

میرے نزدیک یہ شکایت بے معنی ہے۔ یہ مسلم لیڈروں کے فکری افلاس کو بتاتا ہے۔ انھوں نے اصل معاملہ کو نہ ماضی میں جانا، اور نہ آج وہ اس کو جانتے ہیں ۔

مسلم رہنما اس بات کو نہیں جانتے کہ اصل مسئلہ آزادی کے لیے قربانی دینے کا نہیں تھا ۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب آزادی آئے گی تو اس کی شکل کیا ہوگی ۔ دورِ جدید میں ہی ہونا تھا کہ آزادی جمہوریت کے روپ میں آئے ۔مگر مسلم رہنماؤں کا ذہن ماضی میں اتنا زیادہ اٹکا ہو ا تھا کہ وہ سمجھے تھے کہ آزادی جب آئے گی تو وہ" مغل دور " کی واپسی کے ہم معنی ہوگی ۔

اس بات کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک سارس اور ایک لومڑی آپس میں دوست تھے۔ ایک بار دونوں نے طے کیا کہ وہ آپس میں مل کر کھیر پکائیں ۔ کچھ سامان سارس لایا اور کچھ سامان لومڑی ، اور دونوں نے مل کر کھیر پکائی ۔ جب کھیر تیار ہوگئی اور وہ وقت آیا کہ اس کو کھایا جائے تو لومڑی نے ایک ہوشیاری کی ۔ کھیر کو رکھنے کے لیے وہ ایک تشت لے آئی۔ کھیر جب تشت میں رکھی گئی تو وہ زیادہ تر لومڑی کے حصہ میں آگئی۔ لومڑی نے خوب سیر ہوکرکھایا۔ دوسری طرف سارس اپنی لمبی چونچے ادھر ادھر مار تا رہا مگر کھیر کی بہت کم مقدار اس کے حصہ میں آسکی ۔ وہ کھیر پکانے میں شریک تھا ، مگر وہ کھیر کھانے میں شریک نہ ہو سکا۔

اب سارس نے سوچا کہ لومڑی نے تو مجھ کو بیوقوف بنا دیا ۔ اس نے سوچ کر ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اس نے لومڑی سے کہا کہ آؤ ہم لوگ پھر ایک مرتبہ مل کر کھیر پکائیں ۔ لومڑی راضی ہو گئی ۔ دونوں سامان لائے اور کھیر پکا کر تیار کی گئی۔ اب جب کھیر کو برتن میں رکھنے کا مرحلہ آیا تو سارس نے فوراً ایک صراحی پیش کر دی۔ چنانچہ کھیر سب کی سب صراحی کے اندر رکھ دی گئی ۔ اب سارس نے اپنی لمبی چونچ صراحی کے اندر ڈال کر کھیر کو کھا نا شروع کر دیا اور لومڑی سے کہا کہ تم بھی کھاؤ۔ مگر اس بار معاملہ الٹا ہوا ۔ سارس نے خوب سیر ہو کر کھیر کھالی ، لومڑی کے حصہ میں کچھ نہ آیا۔

 یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ مشترکہ کھیر پکانے کا نہیں ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کھیر تیار ہو کر کس قسم کے برتن میں رکھی جائے گی۔ اگر وہ تشت میں رکھی جانے والی ہو تو وہ لومڑی کے حصہ میں چلی جائے گی اور اگر وہ صراحی میں رکھی جائے تو وہ سارس کو ملے گی ، آدمی کی عقل مندی یہ ہے کہ کھیر کواپنے موافق برتن میں رکھنے کی کوشش کرے۔

یہ فرق کیوں

انیسویں صدی کے نصف اول میں انگریز ایک طرف سیاسی اعتبار سے ہندستان میں غلبہ حاصل کر رہے تھے۔ دوسری طرف عیسائی مشنریاں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے اپنی ساری طاقت صرف کر رہی تھیں۔ ہمارے علماء ان دونوں خطرات کے مقابلہ کے لیے اٹھے اور اس کے لیے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں۔ مگر دونوں محاذوں کا انجام ایک دوسرے سے مختلف رہا۔ سیاسی محاذ پر بے پناہ قربانیوں کے باوجود انھیں مکمل ناکامی ہوئی ۔ دوسری طرف مشنری محاذ پر نسبتاً کم تر قربانی کے باوجود انھیں مکمل کامیابی حاصل ہوئی ۔

دونوں محاذوں کے اس فرق کی علامت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ( 1308 - 1233ھ ) ہیں۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے زمانہ میں یورپ سے پادری فنڈر (Funder) آیا اور اس نے ہندستان کے مسلمانوں میں نہایت طاقت کے ساتھ مسیحیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس کے مقابلے کے لیے جو لوگ اٹھے، ان میں ایک ممتاز نام مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا تھا۔ انھوں نے" اظہار الحق "اور دوسری کتابیں لکھیں۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ڈاکٹر وزیر خاں کی مدد سے فنڈر سے مناظرہ کیا۔ آگرہ کے مشہور مناظرہ (10- 11  ا پریل  1854) میں انھوں نے پادری فنڈر کو ایسی شکست دی کہ اس کے بعد وہ ہندستان سے بھاگ کھڑا ہوا اور قسطنطنیہ (ترکی) میں جا کر پناہ لی۔

 اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے ۔ 1857  میں شاملی کے میدان میں علماء نے انگریزی فوج کا مسلح مقابلہ کیا۔ اس مقابلہ میں مولا نا رحمت اللہ کیرانوی بھی شریک تھے۔ اس وقت ہمارے علماء کے پاس روایتی قسم کے دستی ہتھیار تھے ، اور انگریزی فوج کے پاس جدید قسم کے دور مار ہتھیار ۔ اس مقابلے میں علماء کی جماعت کو ، زبر دست قربانی کے باوجود ،مکمل شکست ہوئی۔ اس کے بعد علماء کی گرفتار یاں شروع ہوئیں اور ان کو پھانسی پر چڑھایا جانے لگا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے ہندستان سے مکہ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مہیب جنگلوں اور خطرناک راستوں پر پیدل چلتے ہوئے اور ناقابل بیان تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہوئے سورت کی بندرگاہ پر پہنچے۔ وہاں سے سمندری جہاز پر سوارہو کر جدہ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں مقیم رہے (معارف مئی  1988)

 ان دونوں واقعات کو تقابلی طور پر دیکھئے۔ ایک جگہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے مقابلہ میں پادری فنڈر میدان چھوڑ کر بھاگا تھا، دوسری جگہ پادری فنڈر کے مقابلہ میں خود مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

