حاکم نہیں داعی

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا کیس، ایک قسم کے جنونِ عظمت (Paranoia) کا کیس ہے ۔ جنون عظمت (پیرانوئیا ) کا مطلب بڑائی کا فریب ((Delusions of grandeur ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں وہ شخص مبتلا ہو جاتا ہے جو بطور خود اپنے کو بڑا سمجھے ، جب کہ دوسرے لوگ اس کی بڑائی کو نہ مانتے ہوں۔ ایسا آدمی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ وہ دوسروں سے نفرت کرتا ہے اور ان سے لڑتا رہتا ہے ، کیوں کہ اس کو دوسروں سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ انھوں نے اس کی برترحیثیت کا اعتراف نہیں کیا ۔

"جنون عظمت" کے معاملہ کو ایک سادہ مثال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہ مثال اس عام مظہر کی ہے جو ساس اور بہو کے مسئلہ کی صورت میں ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ ایک عورت کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے وہ اس کو محبت کے ساتھ پالتی ہے ۔ ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا کر اس کو بڑا کرتی ہے ۔ اس کے بعد نہایت شوق کے ساتھ اس کی شادی کرتی ہے۔ مگر جب ایک لڑکی بہو بن کر اس کے گھر میں رہنے لگتی ہے تو دھیرے دھیرے وہ اس سے متنفر ہو جاتی ہے ۔ وہ بات بات میں اس سے لڑتی ہے۔ حتیٰ کہ گھر کی فضا اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ نہ ساس کو چین رہتا ہے اور نہ بیٹے اور بہو کو ۔

 اس کی وجہ کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہو کے آنے سے پہلے یہ "ساس " گھر کی مالک اور حاکم بنی ہوئی تھی ۔ ہر کام اس کی مرضی سے ہوتا تھا ۔ مگر بہو کی آمد کے بعد فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے اندربہو کا عمل دخل شروع ہو جاتا ہے۔ بیٹا پہلے اپنی تنخواہ ماں کو دیتا تھا ، اب نئے انتظامِ کار کی حیثیت سے وہ اپنی تنخواہ "بہو " کے ہاتھ میں دینے لگتا ہے ۔ پہلے ہر کام میں صرف ماں سے مشورہ لیا جاتا تھا۔اب بدلے ہوئے حالات کے تحت بہو سے مشورہ لیا جانے لگتا ہے ۔ وغیرہ

"ساس " اس تبدیلی کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ (Adjust) نہیں کر پاتی ۔ ساس کو اگر چہ کوئی حقیقی تکلیف نہیں ہوتی، بلکہ اکثراوقات اس کو پہلے سے زیادہ آرام حاصل رہتا ہے۔مگر نفسیاتی طور پر وہ سمجھنے لگتی ہے کہ جس گھر میں اب تک میں حاکم کی حیثیت رکھتی تھی ، وہاں بہونے آکر مجھ کو محکوم بنا دیا ہے۔ ––––––  وہ چیز جس کو عام طور پر" ساس بہو کا جھگڑا " کہا جاتا ہے ، وہ ساس کی نسبت سے اسی بدلی ہوئی صورت حال سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کر سکنے کا دوسرا نام ہے ۔

یہی معاملہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پیش آیا ہے۔ جس دنیا میں وہ "ماں " بن کر رہ رہے تھے ، اچانک انھیں محسوس ہوا کہ وہ اس دنیا میں "ساس " بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تبدیلی بذات خود کوئی برائی نہیں تھی ۔ وہ ایک فطری صورت حال تھی جو خود خداوند عالم کے قانون کے تحت پیش آئی ۔ مگر مسلمان چوں کہ اس تبدیلی کے ساتھ ذہنی موافقت نہ کر سکے اس لیے نئے نظام میں وہ" اپوزیشن" کا کردار ادا کرنے والے ، یا صحیح تر لفظ میں پیرانوئک کیرکٹر (Paranoic character)   بن کر رہ گئے ۔

جس زمانہ میں بابری مسجد تحریک کی دھوم تھی ، میں نے ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ وسیع مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ امام صاحب نے حسب ِمعمول عربی خطبہ سے پہلے اردو میں ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے "شاعر اسلام  کے بلند بانگ اشعار سنائے، اور" اکابر ملت" کے شاندار فرمودات نقل کیے۔ اور پھر پُر جوش طور پر کہا :

"یہ بُت پرست ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ، ہم نے ایک ہزار سال تک ان کے اوپر حکومت کی ہے"۔ اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے ۔ ان کا مسئلہ کسی دوسرے کےظلم کا مسئلہ نہیں ، ان کا مسئلہ در اصل وہ غلط ذہن ہے جو ان کے اپنے رہنماؤں نے ان کے اندر پیدا کیا ہے۔ مسلمان داعی الی اللہ ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کے اندر داعیانہ نفسیات کو ابھارا جائے ۔ مگر ہمارے رہنماؤں نے انتہائی مجرمانہ طور پر یہ کیا کہ انھوں نے مسلمانوں کے اندر حاکما نہ نفسیات کو ابھارا ۔ اسی غلط رہنمائی کا نتیجہ وہ سب چیزیں ہیں جن کو آج ہم مسلمانوں کی بربادی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔

موجودہ زمانہ میں ایک طرف مغل سلطنت ٹوٹی۔ دوسری طرف عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد بے شمار لوگ مسلمانوں کو رہنمائی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مگر ان تمام لوگوں نے ایک ہی مشترک غلطی کی۔ ان میں سے کسی شخص نے بھی ایسا نہیں کیا کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صورتِ حال کا گہرامطالعہ کرے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو صحیح رہنمائی دے ۔ ہر ایک نے بس یہ کیا کہ ایک یا دوسرے انداز میں ماضی کی سیاسی کہانیاں سنانے لگا ۔ ہر ایک کے پیغام کا خلاصہ وہی تھا جو ان کی تقلید میں مسجد کے امام نے دہرایا : ہم ہزار سال تک دنیا کے حکمراں رہے ہیں۔ اور ہم ہی ہیں جس کو دوبارہ دنیا کے سیاسی تخت پر بیٹھنا ہے ۔

بات یہیں تک نہیں رہی۔ کچھ شاعر اور خطیب قسم کے لوگوں نے مزید آگے بڑھ کر یہ اعلان کر دیا کہ ––––  "ہم محتسب کائنات ہیں ، ہمارا منصب ساری کائنات کا احتساب کر نا ہے"۔ یہ بات بلاشبہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہے۔ کیوں کہ " محتسب کائنات " اگر کوئی منصب ہے تو وہ صرف خالق و مالک کے لیے سزاوار ہے۔ یہ صرف اللہ عزو جل ہے جو اگر چاہے تو کائنات ،ارض و سماء کا احتساب کرے۔ اس کےسوا کسی کے پاس نہ اس کی طاقت ہے اور نہ کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ ایسا کر سکے۔

اس بنا پر اس غیر عقلی اور غیر اسلامی نظریہ کے لیے خدا کی کتاب میں کوئی دلیل نہیں مل سکتی تھی۔یہاں رہنماؤں کی شاعرانہ تخئیل نے کام کیا ۔ چنانچہ ابلیس کی ایک خیالی مجلس شوریٰ منعقد کی گئی اور اس کی فرضی رو داد مرتب کر کے ابلیس کی زبان سے اس "حقیقت" کا اعلان کر دیا گیا کہ :

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کا ئنات

یہ ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ "حقیقت "کا ماخذ خداا وررسول کے کلام میں کہیں موجود نہیں۔ اور اگر کسی صاحب کے نزدیک موجود ہو تو وہ مجھے ایسی آیت یا حدیث لکھ کر بھیج دیں جس میں یہ "حقیقت "بیان کی گئی ہے کہ مسلمان محتسب کائنات ہیں ۔

 مزید یہ کہ اس کو خود ابلیس کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا۔ فن روایت کے مطابق اس میں یہ نقص ہے کہ ابلیس سے راوی کی ملاقات ثابت نہیں۔ اس بنا پر دینی معاملہ میں اس کا حوالہ قطعی غیر معتبر ہے۔ ان تمام کمزوریوں کے باوجود یہ غیر ثابت شدہ کلام ابلیس اتنا پھیلا کہ بڑے بڑے بزرگ اور اکابر اس کو حقیقتِ واقعہ سمجھ کر دہرانے لگے ۔ بلکہ مسلمانوں کے" مقام و منصب اور ان کی صحیح حیثیت "کو بتانے کےلیے اس کا حوالہ اس طرح دیا جانے لگا گویا اس کو آخری سند کا درجہ حاصل ہو (تعمیر حیات 10 اگست 1988)

کیسا عجیب ہو گا امت مسلمہ کا وہ اسلامی منصب جو قرآن و حدیث میں تو نہ بتایا گیا ہو، البتہ ابلیس کے مفروضہ کلام سے حیرت انگیز طور پر اس کو برآمد کر لیا جائے ۔

موجودہ زمانہ کے مسلمان انھیں غلط رہنمائیوں کے وارث ہیں ۔ ان کا ذہن اپنے نام نہاد رہنماؤں کے شاعرانہ اور خطیبانہ اور انشا پردازانہ کلام سے بنا ہے نہ کہ حقیقتاً  خدا  ور سول کے سچے کلام سے۔ اس چیز نے ان کے ذہن و فکر کو لغویت کی حد تک غیر حقیقی بنا دیا ہے جس کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ وہ حاکمانہ نفسیات میں جینے والی ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ، جب کہ صحیح بات یہ تھی کہ وہ داعیانہ نفسیات میں جینے والی قوم بنتے ۔

اب پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس غلط اور غیر حقیقی ذہن کی اصلاح کی جائے ۔ جب تک مزاجی اصلاح کا یہ کام نہ ہو ، نہ کوئی دوسرا عملی کام صحیح طور پر کیا جا سکتا اور نہ مسلمانوں کے مستقبل کو بدلا جا سکتا ۔ کوئی شخص عام پسند نعرہ دے کر وقتی طور پر مسلمانوں کی بھیڑ جمع کر سکتا ہے ۔ مگر فکری اصلاح سے پہلے کوئی حقیقی انقلاب اتنا ہی نا ممکن ہے جتنا کہ بیج کے بغیر درخت کا وجود میں آنا ۔ بلا تشبیہ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک تاجر کے اندر اگر داد اگیری کا مزاج پیدا ہو جائے تو سب سے پہلے اس کے اس مزاج کی اصلاح کی جائےگی ۔ کیوں کہ تجارت کا کام تاجرانہ مزاج کے ساتھ کیا جاسکتا ہے نہ کہ داد اگیری کے مزاج کے ساتھ ۔

مسلمان ، قرآن کے الفاظ میں ، مذکر( نصیحت کرنے والے )ہیں ۔ وہ دوسری قوموں کے اوپر مصیطر( داروغہ )نہیں ہیں ( 88: 22) مسلمان اس دنیا میں حاکم نہیں ہیں بلکہ داعی ہیں ۔ وہ سلطان نہیں بلکہ سفیر ہیں۔ وہ دنیا کے جج نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ناصح ہیں۔ انھیں دو لفظوں پر غور کر کے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قرآنی ذہن کیا ہے اور مسلم رہنماؤں کا پیدا کردہ ذہن کیا ۔

 اس میں شک نہیں کہ ماضی میں مسلمانوں کو بہت سی چیزیں دی گئیں ۔ جن میں غلبہ واقتدار بھی شامل تھا ۔ مگر وہ خدا کا عطا کردہ تھا نہ کہ مسلمانوں کا اپنا حاصل کردہ ۔ اسلامی نقطہ ٔنظر سے ان چیزوں کی حیثیت انعام کی ہے نہ کہ نشانہ کی۔ مسلمان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کی پیغام رسانی کرے اور اس کے سوا تمام چیزوں کو اللہ کے خانہ میں ڈال دے۔ کیوں کہ وہی جس کو چاہے جو چیز دے اور جس سے چاہے جو چیز چھین لے ۔

مسلمانوں نے جب اپنی بر تر حیثیت کو کھویا ، اس وقت اگر وہ اس کے سبب پر غور کرتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اپنا داعیانہ کردار کھونے کی وجہ سے ان پر یہ افتاد پڑی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی ساری کوشش داعیانہ ذمہ داری کو اداکرنے میں لگا دیتے اور اس طرح دوبارہ انعام خداوندی کے مستحق قرار پاتے ۔ مگر اس کے برعکس یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نگا ہیں صرف ظاہری واقعہ پر اٹک کر رہ گئیں ۔ انہیں واقعہ نظر آیا مگر سبب واقعہ انہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج اور ٹکراؤ میں مشغول ہو گئے جن کو وہ غلط طور پر اپنے المیہ کا ذمہ دار سمجھتے تھے ۔ وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے انسان کی طرف متوجہ ہو گئے  –––––  انھیں دو لفظوں میں موجودہ دور کے مسلمانوں کے المیہ کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے ۔

موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما ایک انتہائی خطرناک غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ وہ یہ کہ وہ صرف دو  اصطلاحوں میں سوچنا جانتے ہیں –––––  حاکم اور محکوم ۔ ان دو کے علاوہ کوئی تیسری اصطلاح انھیں شعوری طور پر معلوم ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اگر" حاکم "کا درجہ نہ دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں" محکوم " کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔ اسی غلط فکری کا یہ نتیجہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے دینی منصب کو حاکم کی اصطلاح میں بیان نہ کرے تو وہ فوراً اس پر الزام لگانے لگتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو محکوم اورمغلوب بنا دینا چاہتا ہے ۔

 مگر یہ سراسر کوتاہ فہمی کی بات ہے ۔ ان کے پاس صرف دو پیمانے ہیں ، تیسرا زیادہ اہم پیما نہ ان کے پاس موجود ہی نہیں ، اور وہ دعوت الی اللہ کا پیمانہ ہے ۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ حاکم کا تقابل محکوم سے کرنے کے بجائے حاکم کا تقابل داعی سے کریں ۔ یہ مشورہ یقینا ًلغو ہوگا کہ مسلمان مغلوب اور محکوم بن کر زندگی گزاریں ۔ مگر یہ کہنا بھی اتنا ہی بے بنیاد اور لغو ہے کہ مسلمان حاکمِ اقوام اور محتسبِ کا ئنات بن کر رہنےکے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔

صحیح بات ان دونوں کے علاوہ ہے ۔ اور وہ یہ کہ مسلمان داعی ہیں ۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے سچے دین کی طرف لوگوں کو بلا ئیں۔ یہ ایک خالص خدائی مشن ہے ۔ مسلمان اگر ایسا کریں تو آخرت میں وہ خدا کے انعامات کے مستحق ہوں گے ۔ اور اگر خدا نے چاہا تو دنیا میں بھی وہ انھیں اپنے انعام سے سر فراز فرمائے گا ، خواہ وہ سیاسی انعام ہو یا اور کوئی انعام ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom