بربادی کے رہنما

ہفت روزہ نئی دنیا (29 جولائی - 4 اگست 1988) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے" اہم قائدین " لکھنؤ کے ایک بزرگ عالم سے ملے ۔ قائدین نے ان سے اجودھیا مارچ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ۔ مطبوعہ رپورٹ کے مطابق، مذکورہ عالم نے واضح طور پر کہا کہ اجودھیا مارچ کوئی فقہی مسئلہ نہیں ہے جس پر کسی فتوے کی ضرورت ہو یا اس کی کوئی اہمیت ہو ۔" بابری مسجد رابطہ کمیٹی نے مولانا موصوف سے اس سلسلے میں ان کی رائے طلب کی تھی۔ لیکن مولانا نے صاف کہہ دیا کہ اس مسئلہ پر کسی فتویٰ کی ضرورت نہیں ، یہ ایک غیر فقہی مسئلہ ہے "۔ صفحہ 3

 1۔ فقہ علم شریعت کا نام ہے ۔ اور اجودھیا مارچ ، ذمہ داروں کے اعلان کے مطابق ، یہ ہے کہ مسلمان جلوس بنا کر بڑی تعداد میں اجودھیا جائیں اور وہاں بابری مسجد کے اندر جمعہ کی نماز پڑھیں۔ اب یہ نا قابلِ فہم ہے کہ ایک ایسا مسئلہ جس کا تعلق مسجد اور نماز سے ہو ، اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جائے کہ وہ فقہی اور شرعی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس معاملے میں شریعت سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ شریعت جو چودہ سو سال  سے استنجا اور طہارت تک کے معاملات میں مسلمانوں کی رہنما بنی ہوئی تھی ، اب وہ مسجد اور نماز کے معاملےمیں بھی رہنمائی دینے سے عاجز یا غیر متعلق ہو گئی ہے ۔ اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس معاملے کو دور پریس کی اُس مخلوق کے حوالے کر دیں جس کو عام طور پر سیاسی لیڈر (صحیح تر لفظ میں سیاسی تاجر) کہا جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک انتہائی عجیب واقعہ ہے جو مسلمانوں کی لمبی تاریخ میں شاید اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا ۔

قائدین تحریک کے اعلان کے مطابق ، اجودھیا مارچ یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں کےمسلمان سفر کر کے 14 اکتوبر 1988  کو اجو دھیا پہنچیں اور وہاں بابری مسجد میں داخل ہو کر نماز جمعہ اداکریں ۔ یہ منصوبہ واضح طور پر اس فرمانِ رسول کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی صرف تین مسجدیں ہیں جن کے لیے شدِ رحال جائز ہے ، ان کے سوا کسی اور مسجد کے لیے جائز نہیں ۔ حدیث میں جن تین استثنائی مسجدوں کا نام لیا گیا ہے ، ان میں اجودھیا کی بابری مسجد یقینی طور پر شامل نہیں ہے ، اس لیےاس کے واسطے عبادتی شدر حال بھی جائزنہیں ہو سکتا (ملاحظہ ہو الرسالہ اگست  1988)

معلوم ہوا کہ نماز کی ادائیگی کے لیے دور کے بیرونی مقامات سے کوچ کر کے اجودھیا جانا اور وہاں کی بابری مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرنا صر احتاً حدیث رسول سے ٹکراتا ہے ۔ اور جب کوئی عمل قرآن اور حدیث سے ٹکرائے تو یہی ٹکراؤ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ایک شرعی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے معاملے میں شریعت سے رہنمائی حاصل کریں ، اور جو قدم اٹھائیں شریعت کی مطابقت میں اٹھائیں ۔

3۔اجودھیا مارچ کسی خالی جزیرہ کی طرف مارچ نہیں ہے ۔ وہ ایسے مقام کی طرف مارچ ہے جہاں پہلے سے ایک طاقت ور فریق موجود ہے۔ اگر یہ مارچ ہوتا ہے تو ایک طرف مسلمان ہوں گے جو جلوس کی صورت میں سفر کر کے وہاں پہنچیں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بابری مسجد پر غاصبانہ قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے لیڈروں نے بار بار اعلان کیا ہے کہ مسلمان مکمل طور پر غیر مسلح حالت میں اجودھیا جائیں گے ۔ دوسری طرف قبضہ کرنے والے ہیں جن کا کھلا ہوا اعلان ہے کہ وہ مقررہ تاریخ کو تربیت یافتہ نوجوانوں کے دستے بہت بڑی تعداد میں اجودھیا میں اور اجودھیا کے باہر متعین کر دیں گے جو مسلمانوں کو بجبر بابری مسجد تک جانے سے روکیں گے ۔ اور اگر مسلمان پھر بھی نہ مانیں تو وہ ان کو کچل کر رکھ دیں گے ۔

اس قسم کے غیر مساویانہ مارچ کے لیے کسی شاعر کی شاعری یا کسی خطیب کی خطابت میں تو جواز مل سکتا ہے ، مگر قرآن و سنت میں اس کے لیے کوئی جواز نہیں۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے مخالفین سےمقابلےکے وقت بچاؤ کا اہتمام کرو (النساء: 71) اسی طرح قرآن میں حکم ہے کہ ایسی قوت فراہم کر وجو تمہارےدشمنوں کو ہیبت زدہ کر دینے والی ہو( الانفال : 60) ان احکام کی روشنی میں دیکھئے تو مجوزہ مارچ اپنی موجودہ صورت میں خدائی ہدایات کے بالکل خلاف ہے ۔ کیوں کہ وہ ضروری تیاری کے بغیر کیا جانے والا ہے ، وہ عملی طور پر نہتی مسلم اقلیت کو ہتھیار بند غیر مسلم اکثریت سے ٹکرانے کے ہم معنی ہے ۔

4۔مارچ کے ذمہ داروں کو مذکورہ نازک صورت حال کا بخوبی علم ہے۔ تاہم ان کا جواب یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیوں کہ امن و نظم کو بحال رکھنا اور عوامی جلوس کو حفاظت مہیا کرنا حکومت اور پولس کی ذمہ داری ہے ، اور اس کو اسے انجام دینا چاہیے ۔

اجودھیا مارچ کے موقع پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جس تصادم کا یقینی اندیشہ ہے ، اس قسم کے فرقہ وارانہ تصادم 1947 سے اب تک بار بار مختلف شکلوں میں پیش آتے رہے ہیں۔ حتٰی  کہ ان کی تعداد اب دس ہزار سے بھی زیادہ ہو چکی ہے ۔ مگر خود انھیں مسلم لیڈروں کے چھپے ہوئے بیانات کے مطابق ، ہر ایسے تصادم میں پولیس اور انتظامیہ نے ہمیشہ جانبدارانہ معاملہ کیا ہے۔ یعنی وہ غیر مسلم فرقہ کو حفاظت دے کر مسلم فرقہ کے لوگوں کو یک طرفہ طور پر اپنے ظلم کا نشانہ بناتی ہے ۔ (مثال کے طور پر میرٹھ اور ملیانہ کا واقعہ، اپریل -مئی 1987) ایسی حالت میں مسلم لیڈروں کا مذکورہ جواب اس حدیث رسول سے ٹکرا رہا ہے کہ مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ إنَّ ‌الْمُؤْمِنَ ‌لَا ‌يُلْدَغُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ(السنن الكبرى – البيهقي،حدیث  نمبر 18029)جب ایک خطر ناک بل کا دوبار تجربہ کر نا بھی ایمان کے خلاف ہو تو ایسی ایک معلوم بل کا دس ہزار بارتجربہ کرنا کیوں کر شریعت کے مطابق ہو سکتا ہے ۔

5۔اجودھیا مارچ کے موقع پر پولیس اور انتظامیہ کا یہ متوقع کر دار محض قیاس نہیں ہے۔ وہ "مرشد آباد مارچ " کی صورت میں انتہائی بھیانک طور پر پیشگی سامنے آچکا ہے ۔ بنگال اور بہار کےمسلمان ، مقامی مسلم لیڈروں کی رہنمائی میں ،  تقریباً  50 ہزار کی تعداد میں 24 جون  1988  کو مر شد آباد( مغربی بنگال) پہنچے تاکہ وہاں کی قدیم کٹرہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کریں۔ مگر خود مسلم لیڈروں کا بیان ہے کہ وہاں کی پولیس اور انتظامیہ نے جانتے بوجھتے ان نہتے مسلمانوں کو غیر مسلم فرقہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جنھوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے خونخوار عزائم کا نشانہ بنایا۔ مسلمان کٹرہ مسجد تک پہنچ کر نماز بھی ادا نہ کر سکے ۔ ان میں سے کچھ لوگ راستہ ہی میں ہلاک ہو گئے ، اور کچھ لوگ لٹ کر اور زخمی ہو کر اپنے گھروں کو ناکام واپس لوٹ آئے ۔

جس پولس اور انتظامیہ کے نکمے پن کا یہ تجربہ ہو ، اس کی حفاظت کے بھروسہ پر نہتے مسلمانوں کو تشدد پر آمادہ مجمع کے درمیان بھیجنا ، شریعت تو   در کنار ، عقلِ عام کے (Common sense)بھی خلاف ہے ۔

بعض ہو شیار لیڈر کہتے ہیں کہ ان مواقع پر اگر کچھ مسلمان مارے جائیں تو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ کیوں کہ اس طرح ہمارا پروٹسٹ تو رجسڑ رہتا ہے ۔ میں کہوں گا کہ اگر پروٹسٹ ہی رجسٹر کرنا مقصود ہے تو اس کے لیے عوام کو مروانا بے فائدہ ہے۔ پھر تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمارے بے ریش اور باریش لیڈر نکلیں اور زبردستی خطرہ کے مقامات میں گھس کر لاٹھیاں اور گولیاں کھائیں۔ اگر لیڈروں میں سے کچھ لوگ مریں اور ان کی لاشیں سڑکوں پر نظر آئیں تو ہمارا پروٹسٹ زیادہ جلی خط

(Bold letters) میں رجسٹر ہو گا ، عوام کے مرنے کی صورت میں تو وہ صرف خفی خط میں رجسٹر ہو رہا ہے۔

6۔قرآن (الحج: 67) میں حکم دیا گیا ہے کہ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ  ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْم (پس وہ تم سے نزاع کی راہ نہ پائیں اور اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔ بے شک تم سیدھے راستہ پر ہو)۔ یہ ایک اہم تعلیم ہے جو قرآن وحدیث میں مختلف انداز سے دی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں نزاع اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرو ، بلکہ دعوت کا طریقہ اختیار کرو۔ موجودہ مسلم لیڈروں نے مسلم ملت کے مسائل کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے ، اس کو اگر سیاسی عمل (Political activism) کہا جائے تو اس سلسلے میں اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کو دعوتی عمل (Dawah activism) کہا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسی طریق کار کی نہایت اعلیٰ مثال ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہے ، آپ کے زمانے میں سب سے زیادہ محترم مسجد کعبہ میں 360  بُت رکھے ہوئے تھے ۔ توحید کے اس گھر میں با قاعدہ مشرکانہ عمل کیا جاتا تھا ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کے حل کے لیے" مارچ " کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ۔ بلکہ دعوت کے طریقے پر چل کر اس کو حل کیا۔ خلیفہ ٔثانی حضرت عمر فاروق نے اسی اسلامی حکمت کا لحاظ کرتے ہوئے فلسطین کے گرجا گھر کے اندر نماز نہیں پڑھی (ملاحظہ ہو الرسالہ مارچ 1986 ، صفحہ 2)

بابری مسجدکی مورتی کا معاملہ بھی چھوٹے درجہ میں اسی نوعیت کا ہے۔ یہاں بھی مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے ، اور کسی بھی وجہ سے اس کوچھوڑنا نہیں چاہیے ۔ بابری مسجد کے معاملے میں سیاسی مارچ کا طریقہ اختیار کرنا، یا یہ کہنا کہ اس کا تعلق شریعت سے نہیں ہے ، سرکشی کی حد تک اسلام کے خلاف ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ٹھیک اسی نوعیت کا معاملہ ( شدید تر شکل میں) پیش آچکا ہے تو مسلمانوں کے لیے کیوں کر جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اس معاملے میں اسوہ ٔرسول کا لحاظ نہ کریں ۔ وہ مکہ کی مسجد کے مماثل مسئلہ سے اجودھیا کی مسجد کے مسئلے کے حل کے لیے نمونہ نہ پکڑیں ۔

7۔حدیبیہ (6 ھ) کے موقع پر بھی اسی سے ملتی جلتی صورت پیش آئی تھی۔ مسلمان عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے اور حرم مکہ کے قابض لوگ اس میں مزاحم ہو رہے تھے ۔ اسی طرح آج مسلمان اجودھیا کی مسجد میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے قابض لوگ نہایت شدت کے ساتھ مزاحمت کرنے پرتلے ہوئے ہیں ۔

حدیبیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ان کو حکم ملا کہ عمرہ ادا کیے بغیر مدینہ واپس چلے جاؤ۔ اس حکم کی مصلحت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ مسلمان اگر اقدام پر اصرار کرتے تو جنگ کی نوبت آتی اور اس میں بہت سے مسلمان ناحق مارے جاتے (الفتح: 24 - 25) گویا اگر مسلمانوں کی جان کا خطرہ ہو تو حرم مکہ جیسی مقدس مسجد کی طرف "مارچ" کرنا بھی غیر مطلوب ہو جاتا ہے ۔ مسلمان کی جان کی حفاظت ہر دوسری مصلحت پر مقدم ہے ( ملاحظہ ہو الرسالہ اگست 1988 ، صفحہ 14- 15)

اس مثال کی روشنی میں دیکھئے تو اجودھیا مارچ میں نہ صرف مسلمانوں کی ہلاکت کا اندیشہ ہے بلکہ اس میں پیش آنے والا جانی و مالی نقصان اس نقصان سے بہت زیادہ ہے جو حدیبیہ کے وقت متوقع تھا ۔ حدیبیہ کے موقع پر پیش آنے والا نقصان تمام تر مقامی ہوتا۔ مگر آج جو حالات ہیں ، ان کی روشنی میں یقینی ہے کہ اجودھیا مارچ کی صورت میں ہونے والا نقصان صرف اجودھیا تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یقینی طور پر وہ پھیلے گا۔ اس کے نتیجے میں پورے ملک کی فضا خراب ہوگی ۔ جگہ جگہ فرقہ وارانہ فساد ہوں گے۔ اورحسب ِسابق مسلمان ہی ہر بار تباہی و بربادی کا نشانہ بنیں گے ۔

 اس عمومی بر بادی میں مسلمانوں کے صرف ایک گروہ کا استثناء ہوگا ۔ اور وہ ان بے ریش اورباریش ر ہنماؤں کا ہے جو مسلمانوں کو آگے کر کے خود ان سے الگ ہو جائیں گے ۔ ان میں سے کوئی " جنرل" بن کر اپنے دفتر میں بیٹھ رہے گا، اور کوئی کسی بیرونی ملک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے پرواز کر جائے گا ۔ اس طرح سیاسی لیڈر اور ان کے حق میں اجازت نامہ جاری کرنے والے علماء یقینی طور پر محفوظ رہیں گے ۔ مگر عام مسلمان اتنے سخت مصائب سے دو چار ہوں گے جن کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔

8۔ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اجودھیا مارچ اگر چہ بظاہرا جو دھیا کی طرف ہوگا، مگر اس کا اصل نشانہ نئی دہلی ہے ۔ یہ نماز کی ادائیگی کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ اپنے دستوری حق کے استقرار کا مسئلہ ہے ۔ بابری مسجد کی حیثیت محض علامت کی ہے ۔ ورنہ اصل لڑائی اس بات کی ہے کہ دستور ہند میں جو مذ ہبی حقوق دیے گئے ہیں، ان کو تسلیم کیا جائے اور حکومت اس بات کی ضامن بنے کہ دستور میں دیےہوئے کسی حق کو پامال نہیں کیا جائے گا۔

یہ مصلحت بھی ایک خود ساختہ مصلحت ہے جو سنتِ رسول سے واضح طور پر ٹکراتی ہے۔ یہاں میں دوبارہ حدیبیہ کی مثال دیتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو القعدہ 6 ھ  میں مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ وہاں پہنچ کر کعبہ کی زیارت کریں اور عمرہ کے مراسم ادا کریں ۔ آپ مکہ کے قرب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو اہل مکہ( قریش )نے روکا اور کہا کہ ہم آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ آپ عمرہ کیے بغیر مدینہ واپس جائیں ۔

قریش کا یہ فعل سراسر دستورِ عرب کے خلاف تھا۔ عرب میں یہ مسلمہ دستور تھا کہ کوئی شخص کعبہ کی زیارت کے لیے آئے تو اس کو روکا نہ جائے۔ چنانچہ ساری قدیم تاریخ میں کبھی کس کو زیارت کعبہ سے روکا نہیں گیا تھا۔ یہ دستوری حق اتنا زیادہ قطعی اور مسلم تھا کہ جب سرداران قریش نے آپ کو روکا تو خود مشرکوں میں کچھ ایسے لوگ نکلے جنھوں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ۔ مثلاً حلیس بن علقمہ (سید الا حا بیش) جو قریش کا حلیف تھا ، اس نے غصہ ہو کر کہا :

يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ وَاللَّهِ مَا على هَذَا حالفناكم وَلَا على هَذَا عاهدناكم، أَيُصَدُّ عَنْ بَيْتِ اللَّهِ مَنْ جَاءَهُ مُعَظِّمًا لَهُ؟ وَالَّذِي نَفْسُ الْحُلَيْسِ بِيَدِهِ لَتُخَلُّنَّ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَبَيْنَ مَا جَاءَ لَهُ أَوْ لَأَنْفِرَنَّ ‌بِالْأَحَابِيشِ نَفْرَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ (سيرة ابن كثير، المجلد الثالث ، صفحہ 316 )

اے قریش کے لوگو ، خدا کی قسم ، ہم اس بات پر تمہارے حلیف نہیں بنے تھے اور نہ اس بات پر ہم نے تم سے معاہدہ کیا تھا۔ کیا اُس شخص کو بیت اللہ سے روکا جانے لگا جو بیت اللہ کی زیارت کے لیے اور اس کی تعظیم کے لیے آیا ہو ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں حلیس کی جان ہے ، تمہیں محمداور وہ جس کام کے لیے آئے ہیں ، اس کے درمیان سے ہٹنا ہوگا ، ورنہ میں تمام حبشیوں کو لے کر یک لخت تم سے الگ ہو جاؤں گا ۔

 اس قسم کی بات کچھ اور مشرکوں نے بھی کہی ۔ مگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے "دستوری حق " کا سوال نہیں اٹھایا ۔ اور نہ یہ کہہ کر اس کو اہم بنانے کی کوشش کی کہ یہ ایک علامتی واقعہ ہے ، ہم کو "گربہ کشتن روز اول " کے اصول پر عمل کرنا چاہیے ۔ ورنہ آج عمرہ کے بارے میں ہمارا دستوری حق ہمیں دینے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ کل ہم کو حج کے حق سے محروم کیا جائے گا۔ اور پھر حقوق میں در اندازی کی فہرست معلوم نہیں کہاں کہاں تک جا پہنچے گی۔

موجودہ نام نہاد مسلم لیڈروں کی طرح ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر اکسائیں کہ دیکھو، یہ صرف ایک عمرہ کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک دستوری حق کا معاملہ ہے۔ ہمیں بہر حال دستوری حق کی لڑائی لڑنی ہے ، اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹنا ہے جب تک ہم اپنے دستوری حق کو پوری طرح منوانے میں کامیاب نہ ہو جائیں ۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے" غیر دستوری "مطالبہ کو مان لیا اور عمرہ کیے بغیر حدیبیہ سے واپس چلے آئے ۔

قرن اول کی یہ مثال بتاتی ہے کہ "دستوری حق " اور "علامتی واقعہ" وغیرہ اہل ِباطل کی بولیاں ہیں ، وہ پیغمبر کی بولی نہیں ہے ۔ جو لوگ اس قسم کے الفاظ بول رہے ہیں وہ پیغمبر کے نمونہ پر نہیں چل رہے ہیں ، بلکہ باطل پرست قوموں کے نمونہ پر چل رہے ہیں۔ پیغمبر کا طریقہ "دستوری لڑائی" لڑنا نہیں ہے ، بلکہ حقیقتِ واقعہ کو بدلنا ہے ۔ پیغمبر کا طریقہ دل کو جیتنا ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کو جیتنا ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ کو اہلِ شرک کے حوالے کر دیا ، اور خود اپنی ساری کوشش انسانوں کو بدلنےپر لگادی ۔ آخر کار جب انسان بدلے تو انسان بھی آپ کے قبضہ میں آگئے اور الفاظ بھی ۔

9۔جو لیڈر صاحبان اجودھیا مارچ کے حامی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس وقت مارچ کی کارروائی نہ کریں اور اجودھیا کی مسجد کے معاملہ میں خاموش ہو جائیں تو غاصب گروہ کے حو صلے مزید بڑھ جائیں گے ۔ آج انھوں نے ایک مسجد پر قبضہ کیا ہے ، کل وہ دوسری مسجدوں پر قبضہ کریں گے ۔

یہ بالکل بے وزن بات ہے اور محض اپنی بدترین نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑی گئی ہے۔ راقم الحروف نے الرسالہ جولائی 1988 (قیادت کا دیوالیہ پن ) میں دکھایا ہے کہ اسی ملک میں دوسری بہت سی مسجدیں جو 1947 کے ہنگامے میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں ۔ آج وہ مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں ہیں ۔

مساجد کی بازیابی کے معاملہ میں یہ کامیابی تمام تر خاموش حکیمانہ تدبیر کے ذریعےحاصل کی گئی ۔ اگر کوئی صاحب اس معاملہ میں براہ راست واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہوں تو دہلی کی حد تک میں ذاتی ذمہ داری لیتا ہوں ۔ وہ میرے پاس آئیں اور میں ان کو لے جا کر دہلی کی کئی بڑی بڑی مسجد یں دکھاؤں گا۔ کچھ سال پہلے تک یہ مسجدیں اغیار کے قبضے میں تھیں ۔ آج وہ پوری طرح مسلمانوں کے پاس ہیں۔ وہاں با قاعدہ دینی مدر سے قائم ہیں۔ اور پنج وقتہ نماز یں جماعت کے ساتھ ہو رہی ہیں ۔ اس میں اتنا اور اضافہ کر لیجئے کہ یہ اعلیٰ کامیابیاں صرف اس لیے ممکن ہوئیں کہ اس جدو جہد میں پیشہ ور لیڈروں میں سےکسی لیڈر کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔

سیاسی اشو بنانے اور قومی پِر سٹیج کی حیثیت دینے سے پہلے خود بابری مسجد کے معاملےمیں بھی اس خاموش اور حکیمانہ حل کا امکان پوری طرح موجود تھا ۔ اس کی ایک مثال 27 مارچ 1987  کی وہ مشترکہ میٹنگ ہے جس کی روداد الرسالہ جولائی 1988  میں شائع ہو چکی ہے ۔ یہ صرف نام نہاد مسلم لیڈر ہیں جنھوں نے بابری مسجد کو قیادتی استحصال کا ذریعہ بنا کر اس قیمتی امکان کو برباد کیا۔ بابری مسجد کے معاملے کو بگاڑنے کے اصل ذمہ دار مسلمان لیڈر ہیں ۔ اگر چہ انھوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اس کا رخ دوسروں کی طرف موڑ دیا ہے ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ ابتدا میں ہندؤوں کی بیشتر تعداد اس معاملے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پرمسلمانوں کی حامی تھی۔ تھوڑے سے کٹر ہندؤوں کے سوا کسی کو اس سے دل چسپی نہ تھی۔ اس کا ایک ثبوت ہندو اہل علم کے وہ منصفانہ مضامین ہیں جو ملک کے اخبارات ورسائل میں کثرت سے شائع ہو رہے تھے (ملاحظہ ہو الرسالہ ، دسمبر 1986 ، صفحہ 17-22)

 نئی دہلی میں بابری مسجد ریلی (30 مارچ 1986) کے بعد یہ فضا بدلنا شروع ہوئی۔ مسلم لیڈروں کی احمقانہ سیاست بازی معاملہ کو بگاڑتی چلی گئی۔ پہلے یہ مسئلہ سادہ طور پر معقولیت اور غیر معقولیت کے در میان کا مسئلہ تھا۔ مگر بعد کو بڑھتے بڑھتے وہ ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان کا مسئلہ بن گیا۔ اس نے دونوں گروہوں کے لیے فرقہ وارانہ عصبیت یا قومی ساکھ (Prestige) کی صورت اختیار کرلی۔ اس نوبت کو پہنچنے کے بعد مسلمان اس معاملہ میں اکیلے ہو گئے ۔ انھوں نے ہندؤوں کی وہ حمایت کھودی جو ابتداء میں انھیں وسیع پیمانہ پر حاصل تھی (ملاحظہ ہو الرسالہ جولائی 1985  صفحہ 31-32)

 بابری مسجد کا مسئلہ اپنی ابتدائی صورت میں ایک محدود مقامی مسئلہ تھا۔ مگر مسلمانوں کے سطحی لیڈروں نے اپنی نا قابل بیان نادانیوں کے ذریعہ انتہائی غلط طور پر اس کو ایک ملکی اور قومی مسئلہ بنا دیا۔ جب کوئی مسئلہ اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس وقت معقولیت پس پشت چلی جاتی ہے ۔ اور صرف گروہی عصبیت ہی قوموں کی رہنما کی حیثیت سے باقی رہتی ہے ۔ ایسے وقت میں قوم کے کسی فرد کاحق بات کہنا اپنے کو اپنی قوم کے اندر نکو بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے ، اور کون ہے جو نکو بننے کی قیمت پر حق بات کا اعلان کرے ۔ ایسا حق پرست تو خود مسلمانوں میں بھی کوئی نہیں ، پھر ہندؤوں کے بارے میں ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ان میں ایسے حق پرست جھنڈ کے جھنڈ موجود ہوں گے ۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ صحافتی تاجروں اور سیاسی استحصال پسندوں کی شکار گاہ بنے ہوئے ہیں ۔ آج مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انھیں اس دلدل سے نکالا جائے۔

10۔ تاہم ان چیزوں سے قطع نظر، بنیادی بات یہ ہے کہ مذکورہ قسم کے تمام اندیشے ایمانی تقاضے کے سراسر خلاف ہیں۔ کیوں کہ کسی معاملے میں جب خد ا  ور سول کا فیصلہ معلوم ہو جائے تو وہی خیر اور مصلحت کی بات ہے ۔  اس کے بعد عقلی نکتے نکالنا اور کسی دوسری چیز کو ملی مصلحت بتانا مجرمانہ سرکشی کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ : کسی مومن مرد یا کسی مومن عورت کے لیے گنجائش نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں تو پھر ان کے لیے اس میں اختیار باقی رہے۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا ( الاحزاب: 36)

 مسلمان اگر خدا و رسول پر ایمان رکھتے ہیں تو انھیں خداا و ررسول کی رہنمائی کو بے چون و چرا مان لینا ہو گا۔ ان کے لیے فلاح و سعادت کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ۔ خدا ورسول نے جس مصلحت کا لحاظ کیا ہو ، وہی صحیح اور معتبر مصلحت ہے ۔ دوسری کوئی مصلحت صحیح اور معتبر مصلحت نہیں ، خواہ بظاہر وہ ہم کو کتنی ہی زیادہ اہم دکھائی دیتی ہو ۔ اس سلسلے میں محدث کبیر حضرت امام مالک کا یہ قول یاد دلانا کافی ہوگا : لَنْ ‌يَصْلُحَ ‌آخرُ ‌هَذهِ ‌الأمةِ ‌إِلَاّ ‌بما ‌صَلُحَ ‌بهِ ‌أَوَّلها ( اس امت کا آخر بھی صرف اسی سے درست ہو گا جس سے اس کا اول درست ہوا )۔

اوپر جو باتیں عرض کی گئیں ، وہ دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کرتی ہیں کہ اجودھیا مارچ یا با بری مسجد تحریک بلاشبہ ان مسائل میں سے ہے جن کا تعلق شریعت سے ہے ، اور مسلمانوں کو اس معاملے میں لازمی طور پر شریعت کی رہنمائی میں عمل کرنا چاہیے ، اس سے آزاد ہو کر نہیں ۔ اگر انھوں نے اس معاملے میں آزادانہ عمل کیا تو یقیناً وہ اس کے لیے خدا کے نزدیک مجرم قرار پائیں گے۔ کسی بزرگ کو یہ حق نہیں کہ وہ اس معاملے کو غیر شرعی معاملہ قرار دے ، اور نہ کسی بزرگ کا دیا ہوا سرٹیفیکٹ اس معاملہ میں انھیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا ثابت ہو سکتا ہے ۔

11۔مسلم  لیڈروں کی لفظی ہنگامہ آرائی سے بابری مسجد اشو میں تو کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ البتہ ہندو فرقہ پرست عناصر کو ضرور نئی زندگی مل گئی ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بد نام ہندو مؤرخ مسٹر پی این اوک نے دوبارہ نئے نئے انکشافات شروع کر دیے ہیں۔ ان کا ایک انکشاف یہ اخبارات میں آیا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد ایک مندر کی جگہ پر بنی ہے ۔ قدیم زمانہ میں یہاں ایک ہندو مندر تھا۔ مغل دور میں اس کو ڈھا کر وہاں مسجد بنائی گئی (ٹائمس آف انڈیا ،5 اگست 1988) علی گڑھ میں ہندو تنظیموں کی میٹنگ میں اعلان کیا گیا کہ مسلمان اگر 12  اگست کو اجودھیا مارچ کرتے ہیں تو اسی دن ہندؤوں کا جتھا مسجد میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے کے لیے داخل ہو گا ۔ اور یہ کہ "12  اگست وہ تاریخی دن ہو گا جب یہ بات صاف ہو جائے گی کہ بھارت میں مسلمانوں کو کن حالات میں رہنا ہے"۔ ( پرتاپ 12  اگست 1988)

 اس طرح کی باتوں کی بنا پر ممکن ہے کہ ہمارے لیڈر صاحبان کوئی خوبصورت عذر نکال کر مارچ کو ملتوی کر دیں جس کا اندیشہ الرسالہ جولائی 1988 میں ظاہر کیا گیا تھا۔ تا ہم اس غلط سیاست کے ذریعے مسلمانوں کو تباہی کے جس کنارہ پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اس کے نقصان کا سلسلہ مارچ کے التواکے بعد بھی ختم نہ ہو گا ۔

اس معاملے میں مسلمان لیڈر جس طرح چیلنج کی زبان میں بات کرتے رہے ہیں ، جس طرح انھوں نے مسلمانوں سے  "بابری مسجد لے کے رہیں گے " کے نعرے لگوائے ہیں ، اپنی پُر جوش تقریروں سے جس طرح انھوں نے مسلمانوں کے جوش کو آخری حد تک ابھار دیا ہے ، اس کے بعد مارچ کو روکنا کوئی سادہ واقعہ نہیں ہو گا۔ یہ مسلمانوں کو بہت بڑے پیمانےپر اس احساس سے دوچار کرنے  کے ہم معنیٰ ہو گا کہ ہمارے لیے کچھ کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔ کسی گروہ کو ایک ایسے نشانہ کے لیے ابھارنا جو پورا ہونے والانہ ہو ، نتیجے کے اعتبار سے انھیں مایوسی اور شکست خوردگی کے احساس میں مبتلا کرنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقدام وہی ہے جو سچا اقدام ہو ، جھوٹا اقدام بربادی کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہیں کرتا ۔ تکمیلِ مقصد کے بغیر مارچ کا فیصلہ واپس لینے کے بعد یہی واقعہ اپنی شدید ترین صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے گا۔

 یہی وہ المناک اندیشہ تھا جس کے بارے میں الرسالہ ستمبر 1986  کے صفحۂ اول پر ان الفاظ میں چیتاؤنی دی گئی تھی : بزدلی دکھا کر چپ ہونے سے بہتر یہ ہے کہ آدمی بزدلی دکھائے بغیر چپ ہو جائے ۔

ایک انتباه

بیسویں صدی میں مسلمانوں نے بار بار ایسا کیا ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں کو اپنے ملی معاملات میں رہنما بنا لیتے ہیں ۔ یہ مزاج اب اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ مسجد اور نماز جیسے امور میں بھی سیاسی لیڈرہی ان کے رہنما اور نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ فعل ان کے تمام جرموں میں سب سے زیادہ سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اپنے اس مزاج کو لازمی طور پر انھیں بدلنا ہو گا ورنہ شدید اندیشہ ہے کہ وہ خدا کی نصرت سے محروم ہو جائیں ، اور پھر اس دنیا میں کوئی ان کا حامی و مددگار نہ رہے ۔

 ایک تاجر کو اپنی دکان کے لیے سیل مین کا انتخاب کرنا ہو تو وہ کبھی کسی دادا کو اپنی دکان کا سیل میں نہیں بنائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیاب سیل مین میں جو سب سے ضروری صفت درکار ہے وہ میٹھا بول ہے، جب کہ دادا گیری کے پیشہ میں ، اس کے برعکس ، کڑوا بول سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ دادا کڑوے بول کا ماہر ہوتا ہے ، اس لیے وہ ایسے منصب کے لیے قطعاًموزوں نہیں جہاں میٹھا بول سب سے زیادہ مطلوب خصوصیت کی حیثیت رکھتا ہو ۔

 مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک داعی گروہ ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں دعوت رخی (Dawah oriented) ہوں۔ وہ ہر دوسری مصلحت پر دعوت کی مصلحت کو غالب رکھیں۔سیاسی لیڈر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا پورا فکر سیاست رخی (Politics oriented) ہوتا ہے۔ وہ سیاسی مصلحت کو ہر دوسری مصلحت پر غالب رکھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جیسےگروہ کی نمائندگی کے لیے سیاسی لیڈر کسی طرح بھی موزوں اور مناسب نہیں ۔

 داعی اور لیڈر دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف شخصیتیں ہیں ۔ داعی ایجابی نفسیات کی پیدا وار ہے اور لیڈر رد عمل کی نفسیات کی پیداوار ۔ داعی محبت کی زمین پر کھڑا ہوتا ہے اور لیڈرنفرت کی زمین پر ۔ داعی دوسروں کو اپنے مطلوب کی نظر سے دیکھتا ہے اور لیڈر دوسروں کو اپنے حریف کی نظر سے ۔ داعی کا مفاد دوسروں کے ساتھ مصالحت میں ہوتا ہے اور لیڈر کا مفاد دوسروں کے ساتھ ٹکراؤ میں۔ داعی حقائق کو مرکزِ توجہ بناتا ہے اور لیڈر شوشوں کے پیچھے دوڑتا ہے ۔ داعی خدا کی مرضی پر چلتا ہے اور لیڈر عوامی خواہشات پر ۔ داعی کا مقصد لوگوں کا دل جیتنا ہے اور لیڈر کا مقصد لوگوں کا استحصال کرنا ۔ داعی کی نظر اصل کام پر ہوتی ہے اور لیڈر کی نظر شہرت اور مقبولیت پر ۔ خلاصہ یہ کہ داعی اصلاح کا نقیب ہوتا ہے اور لیڈر تخریب کا علم بردار ۔

 داعی اور لیڈر کا یہ فرق لیڈر کو امت ِمسلمہ جیسے گروہ کی نمائندگی کے لیے اسی طرح غیر موزوں بنا دیتا ہے جس طرح کسی دادا کی دادا گیری اس کو دکان کی سیلس مین شپ کے لیے غیر موزوں بنا دیتی ہے۔ مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ان کے لیے مواقع کا ر کھلیں اور وہ خدا کی رحمت میں اپنا حصہ پائیں تو سب سے پہلا کام انھیں یہ کرنا ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں کو اپنے ملی  معاملات سے نکال پھینکیں۔ اس کے بغیر ان کے معاملات کبھی درست ہونے والے نہیں ۔

 اگر مسلمانوں کو آج یہ حقیقت دکھائی نہیں دیتی تو وہ دن دور نہیں جب پردہ پھٹے اور تمام حقیقتیں اپنے برہنہ روپ میں سامنے آجائیں ۔ اس وقت ہر آدمی سچائی کو ماننے پر مجبور ہوگا ، اگر چہ اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom