45 سال بعد

فرینک بورگن (Frank P. Bourgin) نے امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی سے اقتصادی تاریخ کے موضوع پر ریسرچ کیا۔ انھوں نے اپنا 617  صفحات کا مقالہ تیار کر کے یونیورسٹی کے حوالہ کر دیا۔ یہ 1942  کا واقعہ ہے ۔ مگر یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے شعبہ نے ان کے مقالہ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس پر انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی جائے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ آدم اسمتھ (Adam Smith) کے فکری غلبے کا زمانہ تھا۔ امریکی دانشور اس وقت آدم اسمتھ کے زیر اثر آزاد معیشت (Laissez-faire) کو مقدس عقیدہ کا درجہ دیے ہوئے تھے۔ مگر مسٹر بورگن کا مقالہ اس رواجی فکر اور اس روایتی تعقل (Coinventional wisdom) سے ٹکراتا تھا کیوں کہ انھوں نے اپنے مقالہ میں یہ لکھا تھا کہ آزاد معیشت بے قید معیشت کا نام نہیں ہے۔ امریکی دستور کے مطابق ، حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ منصوبہ بند اقتصادیات (Planned economy) کا طریقہ اپنائے ۔ اور حسب ضرورت نجی اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی لگائے ۔

مسٹر بورگن نے ڈاکٹریٹ سے مایوس ہو کر بزنس شروع کر دیا۔ انھوں نے اپنے مقالہ کو لوہے کے ایک بکس میں بند کر دیا جو ایک تلخ وراثت (Bitter legacy) کے طور پر ان کے گھر میں پڑارہا۔ یہاں تک کہ مسٹر بورگن کی عمر 77 سال ہو گئی ۔ وہ جسمانی اعتبار سے معذور ہو گئے ۔

 بالآخر حالات بدلے ۔ امریکی دستور کے بارے میں نئی تعبیر عام طور پر تسلیم کی جانے لگی۔ چنا نچہ امریکہ کے ایک ممتاز پروفیسر شیلی سنگر (Arthur Schlesinger Jr) نے خاص اسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام امریکی تاریخ کا اتار چڑھاؤ (Cycles of American History) ہے۔ مسٹر بورگن نے یہ کتاب پڑھی تو انھوں نے محسوس کیا کہ اس کتاب میں بھی وہی خیالات پیش کیے گئے ہیں جو انھوں نے تقریباً آدھی صدی قبل تحریر کیے تھے۔ اس کتاب کو دیکھنے کے بعد انھوں نے پروفیسر شیلی سنگر کو اپنے مقالہ کا خلاصہ روانہ کیا اور اس کے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا وہ بھی انھیں تحریر کیا ۔

پروفیسر شیلی سنگر (سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک) نے مقالہ کو پڑھ کر اس کی زبردست تحسین کی۔ انھوں نے لکھا کہ مسٹر بورگن جدید اقتصادی تنظیم کے حقیقی پانیر (True pioneer) ہیں۔ مسٹر بورگن کے علاو ہ انھوں نے شکاگو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ کو بھی خط لکھا اور اس میں پر زور طور پر یہ اپیل کی کہ مسٹر بورگن کے معاملہ پر از سر نوغور کیا جائے۔ کیوں کہ مسٹر بورگن نے ممتاز طور پر ایک تحقیقی کام کیا تھا اور انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہ دے کہ ان کے ساتھ زبر دست نا انصافی ہوئی ہے۔

امریکہ میں اب آدم اسمتھ کے فکری غلبہ کا سابقہ دور ختم ہو چکا تھا۔ چنانچہ شیلی سنگر کی اپیل  مؤثر ہوئی۔ یونیورسٹی کے ذمہ داروں نے معاملہ پراز سر نو غور کرنے کے بعد اقرار کیا کہ اس معاملے میں ان سے غلطی ہوئی ہے ۔ مسٹر پر یشٹ (Mr. Pritchet) نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ مسٹر بورگن کا کام ایک عظیم کام تھا :

I thought it was a tremendous job.

چنانچہ یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ جون 1988 میں ایک خصوصی تقریب کی جائے اور اس میں فرینک بورگن کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی جائے۔ مزید یہ کہ شکاگو یونیورسٹی نے مسٹر بورگن کےپورے خاندان کے لیے ہوائی سفر کا انتظام اپنے ذمہ لیا تاکہ مسٹربورگن کے ساتھ ان کی بیوی، بچےاور پوتے پوتیاں بھی شکاگو آئیں اور جون کے کانوکیشن میں شرکت کر سکیں (ٹائمس آف انڈیا 27 اپریل 1988)

جو واقعہ مسٹر فرینک بورگن کے ساتھ پیش آیا ،  وہی زیادہ بڑے پیمانہ پر اس دنیا میں ان افراد کےساتھ پیش آتا ہے جو خالص حق پر قائم ہونے کی کوشش کریں اور لوگوں کے سامنے بے آمیز سچائی کوپیش کرنا چاہتے ہوں۔ دنیا کے وہ لوگ جن کا دین ذاتی مفاد ہے، جو مصلحتوں میں ڈوبے ہوئےہیں ، وہ انھیں رد کر دیتے ہیں۔ وہ ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہی پچھلے پیغمبروں کے ساتھ پیش آیا اور یہی موجودہ زمانےکے علمبرداران ِحق کے ساتھ پیش آئے گا۔

مگرناقدری اور بے اعترافی کا یہ ماحول "45سال "سے زیادہ باقی رہنے والا نہیں۔ یہ صورتِ حال عارضی ہے نہ کہ مستقل۔ وہ وقت لازماً  آنے والا ہے جب کہ حالات مکمل طور پر بدل جائیں ۔ جب مالک کائنات براہ راست ظاہر ہو کر یہ اعلان کرے کہ میر ے جس بندے کو انسانوں نے رد کر دیا تھا، اس کو میں قبولیت کا شرف عطا کرتا ہوں۔ میرا یہی بندہ میرا مطلوب بندہ تھا۔ دوسرے لوگ اگر چھلکا ہیں تو یہ مغز تھا۔ دوسرے لوگ اگر کوڑا ہیں تو یہ اثاثہ تھا ۔

 لوگوں کے اس مردو د بندے کو آج میں اپنے مقبول بندے کے طور پر سرفراز کرتا ہوں۔ آج میں اس کے لیے ابدی انعامات کے تمام دروازے کھولتا ہوں، وہ جس دروازے سے چاہیے میری رحمتوں کی دنیا میں داخل ہو جائے  –––––  اس آنے والے دن کا آنا یقینی ہے۔ اس دن مایوسی اور ناکامی رد کرنے والوں کے لیے ہوگی ، اور عزت اور کامیابی ان کے لیے جنہیں رد کر دیاگیا تھا ۔

یہی بات حضرت مسیح نے ان لفظوں میں کہی ہے کہ" بہت سے اول آخر ہو جائیں گے اور آخر اول "۔(مرقس  10:31) دوسری جگہ حضرت مسیح کا ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے :

پھر اس نے اپنے شاگردوں کی طرف نظر کر کے کہا مبارک ہو تم جو غریب ہو، کیوں کہ خدا کی بادشاہی تمہاری ہے ۔ مبارک ہو تم جو اب بھوکے ہو ، کیوں کہ آسودہ ہو گے۔ مبارک ہو تم جو اب روتے ہو، کیوں کہ ہنسو گے ۔ جب ابن آدم کے سبب سے لوگ تم سے عداوت رکھیں گے اور تمہیں خارج کر دیں گے اور لعن طعن کریں گے اور تمہارا نام برا جان کر کاٹ دیں گے تو تم مبارک ہو گے ۔ اس  دن خوش ہونا اور خوشی کے مارے اچھلنا ۔ اس لیے کہ دیکھو ، آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔ کیوں کہ ان کے باپ دادا نبیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ مگر افسوس تم پر جو دولت مندہو، کیونکہ تم اپنی تسلی پا چکے۔ افسوس تم پر جواب سیر ہو ، کیوں کہ بھوکے ہو گے ۔ افسوس تم پر جواب ہنستے ہو کیوں کہ ماتم کروگے اور روؤ گے ۔ افسوس تم پر جب سب لوگ تمہیں بھلا کہیں ، کیوں کہ ان کے باپ دادا جھوٹے نبیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (لوقا 6 : 20 – 26)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom