زمین سے محروم
پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق 17 اگست 1988 کو ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ۔ اس واقعہ پر ٹائمس آف انڈیا (18 اگست 1988) نے جو اڈیٹوریل شائع کیا ہے ، اس کی سرخی پاکستان بغیر ضیاء Pakistan without Zia)) کے الفاظ میں قائم کی ہے ۔ اس کو میں نے پڑھا تو معا ًمیرے ذہن میں ایک اور سرخی آگئی جس کے الفاظ یہ تھے : ضیاء بغیر پاکستان(Zia without Pakistan)
اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ یہ ضیاء الحق کے لیے دنیا سے آخرت کی طرف سفر تھا، تو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہ پاکستان سے زیادہ خود ضیاء الحق کا مسئلہ ہے ۔ اب تک وہ ایک ایسی دنیا میں تھے جہاں وہ خود مطلق حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں ساری حاکمیت صرف ایک اللہ کو حاصل ہے ۔ اس کے سوا کسی کو وہاں کوئی حاکمیت یا اختیار حاصل نہیں ۔
صدر ضیاء الحق پاکستان کی زمین پر کھڑے ہوئے تھے ، موت نے بے رحمانہ طور پر ان کو اس زمین سے جدا کر دیا۔ اسی طرح ہر آدمی "ضیاء "ہے اور ہر آدمی کسی " پاکستان " کے اوپر کھڑا ہوا ہے۔ کوئی شخص کسی ملک کے اوپر اور کوئی کسی ادارہ کے اوپر ۔ کوئی کسی عہدہ کے اوپر اور کوئی مصلحت پرستی کے اوپر۔ کسی کو اگر واقعی زمین نہیں ملی تو اس نے جھوٹ اور فریب کی زمین پر اپنے آپ کو کھڑا کر رکھا ہے۔غرض ہر آدمی کی ایک زمین ہے اور ہر آدمی اپنی زمین پر پاؤں جمائے ہوئے کھڑا ہوا ہے۔
مگر موت ہر ایک کو اس کی زمین سے جدا کر دیتی ہے ۔ ضیاء الحق کے لیے یہ دن 17 اگست مقرر تھا۔ اسی طرح ہر آدمی کا ایک" 17 اگست " ہے جو ٹھیک اپنے وقت پر آجاتا ہے اور آدمی کو اس کی زمین سے محروم کر دیتا ہے ، خواہ وہ خشکی میں ہو یا سمندر میں یا ہوا میں۔ موت کا فرشتہ ہر جگہ عین وقت پر اس کو پکڑ لیتا ہے اور اس کو اس کی زمین سے جدا کر کے بے یار ومددگارحالت میں خدا کی عدالت میں پہنچا دیتا ہے ۔
ایک اخبار نے موت کو الم ناک خاتمہ (Tragic end) کہا تھا ۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ موت ایک المناک آغاز ہے ۔ یہ یومِ عمل سے نکل کر یوم ِحساب میں داخل ہونا ہے ۔ کیسا عجیب ہے وہ خاتمہ جو عجیب تر آغاز میں تبدیل ہو جائے ۔