اس فرق کی وجہ میدان مقابلہ کا فرق ہے۔ آگرہ میں دونوں کے درمیان مقابلہ مناظرہ (فکری اور نظریاتی میدان) میں ہوا تھا۔ فکری اور نظر یاتی میدان میں اسلام ممتاز طور پر ہر ایک کے مقابلہ میں فوقیت رکھتا ہے ۔ اس لیے فریق ثانی کو مکمل نا کامی ہوئی۔ اس کے برعکس شاملی میں جو مقابلہ ہوا وہ فوج اور ہتھیار کے میدان میں تھا۔ اس میدان میں ہمارے علماء فریق ثانی کے مقابلہ میں فیصلہ کن طور پرپسماندہ تھے ۔ ہمارے علماء کے پاس زیادہ تر دستی ہتھیار تھے، جب کہ فریق ثانی دور مار ہتھیاروں سے مسلح تھا، یہی فرق تھا جس کی بنا پر یہاں علماء کو مکمل ناکامی ہوئی ۔

 میں کہوں گا کہ آپ معاملہ پر زیادہ گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم میدان مقابلہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم فریق ثانی کو اس میدان میں لانا چاہتے ہیں جہاں وہ ناموافق پوزیشن میں ہو اور ہم موافق پوزیشن میں ۔ ہمارے اور دوسرے لوگوں میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو اس میدان میں متحرک کرنا چاہتے ہیں جہاں ان کا حریف بھاگے۔ اور دوسرے لوگ مسلمانوں کو وہاں ٹکرانا چاہتے ہیں جہاں بالآخر خود ان کو بھاگنا پڑے۔

مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا واقعہ ، علامتی طور پر ، ہماری پوری جدید تاریخ کی تصویر ہے۔ موجودہ زمانہ میں بار بار یہی ہوا۔ اور اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ مسلمان فریق ثانی سے اس کے موافق میدان میں ٹکر اؤکرتے ہیں اور ہر بار شدید ترین شکست سے دوچار ہو رہے ہیں۔

دین کا استحکام

قرآن میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اللہ تعالی نے اپنے دین کو کامل کر دیا۔ اور اپنی نعمت کی تکمیل کر دی اور قیامت تک کے لیے اسلام کو مقبول دین کی حیثیت سےپسند کر لیا (المائدہ: 3) اس اعلان کے ساتھ مزید ارشاد ہوا ہے :

اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ  ۭ  (المائدہ: 3)

آج انکار کرنے والے تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے، پس تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو۔

قرآن کی یہ آیت ذی الحجہ 9ھ میں اتری۔ اس کے اترنے کے تقریباً ڈھائی مہینے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ۔ اس آیت میں الیوم (آج ) کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن دو مذ ہبی دوروں کے درمیان حد فاصل ہے۔ قرآن کے بعد مذہب کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ پہلے اگر" تخشو هم " کا دور تھا ، تو اب "اخشونی" کا دور ہے۔ پہلے اگرغلبہ ٔکفر کا دورتھا ا تو اب غلبۂ دین کا دور ہے۔ قرآن کی تکمیل نے اب خدا کے دین کو آخری طور پر مستحکم کر دیا ہے۔ اس آیت سے صراحتاً یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اب تشویش اور اندیشہ کی چیز یہ ہے کہ اہل ایمان کے اندر خشیت الٰہی (خدا کا خوف ) باقی نہ رہے ۔ خارجی دشمنوں کی طاقت خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو ، اہل ایمان کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرتی ۔

 دین کے غلبہ و استحکام   سےمراد  اس کا سیاسی غلبہ واستحکام نہیں۔ سیاسی غلبہ اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ۔ مزید یہ کہ وہ اگر ایک مقام پر پایا جاتا ہے تو دوسرے مقام پر نہیں پایا جاتا ۔ اس لیے یہاں غلبہ سے وہ غلبہ مراد لینا ہو گا جو ہر وقت اور ہر جگہ پوری طرح حاصل رہے۔ جس میں کبھی انقطاع ممکن نہ ہو۔ اس قسم کا جاری اور مستمر غلبہ صرف فکر اور نظریہ سے متعلق ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے ۔ یہ قرآن اور دین کامل کی وہ خصوصیت ہے جو اس کو ہر حال میں حاصل رہے گی۔ حتٰی کہ کسی مقام پر کوئی ایک شخص حامل ِ قرآن ہو تو وہ بھی اس سےخالی نہیں ہو سکتا۔

قرآن کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حق میں ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ وہ قیامت تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے ۔ قرآن کے ذریعہ دنیا میں ایسا انقلاب لایا  گیا جس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لیے مذہبی جبر کا ماحول ختم ہو گیا اور آدمی کو آزادانہ طور پر اظہارخیال کا حق حاصل ہو گیا۔ اسی طرح اس انقلاب کے نتیجہ میں علمی ترقیوں کا دروازہ کھلا جس نے دین خداوندی کی صداقت کو خود انسانی علم کے معیار پر مبرہن اور مدلل کر دیا۔ جب یہ سب ہو جائے تو اس کے بعد دین الٰہی کی طاقت بے پناہ ہو جاتی ہے۔ اب خدا کا دین ایک محفوظ اور قائم شدہ دین کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے ۔ اور جب خدا کا دین محفوظ اور قائم شدہ دین کی حیثیت حاصل کرلے تو اس کی طاقت اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی اس کو زیر نہ کر سکے۔

سید احمد شہید بریلوی

اس سلسلے میں ایک مثال سید احمد شہید بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی ہے۔ انھوں نےانیسویں صدی کے ربع ثانی میں پنجاب کے سکھ حکمراں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کیا۔ اس میں انھیں مکمل شکست ہوئی ۔ 6 مئی 1931  کو بالاکوٹ میں سید صاحب اور ان کے اکثر ساتھیوں کو سکھ فوج نے ہلاک کر دیا۔ زبردست جانی اور مالی نقصان کے باوجود اس جنگ کا مطلق کوئی فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملا۔ البتہ یہ نقصان ہوا کہ مغل دور میں گرو گووند سنگھ ، گرو ارجن سنگھ اور گر و تیغ بہادر سنگھ کے قتل سے سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پیدا ہوئی تھی اس میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔

 سید احمد شہید بریلوی کا اقدام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف ناقابل ِفہم حد تک غیر دانشمندانہ تھا۔ اس کی سلطنت تبت سے لے کر درہ خیبر تک پھیلی ہوئی تھی۔ دونوں کی فوجی طاقت میں نا قابل عبور حد تک فرق پایا جا رہا تھا۔ سید صاحب کے پاس غیر تربیت یافتہ مریدین کی ایک بھیڑ تھی جو کہ صرف روایتی ہتھیاروں سے مسلح تھی ۔ دوسری طرف مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج نہ صرف تعداد میں بہت زیادہ تھی ، بلکہ وہ زیادہ جدید ہتھیاروں سے مسلح تھی ۔ حتٰی کہ اس کے پاس تو پیں بھی موجود تھیں۔

 بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب اس واقعہ سے بے خبر تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نہایت مد بر حکمراں ہے۔ فرانس کے ایک سیاح وکٹر جا کو ماں (Victor Jacquemont) نے اس کو چھوٹانپولین (Bonaparte in miniature) لکھا ہے ۔ اسی طرح دوسرے مؤرخوں اور سیاحوں نے مہا راجہ رنجیت سنگھ کے تدبر اور حکمرانی کی صلاحیت کا غیر معمولی الفاظ میں اعتراف کیا ہے ۔ اس کے اسی تدبر کا نتیجہ تھا کہ اس نے فوج کی تنظیم جدید کی اہمیت کو محسوس کیا۔ 1820 ء میں اس نے اپنی فوج کو یورپ کے معیار پر منظم کرنا شروع کیا۔ اس نے یورپ کے 50  فوجی افسروں کو اپنی فوج کی تربیت پر مقرر کیا ، ان میں اکثریت ان فوجی افسروں کی تھی جو نپولین بونا پارٹ کی فوج میں کام کرچکے تھے۔

 انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رنجیت سنگھ کی اس فوج نے 1831  میں سرحدی قبائل کی ایک شورش کو کامیابی کے ساتھ کچل دیا جو ایک جنونی مسلمان سید احمد بریلوی ، کے نعرہ ٔجہاد کے تحت ابھری تھی :

In 1831 it successfully quelled a rising of the Frontier tribesmen roused to a holy war (Jihad) by the Muslim fanatic Sayyed Ahmad (15/507).

سید احمد شہید بریلوی نے سکھوں کے اوپر شمشیری قوت کو استعمال کیا ۔ مگر وہ مکمل طور پر ناکام رہے ۔ ز بر دست نقصان اور قربانی کے باوجود وہ ایک فی صد کے درجہ میں بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے ۔ دوسری طرف انھیں سکھوں کو اسلام کی دعوتی طاقت مسلسل مسخر کرتی رہی ہے۔

گرونانک اسلام کی تعلیمات سے اتنا زیادہ متاثر ہوئے کہ انھوں نے توحید اور رسالتِ محمدی کے عقیدہ کو اپنی مذہبی کتاب (گرو گرنتھ صاحب) میں شامل کیا۔ امرتسر کے سورن مندر کی بنیا د مسلمان بزرگ میاں میر سے رکھوائی گئی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں کچھ علماء گئے تو اس نے تخت سے اتر کر اپنی لمبی داڑھی سے ان کے جوتے صاف کیے۔ اس کے علاوہ بہت سے سکھ ہیں جنھوں نے با قاعدہ کلمۂ توحید کا اقرار کر کے اسلام قبول کر لیا۔ انھیں میں سے ایک مولانا عبید اللہ سندھی ( 1944 – 1872) تھے ۔ وہ سندھ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ بعد کو انھوں نے اسلامی کتا بیں پڑھیں اور اسلام سے متاثر ہو کر اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئے۔ وغیرہ۔

حدیبیہ کی مثال

روایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے بعد کے دور میں تابعین سے کہا کہ تم لوگ فتح مکہ کو فتح  سمجھتے ہو مگر ہم لوگ واقعہ حدیبیہ  کوفتح قرار دیتے تھے ۔عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: ‌تَعدونَ ‌الْفَتْحَ فَتْحَ مَكَّةَ، وَقَدْ كَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فَتْحًا، وَنَحْنُ نَعُدُّ الْفَتْحَ بَيْعَةَ الرِّضْوَانِ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ( سيرة ابن كثير، المجلد الثالث ، صفحه 324)

 فتح مکہ (8ھ ) کھلا ہو افتح کا واقعہ تھا۔ جب کہ حدیبیہ بظاہر شکست اور پسپائی کا واقعہ تھا۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تقریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب عمرہ کے ارادہ سے مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مگر قریش نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا ۔ آپ کو اپنے تمام ساتھیوں سمیت عمرہ ادا کیے بغیر راستہ ہی سے واپس آجا نا پڑا۔ اس کے باوجود صحابہ کرام کے نزدیک فتح کا اصل واقعہ وہ تھا جو حدیبیہ میں پیش آیا نہ کہ وہ جب کہ مکہ میں فاتحانہ داخلہ ہوا ۔

اصحاب رسول کا یہ نقطۂ نظر بتاتا ہے کہ پسپائی  بھی بہت بڑا اقدام ہے ۔ بظا ہر ایک شکست کے واقعہ میں فتح کا راز چھپا ہوتا ہے۔ واقعہ کا یہ پہلو بے حد اہم ہے ، اور اس بنا پر حدیبیہ کے واقعہ کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جانا چاہیے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تقریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ یکم ذی قعدہ 6 ھ کی تاریخ تھی اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا عمرہ کریں۔ قریش پچھلے 6  سال سے مسلمانوں کے لیے زیارت کعبہ کا راستہ بند کیے ہوئے تھے۔ اس مدت میں کوئی مسلمان نہ حج کر سکتا تھا اور نہ عمرہ۔ اس لیے جب انھوں نے سنا کہ ڈیڑھ ہزار مسلمانوں کا قافلہ  آ رہاہے کہ وہ مکہ میں دخل ہو کر عمرہ کرے تو وہ سخت غضبناک ہوگئے۔ ذی قعدہ  کا مہینہ اگرچہ حرام مہینوں میں سے تھا۔ یہ مہینہ سیکڑوں سال سے کعبہ کی زیارت اور حج کے لیے محترم سمجھاجاتا تھا۔ کسی کو یہ حق نہ تھا کہ باہر سے آنے والے کسی شخص کو زیارتِ کعبہ سے روکے۔ مگر قریش نے جاہلی عصبیت کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ وہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دن کی مسافت طے کر کے عُسفان  کے مقام پر پہنچے۔ یہاں آپ کی ملاقات بُسر بن سفیان الکعبی سے ہوئی جو کہ مکہ کی طرف سے آ رہا تھا۔ اس نے بتا یا کہ قریش کو آپ کے اس سفر کی خبر ہو گئی ہے ۔ وہ مکہ سے نکل کر ذی طوی میں جمع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے چیتے کی کھالیں پہن رکھی ہیں (یعنی سخت غضب ناک ہیں) انھوں نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ ہر گز آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔ اور انھوں نے خالد بن ولید کو 200  گھوڑے سواروں کے ساتھ كراع الغمیم کی طرف روانہ کیا ہے تاکہ آپ سے مڈ بھیڑ کریں (سیرت ابن ہشام، الجزء الثالث صفحہ 356)

اب ایک صورت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مقابلےکے لیے تیار ہو جاتے اور اپنے لوگوں کو جہاد و قتال کی راہ میں لگا دیتے۔ مگر آپ نے اس کے بالکل برعکس عمل فرمایا۔ آپ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں کون شخص ہے جو ہم کو خالد کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے سے چلا کر آگے لے جائے (مَنْ رَجُلٌ يَخْرُجُ بِنَا على طريق غير طريقهم التي هم بها ، صفحہ 357)

 عبد اللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ قبیلۂ اسلم کے ایک شخص نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، یہ کام میں کروں گا۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کے قافلہ کو لے کر روانہ ہوا۔ اس نے اس معروف راستہ کو چھوڑ دیا جس پر خالد بن ولید بڑھے ہوئے آرہے تھے۔ اس کے بجائے وہ ایک اور سمت سے روانہ ہوئے ۔ باقاعدہ راستہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر سخت دشواریوں کے ساتھ طے ہوا۔ حتٰی کہ اس پر مشقت سفر پر بعض مسلمانوں کی زبان سے کلمۂ شکایت نکل گیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : کہو کہ ہم اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں اور اس کی طرف تو بہ کرتے ہیں (قولوا نستغفر الله ونتوب اليه ، 357)

 جس موقع پر یہ استغفار اور توبہ کرائی گئی اس کے لحاظ سے دیکھئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ –––– جب تم کو اپنے آپ پر مصیبت اٹھا کر ٹکراؤ سے بچنے کا حکم دیا گیا تو تم نے شکایت کا لفظ کیوں اپنی زبان سے نکالا ۔ تم کو کامل رضا مندی کے ساتھ اس خدائی منصوبہ پر چلنا چاہیے تھا۔ اب جب کہ اس معاملہ میں تم سے بے صبری کا اظہار ہوا ہے تو استغفار اور توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی کرو۔

اصل یہ ہے کہ قریش کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر جنگ چھیڑنا چاہتے تھے مگر آپ نے ہرقیمت پر جنگ سے اعراض کیا۔ خالد بن ولید سواروں کا دستہ لے کر آپ کی طرف بڑھے تو آپ نے راستہ بدل دیا ۔ خراش بن امیہ کو آپ نے سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ وہاں قریش نے ان کے اونٹ کو مار ڈالا ۔ وہ خراش کو بھی قتل کر دینا چاہتے تھے تاہم وہ کسی نہ کسی طرح بھاگ کر واپس آگئے ۔ قیام حدیبیہ کے زمانے میں ایک بار مکہ کے پچاس آدمی رات کے وقت آئے اور صحابہ کے پڑاؤ پر پتھر مارنا اور تیر برسانا شروع کیا۔ انھوں نے آپ کو عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ بذات خود یہ معنی رکھتا تھا کہ آپ مشتعل ہو کر آمادہ ٔجنگ ہو جائیں ۔ آخری مرحلے میں جب معاہدۂ حدیبیہ کی شرطیں مقرر کی جانے لگیں تو انھوں نے یک طرفہ شرائط پر اصرار کیا جو تمام مسلمانوں کے لیے سخت اشتعال انگیزاور نا قابلِ برداشت تھا وغیرہ ۔ مگر آپ برابر ٹکر اؤ سے اعراض کرتے رہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ پہنچ کر رک گئے۔ اس مقام کا موجودہ نام شمیسی ہے اور مکہ سے  تقریباً دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہیں پر قریش کے نمائندوں سے گفتگو ہوئی اور وہ صلح طے پائی جوصلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔

حدیبیہ کے پورے واقعہ پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان ایک بلا اعلان مقابلہ جاری تھا۔ قریش کی ساری کوشش یہ تھی کہ آپ کو میدان ِجنگ میں لے آئیں ۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ہر ظلم کو سہتے ہوئے اور ان کی ہر اشتعال انگیزی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ قریش کو صلح کے میدان میں لے آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر رد عمل اور جوابی کارروائی کا انداز اختیار فرماتے تو قریش کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا اور مسلمان اور قریش ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یک طرفہ صبر اور اعراض اس بات کی ضمانت بن گیا کہ قریش کا خونی منصوبہ کامیاب نہ ہواور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصالحانہ منصوبہ کامیاب ہو جائے۔

یہ در اصل وہی تدبیر تھی جس کو جنگ کی اصطلاح میں(Ground of one's own choice)کہا جاتا ہے۔ یعنی حریف کو مقابلے کے لیے اپنے موافق میدان میں لے آنا۔ اس وقت قریش کے لیے مقابلہ کا موافق میدان جنگ تھا کیوں کہ قریش جنگی طاقت میں واضح طور پر مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے۔ دوسری طرف فکری اور نظریاتی میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل تھی۔ قریش کی بت پرستی کے مقابلے میں اسلام کی توحید ہر اعتبار سے فائق حیثیت رکھتی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری کوشش یہ تھی کہ آپ کے اور قریش کے درمیان مقابلےکا میدان جنگ نہ بنے بلکہ آپ کا اور قریش کا مقابلہ فکری اور نظریاتی میدان میں منتقل ہو جائے۔

تاہم اس مقصد کو حاصل کرنا آسان کام نہ تھا۔ ایک طرف اس کے لیے ضروری تھا کہ آپ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہوں حتٰی کہ قریش کی جارحیت کو بھی خاموشی کے ساتھ برداشت کریں۔ اور دوسری چیز یہ کہ قریش کی ہرشرط کو یکطرفہ طور پر منظور کرتے چلے جائیں۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا۔ حدیبیہ میں آپ کے اور قریش کے درمیان جو معاہدہ طے پایا اس میں تمام شرطیں یک طرفہ طور پر قریش کے حق میں تھیں۔ اس کے باوجود آپ نے ان تمام شرطوں کو اس لیے منظور کر لیا کہ اس کی رو سے قریش اگلے دس سال کے لیے اس بات کے پابند ہو جاتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ جنگ نہیں کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ کا معاہدۂ صلح کر کے مدینہ کے لیے واپس ہوئے تو راستہ میں سورہ فتح نازل ہوئی جس کی پہلی آیت یہ تھی : اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ( الفتح: 1 ) ( ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی) یعنی فریق ثانی مقابلہ کو اپنے موافق میدان (جنگ) کی طرف لے جانا چاہتا تھا۔ مگر اس معاہدہ کے بعد فریق ثانی کے ساتھ تمہارا مقابلہ اس میدان ( دعوت) میں آگیا جو واضح طور پرتمہارے موافق ہے۔

بعد کے حالات نے کامل طور پر اس اندازہ کی تصدیق کر دی۔ حدیبیہ کے نا جنگ معاہدہ کے بعد مسلمانوں اور دیگر قبائل کے درمیان آزادانہ اختلاط شروع ہو گیا۔ توحید کی دعوت بلاروک ٹوک ہر طرف پھیلنے لگی۔ توحید کا پیغام جہاں بھی پہنچا اس نے شرک اور بت پرستی کے ذہن کو ہارنے پر مجبورکر دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صلح حدیبیہ سے پہلے تقریبا ً بیس  سال میں جتنے لوگ مسلمان ہوئے تھے اس سے بہت زیادہ لوگ صلح حدیبیہ کے بعد صرف دو سال میں مسلمان ہو گئے۔ اب اسلام کی عددی طاقت اتنی  زیادہ ہو چکی تھی کہ قریش کے اندر مقابلہ کا حوصلہ باقی نہ رہا۔ وہی قریش جنھوں نے 6 ھ  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحا ب  کو مکہ میں صرف عمرہ کی غرض سے داخل ہونے پر پابندی لگادی تھی، 8 ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف فاتحانہ کوچ کیا تو قریش کے سردار نے مکہ میں اعلان کر دیا کہ اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ، کیوں کہ آج ہمارے اندر محمد سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔

 صلح حدیبیہ ، ایک لفظ میں، فریق ثانی سے مقابلہ کو جنگ کے میدان سے نکال کر دعوت کے میدان میں لانا ہے۔ یہ اسلام کی حکمت بالغہ کی اعلیٰ ترین مثال  ہے۔ اور اس مثال کا سب سے اعلیٰ نمونہ وہ ہے جو خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے قائم فرمایا۔

وسیع تر میدان

ظاہری طور پر دیکھنے میں حدیبیہ کا واقعہ میدانِ مقابلہ سے واپسی کا واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو وہ چھوٹے مقابلے سے ہٹ کر بڑے مقابلے کی طرف جانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "حدیبیہ " محدود میدان ِمقابلہ کو چھوڑ کر زیادہ وسیع میدانِ مقابلہ کی طرف اقدام تھا۔ اس اعتبار سے وہ بلا شبہ تدبیری حکمت (Strategy) کی ایک شاہکار مثال ہے ۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بے مشن آدمی نہ تھے ۔ بلکہ آپ کا ایک عظیم الشان مشن تھا۔ اور صاحب مشن آدمی کے لیے پسپائی کا کوئی سوال نہیں ۔ آپ کا معاملہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ وہ شرک کے بجائے توحید کا طریقہ اختیار کریں۔ آپ مخلوق پرستی کے بجائے خالق پرستی ، بے اصول زندگی کے بجائے با اصول زندگی، دنیا پسندی کے بجائے آخرت پسندی ، مصنوعی طریقوں کے بجائے فطری طریقوں کو اختیار کرنے کے علم بردار تھے۔ آپ کے یہ افکار دنیا کے تمام افکار سے زیادہ طاقتور تھے۔ مگر مسلسل جنگی حالات نے آپ کے افکار کی اس طاقت کو ظاہر ہونے سے روک رکھا تھا۔

اس معاملہ کو ایک عام مثال کے ذریعہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک سائنسداں اور ایک نیگرو باکسر کا مقابلہ اگر باکسنگ کے اکھاڑے میں ہو رہا ہو تو وہاں یقینی طور پر باکسر کا پلہ بھاری رہے گا لیکن اگر سائنس داں کسی حکمت سے مقابلہ کے میدان کو بدل دے اور باکسر کو با کسنگ کے اکھاڑے سے نکال کر سائنٹفک بحث کی میز پر لے آئے تو یقینی طور پر صورت حال بدل جائے گی۔ پہلے اگر باکسر کاپلہ بھاری تھا تو اب سائنس داں کی جیت یقینی ہو جائے گی۔

 قدیم عرب میں ہجرت کے بعد یہ صورت حال تھی کہ قریش کی ہٹ دھرمی نے "جنگ "کو مقابلہ کا میدان بنا دیا تھا۔ صلح حدیبیہ کی صورت میں جب دونوں فریقوں کے درمیان دس سال کا نا جنگ معاہدہ (No-war pact) ہوا تو اس کے بعد مقابلے کا میدان بدل گیا۔ اب میدانِ جنگ کے بجائے میدانِ افکار مقابلہ کا مقام قرار پایا۔ اس دوسرے میدان میں اہل اسلام واضح طور پر اپنے فریق کے مقابلے میں فائق حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نئے میدان میں آتے ہی اسلام کی فکری اور نظریاتی فتح کا سیلاب پھٹ پڑا ۔ لوگ جوق در جوق مذہبِ توحید کے دائرے میں داخل ہو گئے ––– میز کی سطح پر آتے ہی "باکسر" کے مقابلہ میں" سائنس داں " کی جیت یقینی ہوگئی۔

حدیبیہ کے وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف جا رہے تھے تو آپ کے ساتھ ڈیڑھ ہزار سے بھی کم آدمی تھے۔ اس کے دو برس بعد آپ نے دوبارہ مکہ کی طرف سفر کیا تو آپ کے ہمراہ دس ہزار آدمی تھے۔ چنانچہ جب آپ مکہ کے قریب پہنچے اور لوگوں نے آپ کے ساتھ انسانوں کا سیلاب دیکھا تو مکہ کےسرداروں نے مکہ میں اعلان کر دیا کہ گھروں میں بیٹھ جاؤ، کیوں کہ آج ہمارے اندر محمد سے لڑنے کی طاقت نہیں  –––––  مکہ خون بہائے بغیر فتح ہو گیا اور اسی کے ساتھ ساری عرب قوم بھی۔

یہ مکمل طور پر ایک غیر خونی انقلاب تھا۔ مگر اس غیر خونی انقلاب کو وجود میں لانے کے لیے اس کے قائد کو خود خون ہونا پڑا ۔ اس کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایسی شرائط پر راضی ہوئے جو بظاہر انتہائی طور پر یک طرفہ شرائط تھیں ۔ آپ کو آگے جانے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ آپ کو فتح حاصل کرنے کے لیے شکست پر راضی ہونا پڑا۔ حتٰی کہ آپ کو اپنی حیثیت اصلی (رسول اللہ) کا لفظ کاغذسے حذف کرنا پڑا  تاکہ وہ دوبارہ زیادہ کامل طور پر عالمی نقشہ پر لکھا جائے ۔

ضروری شرط

حریف سے اپنے موافق میدان میں مقابلہ کرنا ، اس کے اوپر فتح حاصل کرنے کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر ہے۔ یہ تدبیر حریف کے مقابلے میں کامیابی کو یقینی بنا دیتی ہے۔ مگر اس تدبیر کو استعمال کرنے کی ایک ضروری شرط ہے ۔ لوگ چونکہ اس شرط کو پور انہیں کر پاتے ، اس لیے وہ اس کے فائدے سے بھی محروم رہتے ہیں۔

 یہ شرط ، ایک لفظ میں، اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ جب بھی کسی سے مقابلہ پیش آتا ہے تو اس کی طرف سے طرح طرح کی مخالفانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔اشتعال انگیز الفاظ سے لے کر عملی نقصانات تک ہر قسم کے تلخ تجربات سامنے آتے ہیں۔ اس وقت اگر آدمی بھڑک اٹھے تو وہ وقتی جوش کے ساتھ حریف سے وہاں ٹکر اجائے گا جہاں وہ کھڑا ہوا ہے لیکن اگر وہ اشتعال انگیزی کے با وجود مشتعل نہ ہوا اور ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر مقابلےکا منصوبہ بنائے تو وہ کوشش کرے گا کہ حریف کو اپنے موافق میدان میں لائے۔ اور جب ایسا ہو گا تو اس کی کامیابی یقینی ہو جائے گی۔

 موجودہ زمانہ کے مسلمان جان و مال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہر بار اپنے حریف سےشکست کھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حریف کی طرف سے کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً بھڑک کر اس سے لڑ جاتے ہیں۔ اور یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ رد عمل کے تحت کی جانے والی لڑائی کا انجام ہمیشہ شکست ہو ، اور رد عمل سے اوپر اٹھ کر کیے جانے والے مقابلہ کا انجام ہمیشہ فتح کی صورت میں نکلے۔

جامد گروه ، توسیعی گروه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو القعدہ 6 ھ میں حدیبیہ کا معاہدہ کر کے مدینہ کے لیے واپس ہوئے۔ ابھی آپ راستہ ہی میں تھے کہ یہ آیت اترى : اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ( الفتح: 1 ) یعنی ہم نے تم کو تمہارے مخالفوں کے اوپر کھلی فتح دے دی۔ حدیبیہ کی صلح بظا ہر فریق ثانی کی شرطوں پر کی گئی تھی ، اس لیے جب یہ آیت اتری تو آپ کے اصحاب نے طرح طرح کے سوالات کیے۔ ان میں سے ایک یہ تھا :

فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: أي رَسُولَ اللَّهِ، وَفَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ: "إِي وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، ‌إِنَّهُ ‌لَفَتْحٌ" (تفسير ابن كثير، الجزء الرابع ، 183)

اصحاب رسول میں سے ایک شخص نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، کیا وہ فتح ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ، بے شک وہ فتح ہے ۔

متعد د صحابہ سے مروی ہے کہ انھوں نے بعد کے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو مگرہم لوگ حد یبیہ کوفتح سمجھتے تھے (صفحہ 183) اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ کے معاہدہ نے اہل اسلام کو توسیعی گروہ کی حیثیت دے دی۔ اور اہل شرک محض جامد گروہ بن کر رہ گئے ۔ حدیبیہ کے معاہدہ سے پہلے دونوں گروہوں کے درمیان ٹکر اؤ اور مڈ بھیڑ کی فضا تھی ۔ اب تک دونوں کی ملاقات صرف میدانِ مقابلہ میں ہوتی تھی ، صلح کے بعد میدان دعوت میں دونوں کی ملاقات کے مواقع پیدا ہو گئے ۔ شرک جہاں تھا وہیں رہا۔ مگر اسلام ایسی پوزیشن میں آگیا جہاں سے وہ لوگوں کے دلوں میں نفوذ کر سکے۔

جب ایسا ہو کہ ایک گروہ جامد گر وہ ہو اور دو سر اگر وہ توسیعی گروہ کی حیثیت حاصل کرلےتو اس کے فوراً بعد جو واقعہ ہو گا وہ یہ کہ جامد گر وہ گھٹنا شروع ہو جائے گا۔ اور توسیعی گروہ مسلسل بڑھنے لگے گا۔ اور جہاں اس قسم کا عمل شروع ہو جائے وہاں بالآخرجو نتیجہ نکلے گا وہ وہی ہو گا جو عرب میں ہوا  –––––– شرک کو مانے والے دھیرے دھیرے اسلام میں داخل ہو گئے۔ چند سال بعد ہی دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جہاں دو متقابل گروہ تھے وہاں اب صرف ایک گروہ باقی رہ گیا ہے ۔ اور وہ اہلِ اسلام کا گروہ ہے ۔

پہاڑ کے اوپر سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوا ۔ وہ آگے کی طرف بڑھتا رہا ، یہاں تک کہ اس کے راستہ میں ایک چٹان آگئی ۔ اب چشمہ کیا کرے گا۔ وہ فوراً دائیں یا بائیں مڑ کر اپنا راستہ بنالے گا۔ چٹان ایک جامد چیز ہے ، وہ جہاں ہے وہیں کھڑی رہتی ہے۔ اب اگر چشمہ صرف اس سے ٹکر اتار ہے تو اس کا سفر رک جائے گا ، اس کے بعد چشمہ کا معاملہ بھی جمود کا معاملہ بن جائے گا۔ جس طرح چٹان کا معاملہ جمود کا معاملہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چشمہ ٹکراؤ پر قائم رہنے کے بجائے اعراض کی پالیسی اختیار کرتا ہے۔وہ چٹان کو جمود کی دنیا میں چھوڑ کر اپنے لیے توسیع کی دنیا حاصل کر لیتا ہے۔

 یہ قدرت کا سبق ہے۔ اسلام ایک دعوت ہے ، وہ ایک پھیلنے والی اور بڑھنے والی حقیقت ہے۔ وہ ایک توسیعی پروگرام ہے۔ اس کے مقابلے میں غیر اسلام ایک  جامد چیزہے۔ وہ پھیلنے اور آگے بڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اب اسلام اور غیر اسلام کے ٹکراؤ کے وقت اگر اسلام یہ کرے کہ وہ وہیں ٹھہر کر مقابلہ شروع کر دے تو وہ بھی اسی طرح جامد بن جائے گا جس طرح غیر اسلام جامد ہے۔ وہ اپنی توسیعی حیثیت کو کھو دے گا جو اس کی اصل حیثیت اور اس کی اصل طاقت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی دعوت میں اعراض (Avoidance) کے اصول کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی 23  سالہ پیرانہ زندگی میں مسلسل اسی اصول ِاعراض پر عمل فرمایا ہے۔ مکہ کے ابتدائی 13  سال میں مشرکین کےمسلسل ظلم کے باوجود آپ نے ان سے ٹکراؤنہیں کیا، یہ یہی اعراض تھا۔ حالات زیادہ سخت ہو گئے تو آپ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے، یہ بھی اعراض تھا۔ حدیبیہ کے موقع پر زیارت کعبہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو آپ اصرار کے بغیر درمیان سے واپس آگئے، یہ بھی اعراض تھا۔

اسی طرح  ہرٹکر اؤکے موقع پر آپ نے آخری امکان کی حد تک اعراض کیا ہے ۔ کیوں کہ اعراض نہ کرنا گویا اپنے آپ کو فریق ثانی کی طرح جا مدگر وہ بنا لینے کے ہم معنی تھا ، جب کہ اعراض کر کے آپ نے اپنے کو توسیعی گروہ کی حیثیت دے دی۔ اور توسیعی گروہ کی حیثیت حاصل کرنے ہی کا دوسرا نام غلبہ اور کامیابی ہے۔

تاریخ کا تجربہ

اسلام دینِ کامل ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام میں اگر ایک طرف نظری طور پر تمام ضروری باتیں بتا دی گئی ہیں، تو اسی کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں ہر قسم کی واضح مثالیں بھی قائم کر دی گئی ہیں ۔ تاکہ لوگوں کے لیے اسلامی تعلیمات کا سمجھنا آسان ہو جائے ۔

 اسی سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جو شمشیر کی طاقت اور دعوت کی طاقت کے فرق سے تعلق رکھتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی ذات اسلام کی تاریخ میں "شمشیر " کی طاقت کا نشان ہے۔ انھوں نے مغرب کی عیسائی طاقتوں کو حطین (شمالی فلسطین ) کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی ۔ اور دوسو سالہ صلیبی جنگ کا خاتمہ کیا ۔ وہ 3  اکتوبر 1187 کو دوبارہ یروشلم میں فاتحانہ داخل ہوئے۔جو 88  سال سے عیسائیوں کے قبضے میں پڑا ہوا تھا۔

صلاح الدین ایوبی کا انتقال 4  مارچ 1193ء کو ہوا۔ اس جنگی ہیرو کے انتقال کے صرف25 سال بعد تاریخ دوسرا منظر پیش کرتی ہے ۔ چنگیز خاں کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ 1218 ء میں وہ 20 ہزار وحشی قبائل کولے کر مسلم سلطنت (خوارزم ) پر حملہ کر دے۔ چنگیز خاں اگر چہ جلد ہی گھوڑے سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ مگر اس کے جانشین تا تاریوں کی پیش قدمی مسلم دنیا میں بلا روک ٹوک جاری رہی۔ یہاں تک کہ انھوں نے سمرقند سے لے کر بغداد تک پوری مسلم دنیا کو تہس نہس کر ڈالا۔

تاتاریوں کا یہ غلبہ اتنا شدید اور اتنا ہمہ گیر تھاکہ مسلم دنیا  میں یہ کہا جانے لگا کہ : إذا قیل لك أن التترا انھزمو ا فلا تصدق( اگر تم سے کہا جائے کہ  تا تاری شکست کھا گئے تو اس کو نہ ماننا) تاتاریوں کے اس دہشت خیز طوفان کو کس چیز نے ختم کیا ، اس کا جواب صرف ایک ہے، اور وہ دعوت ہے۔ پچھلے صلیبی مسئلہ سے اگرمسلم دنیا نے شمشیر کی طاقت کے ذریعہ نجات پائی تھی تو تاتاریوں کےشدید تر مسئلہ سے مسلمانوں نے دعوت کی طاقت کے ذریعہ فتح حاصل کی۔

تاتاریوں کے مقابلےمیں مسلمانوں کے پاس تلوار کی طاقت باقی نہیں رہی تھی، اس لیے زیادہ تر مجبورا نہ طور پر نہ کہ شعوری طور پر یہ ہوا کہ انھوں نے تاتاریوں کے درمیان دعوت کا خاموش اور پر امن کام شروع کر دیا ۔ تاتاریوں کے پاس اپنی کوئی طاقت ور تہذیب موجود نہ تھی ، اس لیے وہ خود بخود مسلم تہذیب سے متاثر ہونے لگے۔ اسی کے ساتھ مختلف طریقوں سے انھیں براہ راست یا  بالواسطہ طور پر اسلام کا پیغام پہنچنے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر ایک نئی فکری تبدیلی شروع ہو گئی ۔ چنگیز خاں کے جن تاتاری جانشینوں نے 13 ویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اسلام کی سیاسی قوت کو تاراج کیا تھا، انھوں نے اسی صدی کے خاتمہ تک اسلام کی فکری قوت سے مفتوح ہو کر بہت بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیا۔

پر وفیسر فلپ ہٹی کے الفاظ میں، مسلمانوں کے مذہب نے وہاں کامیابی حاصل کر لی جہاں ان کے ہتھیار نا کام ہو چکے تھے :

The religion of the Moslims had conquered where their arms had failed (p. 488).

یہاں مزید یہ یا د رکھنا چاہیے کہ صلیبیوں کا حملہ جس پر صلاح الدین ایوبی نے فتح پائی ، وہ صرف اپنے مقدس مقام (یروشلم) پر قبضہ کرنے کے لیے تھا ، جب کہ تاتاری جن پر دعوت کے ذریعہ فتح حاصل ہوئی وہ پوری مسلم دنیا کو تاراج کرنے کے لیے اٹھے تھے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکے تھے ۔

مغل حکمراں بابر اسی چنگیز خاں کی نسل سے تھا۔ وہ 1526ء میں دہلی میں داخل ہوا۔ یہ اسی کی نسل تھی جو 1857 تک موجودہ ہندستان (بھارت) سے بہت زیادہ بڑے ملک پر اسلام کی خادم بنی رہی اسلام کے لیے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں۔

اسی زمانے میں وہ ترکستانی قبائل اٹھے جن کو سلجوقی ترک یا ترکان غز (Oguz Turkmen) کہا جاتا ہے۔ اپنے ابتدائی زمانے میں انھوں نے ایران اور اس کے ملحق علاقوں میں زبر دست تباہی پھیلائی۔ان سے مقابلے کے لیے مسلمانوں کے پاس تلوار کی طاقت موجود نہ تھی۔ کیوں کہ چنگیز خان اور اس کی نسل ( تا تاری ) پہلے ہی اس کو آخری حد تک توڑ چکے تھے۔

مغل تاتاریوں کی طرح ، ترکان غز کے سلسلے میں دعوت کی خاموش اور پر امن طاقت ہی مسلمانوں کے کام آئی۔ تاریخ اگرچہ اس کی تفصیل نہیں بتاتی کہ ترکان غز کے قبائل پر دعوتی کام کس طرح کیا گیا۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ اسلام کی دعوتی طاقت ہی نے آخر کار انھیں مسخر کیا۔ ان کا مسئلہ صرف اس طرح ختم ہوا کہ وہ اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے دینی بھائی بن گئے۔

 پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے مذکورہ بالا دونوں واقعات کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔اس سلسلے میں وہ اپنی کتاب "پریچنگ آف اسلام" میں لکھتے ہیں :

In the hours of its political degradation, Islam has achieved some of its most brilliant; spiritual conquests: on two great historical occasions, infidel barbarians have set their feet on the necks of the followers of the Prophet, the Saljuq Turks in the eleventh and the Mongols in the thirteenth century, and in each case the conquerors have accepted the religion of the conquered (p.2).

اپنے سیاسی زوال کے زمانے میں اسلام نے اپنی بعض انتہائی شاندار روحانی فتوحات حاصل کی ہیں۔ دو بڑے تاریخی مواقع پر وحشی کافروں نے اپنے پاؤں محمد کے پیرؤوں کی گردن پر رکھ دیے تھے ۔ گیارھویں صدی عیسوی میں سلجوق ترکوں نے اور تیرھویں صدی عیسوی میں مغلوں نے ، مگر ہر بار فاتح نے اپنے مفتوح کے مذہب کو قبول کر لیا ۔

 اسلام کی تاریخ میں ایک ممتاز نام عثمانی ترکوں کا آتا ہے ۔ یہ انھیں ترکان غز کی اولاد تھےجن کا اوپر ذکر ہوا۔ انھوں نے ترکی میں اس عظیم خلافت کی بنیاد ڈالی جو چھ سو سال تک مسلسل قائم رہی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ صرف 1922ء میں ختم ہوسکی :

Turkish Osman, who is regarded as the founder of the empire that spanned six centuries and came to an end only in 1922.

Encyclopaedia Britannica, vol. 13, p. 771.

یہی عثمانی ترک تھے جنھوں نے ترکی کی وہ عظیم خلافت قائم کی جس کا صدر مقام قسطنطنیہ تھا۔ یہ خلافت پہلی جنگ عظیم تک پوری طاقت کے ساتھ اسلام کی پاسبانی کرتی رہی۔ یہ مدت چھ سو سال تک پھیلی ہوئی ہے۔

گو یا صلاح الدین ایوبی کی شمشیری طاقت صرف 25 سال کے لیے اسلام کی پاسبان بنی تھی ، مگر اسلام کی دعوتی طاقت چھ سو سال تک اسلام کی عالمی پاسبانی کرتی رہی ۔ یہ واقعہ قیامت تک کے لیے اس بات کی نشانی ہے کہ تلوار کے مقابلے میں دعوت کی طاقت بے شمار گنا حد تک زیادہ ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ "تلوار" کی عظمت کے قصیدے پڑھیں اور دعوت کو ناقابل لحاظ سمجھ کر چھوڑ دیں ، ان سے زیادہ نادان بلاشبہ اس آسمان کے نیچے اور کوئی نہیں۔

قومی سیاست

اسلام ایک قائم شدہ مذہب اور تاریخی طور پر ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جب کوئی دین یہ حیثیت حاصل کرلے تو وہ اپنے آپ پھیلنے لگتا ہے ۔ چنانچہ دور اول کے بعد ایک ہزار سال سےبھی زیادہ مدت تک اسلام اپنے آپ پھیلتا رہا ہے۔

اسلام کے پھیلاؤ میں پہلی بار رکاوٹ موجودہ نیشنلزم کے دور میں پیدا ہوئی۔ قدیم زمانے میں ایک فوج کا دوسری فوج سے ٹکر اؤ پیش آتا تھا۔ عام انسانی آبادی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ موجودہ زمانےمیں ایک قوم دوسری قوم سے ٹکراتی ہے۔ اس طرح ٹکراؤ سے بننے والی دوری اور منافرت پوری کی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے دعوت کے اعتبار سے جو سب سے بڑا جرم کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انھوں نے دوسری قوموں کی تقلید میں اپنی ملّی جد و جہد کے لیے "قومی سیاست" کا اندازہ اختیار کر لیا۔ اس طرح اسلام کی لمبی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پوری کی پوری قومیں اسلام سےمتنفر ہوگئیں۔

مسلمانوں پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ قومی سیاست کا انداز مکمل طور پر چھوڑ دیں، تا کہ قومی سطح پر پیدا ہونے والی ضد اور نفرت کی فضا ختم ہو اور اسلام کی اشاعتِ عام کا دروازہ کھلے ۔ قومی سیاست کا تَرک ہماری ملّی جد وجہد کا پہلا زینہ ہے ، اس کے بغیر ملی جد و جہد سکیڑوں سال میں بھی کسی نتیجے پر پہنچنے والی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom