نبوت اور ختم نبوت
کچھ لوگوں سے ختم نبوت کے عقیدہ پر گفتگو ہوئی ۔ میں نے کہا کہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کی دلیل کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی نقلی اور عقلی دلیلیں علماء نے بیان کی ہیں، میں خود بھی اس پر اپنی کتابوں میں کافی لکھ چکا ہوں ، اگر آپ اس موضوع کا علمی اور تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں تو ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ تاہم دوسری باتوں کے علاوہ ، یہ واقعہ بذات خود اس کی دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد دنیا میں کوئی اور پیغمبر ظاہر نہ ہو سکا۔ یہ ایک واقعاتی ثبوت ہے جو بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد یہ سلسلہ عملی طور پر منقطع ہے۔
میں نے کہا کہ پیغمبر ہونا اس قسم کی کوئی سادہ سی بات نہیں جیسے ایک شخص خطیب یا شاعر بن جاتا ہے۔ کسی انسان کا پیغمبر ہونا انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ جس طرح ساری تاریخ میں کبھی کوئی شخص یہ نہ کہہ سکا کہ میں کائنات کا خالق ہوں ۔ اسی طرح کوئی غیر پیغمبر یہ کہنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ پیغمبری کا دعویٰ یا تو کوئی پاگل شخص کرے گا ، یاوہ شخص کرے گا جو واقعتاًپیغمبر ہو۔
اس سلسلہ میں میں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بتایا۔ میں نے کہا کہ ایک بابا جی تھے جن کےپیروؤں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ 1980 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے کچھ پیرؤوں سے ایک بار میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے باباجی (Prophet of the time) وقت کے پیغمبر ہیں۔ میں نے بلا بحث ان سے کہا کہ آپ مجھے اپنے باباجی کے پاس لے چلیے اور ان سے کہئے کہ میرے سامنے وہ اپنی زبان سے یہ جملہ دہرائیں کہ "میں وقت کا پیغمبر ہوں" ۔
اپائنٹمنٹ کے ذریعہ وقت طے ہوا ۔ وہ لوگ مجھے بابا جی کے ہیڈ کوارٹر پر لے گئے۔ وہاں کئی لوگوں کی موجودگی میں بابا جی سے ملاقات ہوئی۔ میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک ان کی مجلس میں شریک رہا۔ مگر بابا جی اپنی زبان سے یہ الفاظ دہرانے کی ہمت نہ کر سکے کہ "میں وقت کا پیغمبر ہوں " وہ صرف دوسری دوسری باتیں کرتے رہے۔ میں نے بابا جی سے کہا کہ آپ کے پیروؤں نے مجھےبتایا ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ میں وقت کا پیغمبر ہوں ، مگر بابا جی نے اس کا کوئی براہ راست جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ میں وہاں سے واپس چلا آیا۔
جن لوگوں سے یہ گفتگو ہورہی تھی ، انھوں نے دوبارہ کہا کہ مگر مرزا غلام احمد قا دیانی (1908 – 1839) نے تو اپنے بارے میں پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ خللِ ذہنی کا شکار تھے ، وہ کوئی صحیح الدماغ آدمی نہ تھے۔ ایسا شخص کوئی بھی لغو بات کہہ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کا غیر فصیح کلام خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی پیغمبرکا کلام نہیں ۔
تاہم اس سے قطعِ نظر، ان کے اصل دعوی ٰپر غور کیجیے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ یہ تھا کہ ظلی یا بروزی پیغمبر ہیں۔ یعنی وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز (Reappearance) ہیں۔ ان کا یہ قول اپنی تردید آپ ہے۔ جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں تو قدرتی طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں جانچ کر ان کے دعوےکی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ یہ کہہ کر مرزا غلام احمد قادیانی نے خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اوپر جج مان لیا۔ بالفاظ دیگر ان کی نبوت کو جانچنے کا معیار خود وہ ذات قرار پائی جو اپنے بعد کسی اور نبی کا پیشگی انکار کر چکی ہے۔ یہ کیسی عجیب تردید ہے جو مرز اعلام احمد قادیانی نے خود ہی اپنے خلاف فراہم کر دی ہے۔
اب مرز اغلام احمد قادیانی کو پیغمبر ماننے کی شرط اول یہ ہوگی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تعلیمات سے یہ ثابت کیا جائے کہ آپ کے بعد ظلی یا بروزی پیغمبر آئیں گے۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےکلام کے پورے ذخیرے (نیز قرآن) میں اس کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ قرآن میں آپ کو خاتم النبیین بتایا گیا ہے (الاحزاب: 40) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاًیہ فرما دیا ہے کہ میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں۔ میرے بعد نبوت کے ایسے دعویدار تو اٹھ سکتے ہیں جن کا جھوٹا ہوناعیا ناً ثابت ہو، مگر میرے بعد کسی سچے نبی کی آمد ممکن نہیں :
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم... وإنه سيكونُ في أُمَّتي كذَّابون ثلاثونَ، كلُّهُمْ يزعُم أنه نبيّ، وأنا خَاتَمُ النبيين لا نَبيَّ بعدي ( سنن أبی داود ،حدیث نمبر 4252)
حضرت ثو بان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا .... اور یہ کہ میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ حالاں کہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی اور نبی نہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا اپنے آپ کو محمد عربی کا بروزی پیغمبر کہنا ایک، خود تردیدی دعویٰ ہے ۔ یہ اپنی تردید آپ کر رہا ہے۔ جب پیغمبر اسلام نے خود یہ نہ کہا ہو کہ میرے بعد میرا بروز ہو گا۔ یا آئندہ میرا بروزی پیغمبر آئے گا تو کیسے یہ مانا جا سکتا ہے کہ آپ کا بروز ہوا۔ ایسی حالت میں تو یہ دعویٰ اپنے آپ کٹ جاتا ہے۔
اسی داخلی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ان کی جماعت میں توجیہ و تعبیر کا اختلاف پیدا ہوا اور ان کا فرقہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک فرقہ (احمدی فرقہ) نے ان کو مذکورہ معنوں میں نبی کہا۔ اور دوسرے فرقہ (لاہوری فرقہ ) نے کہا کہ وہ صرف مجدد تھے۔
تاریخ کی تصدیق
پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر جلد ہی ڈیڑھ ہزار سال پورے ہونے والے ہیں۔ مگر اب تک ساری دنیا میں کوئی ایک بھی قابل ذکر شخص پیدا نہیں ہوا جو مستقل نبوت کا دعوی ٰکرے ، اور اس کا دعویٰ تاریخ میں برقرار رہے ۔
آپ کے زمانہ میں عرب کے مسیلمہ الحنفی (م 633ء) نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ مگر اس کا دعویٰ صرف یہ تھا کہ میں محمد کے ساتھ کار نبوت میں شریک کیا گیا ہوں (انی قد أشركت في الامر معه) آپ نے اس کے شریک نبوت ہونے کا انکار کیا ، اس لیے اس کا دعویٰ بے بنیاد ہو کر رہ گیا۔ عراق کے المتنبی (965 - 915ء) نے جزئی نبوت کا دعویٰ کیا ۔ مگر اپنی زندگی ہی میں وہ اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو گیا ۔ پنجاب کے گرو نانک (1539 - 1469ء) کو ان کے کچھ معتقدین اپنے طور پر پیغمبر کہہ دیتے ہیں۔ مگر خود انھوں نے کبھی اپنے آپ کو پیغمبر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا ۔ ان کے اپنے کلام کے مطابق، انھیں صرف ایک مذہبی یا روحانی پیشوا کہا جا سکتا ہے۔ ایران کے بہاء اللہ (1892 - 1817) کا معاملہ بھی یہی ہے۔ انھوں نے پیغمبر خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ، بلکہ مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یعنی شیعہ عقیدہ کے مطابق ، بارہواں امام جو رسول کی جگہ آئے گا ۔ گویا ان کا دعویٰ جانشین رسول ہونے کا تھا نہ کہ رسول ہونے کا۔ اسی طرح ہندستان کے غلام احمد قادیانی (1908 – 1839) نے اپنے آپ کو ذیلی پیغمبر کی حیثیت سے پیش کیا۔مستقل پیغمبر کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو پیش کرنے کی ہمت نہ کر سکے ۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب ایک مورخ مزید آگے بڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آیا ۔ آپ کے زمانےمیں جو چیز پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی، آج وہ ایک تاریخی واقعہ بن چکی ہے۔ کیا اس کے بعد بھی یہ گنجائش ہے کہ آپ کے خاتم الرسل ہونے پر شبہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے آپ عقیدہ کے اعتبار سے خاتم الرسل ہیں ، اور دوسرے لوگوں کے لیے تاریخی واقعہ کے اعتبار سے خاتم الرسل۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں خاتم النبیین (Seal of the prophets) کہا گیا ہے۔ یعنی نبیوں کی مہر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نبوت کے سلسلہ پر آخری مہر لگا دی ۔ اب اس فہرست میں کسی نئے نام کا اضافہ ہونے والا نہیں۔ اسی بات کو آپ نے ان لفظوں میں بیان فرمایا کہ انی آخر الانبیاء ( میں آخری نبی ہوں )
نزول قرآن سے لے کر اب تک کے زمانے کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور پیغمبر اسلام کے یہ الفاظ تاریخ کا فیصلہ بن گئے ۔ اس طویل مدت میں کوئی ایک شخص بھی نہیں جو بحیثیت نبی کے اٹھا ہو یا واقعی معنوں میں اس نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ آپ کے بعد کی تاریخ کا پورا ذخیرہ ایسے کسی شخص کے تذکرے سے خالی ہے ۔
اصل یہ ہے کہ ہر مذہب میں بعض مصلح قسم کے افراد کے اٹھنے کی خبر دی گئی ہے ۔ اسی امکان کو کچھ افراد نے اپنی شخصی حوصلہ مندی کے لیے استعمال کیا ۔ مثلاً حدیث میں ایک "مہدی" کا ذکر ہے جس کو سنی مسلمان سادہ معنوں میں اور شیعہ حضرات مبالغہ آمیز معنی میں لیتے ہیں۔ اس کے حوالے سے کچھ لوگ مہدی ہونے کے دعویدار بن گئے۔ مسیحیت میں نیز اسلام میں حضرت مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہے۔ اس بنا پر کچھ لوگ کہنے لگے کہ میں مسیح موعود ہوں ۔ اسی طرح ہندو دھرم میں بھگو ان کے اوتار لینے کا تصور پایا جاتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اوتار کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ پیغمبر اسلام کے بعد اٹھنے والے تمام مدعیوں کا معاملہ ، ایک یا دوسری صورت میں یہی ہے ۔
پیغمبر اسلام کے بعد جن مدعیان نبوت کا نام لیا جاتا ہے، وہ غلط طور پر لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ نبوت کی زمین پر نہیں اٹھے بلکہ دوسری زمینوں پر اٹھے۔ نبوت کی زمین آپ کے بعدایک ممنوعہ زمین بن گئی ، اور عملاً وہ آج تک ممنوعہ زمین بنی ہوئی ہے۔
نبوت ، کار نبوت
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ نبوت کا تسلسل ختم ہوگیا ، مگر کار نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ ایک انسان کا نبی کی حیثیت سے منتخب کیا جانا اور فرشتہ کے ذریعہ اس کا باقاعدہ ربط خدا سے قائم ہونا ، یہ ایک انتہائی غیر معمولی اور استثنائی واقعہ ہے۔ اس قسم کا واقعہ صرف اس وقت ظہور میں لایا جاتا ہے جب کہ خدا کی ہدایت محفوظ صورت میں موجود نہ ہو۔ یہی واحد فیصلہ کن سبب ہے جو نبی کی پیدائش کو ضروری قرار دیتا ہے۔ مگراب قرآن کی صورت میں خداکی کتاب مکمل طور پرمحفوظ ہو چکی ہے، اس لیے اب کسی نئے نبی کی آمد کا سبب بھی باقی نہیں رہا۔ اب طالبان حق کو کسی نئے پیغمبر کا انتظار نہیں کرنا ہے بلکہ پیغمبر آخر الزماں کے اسوہ کی روشنی میں خدا پرستی کے تقاضے پورے کرنا ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ زندگی کوئی ٹھہری ہوئی چیز نہیں ، وہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے ۔ اس بنا پر بار بار ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں از سر نو خدا کا حکم معلوم کیا جائے ۔ مگر حالات کی تبدیلی کے مسئلہ کاحل اجتہاد ہے نہ کہ نئی نبوت ۔ قرآن اور حدیث میں تمام ضروری اور بنیادی احکام بتا دیے گئے ہیں۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ حالات کو قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں جانچیں۔ اور اصل کے ذریعہ فرع کا اور کل کے ذریعہ جزءکا حکم معلوم کریں۔ اب ہمیں نئی نبوت کی ضرورت نہیں ۔ اب ہمیں صرف اس عالمانہ بصیرت کی ضرورت ہے جو "قدیم " احکام کو سمجھے اور "نئے حالات" پر ان کا انطباق (Application) دریافت کر سکے ۔