خبر نامہ اسلامی مرکز - 44
1۔ڈاک پتھر ( دہرہ دون) میں 25 جون 1988 کو سیرۃ النبی کا جلسہ تھا۔ منتظمین کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی ۔ 25 جون کی شام کو سیرت کے اخلاقی پہلو پر خطاب کیا۔ اس سفر کے دوران سہارن پور اور ڈاک پتھر میں انفرادی مجلسیں ہوئیں۔ اور سوال و جواب کی صورت میں اظہار ِخیال کیا گیا۔ یہ سفر اس طرح ہوا کہ 24 جون کی شام کو دہلی سے سہارن پور پہنچے۔ رات کو سہارن پور میں قیام کیا ۔ 25 جون کو ڈاک پتھر کا سفر ہوا ۔ ڈاک پتھر سے روانہ ہو کر دہرہ دون آئے ۔ اور پھر وہاں سے روانہ ہو کر 26 جون کو دہلی واپس آگئے۔
2۔احمد آباد (گجرات) سے چھیپا برادری کا ایک ماہنامہ گجراتی زبان میں نکلتا ہے ۔ اس کا نام چھیپا بلیٹن ہے۔ اس ماہنامہ میں ہر ماہ الرسالہ کے مضامین گجراتی میں ترجمہ کر کے شائع کیےجاتے ہیں ۔ اس طرح گجراتی داں حلقہ میں الرسالہ کا پیغام مسلسل پہنچ رہا ہے ۔
3۔ایک خاتون لکھتی ہیں : الرسالہ میرے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ مذہب پر جان دینے کی باتیں تو سب کرتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے الرسالہ ۔ (مسز ناہید ایم اے ، بنگلور)
4۔ٹائمس آف انڈیا (12 جولائی 1988) میں صدر اسلامی مرکز کا ایک انگریزی آرٹیکل چھپا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو نے اپنے "جہاں نما " پروگرام کے تحت اس آرٹیکل کا خلاصہ اردو میں نشر کیا۔اس طرح اسلامی مرکز کا تعمیری پیغام بیک وقت لاکھوں لوگوں تک پہنچ گیا ۔ آل انڈیا ریڈیو سے اس طرح کی نشریات کئی بار آچکی ہیں ۔ مثلاً صدر اسلامی مرکز کا طویل انٹرویو شائع شدہ اخبار اردو (29 جنوری 1988) کو آل انڈیا ریڈیو نے مکمل طور پر نشر کیا تھا۔ وغیرہ ۔
5۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ جولائی 1988 کا مضمون "قیادت کا دیوالیہ پن " بہت ہی زیادہ پسند آیا۔ خداوند کریم آپ کی حیات دراز کرے اور ہم لوگوں کو ان معاملات میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے ۔ آپ کے متعلق اخبارات میں پڑھتا ہوں ۔ میں خود ایک جماعت سے متأثر ہوں ۔ ان حضرات سے بھی گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے تقسیم ہند کے وقت کا کچھ ہوش مجھےہے ۔ اس زمانہ میں بالکل یہی باتیں مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق بھی عام تھیں ۔ جس کا نتیجہ اب بھگت رہے ہیں۔ اور مزید بھگتیں گے۔ (احسان احمد ، رام نگر چوک ، گوندیہ )
6۔الرسالہ نومبر 1987 صفحہ 45 پر ایک بدھسٹ پروفیسر کا تأثر الرسالہ کے بارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کو پڑھ کر جناب اسلم احمد (بتیا ، بہار) نے اپنی طرف سے سالانہ زیر تعاون ادا کر کے ان کے نام الرسالہ انگریزی جاری کرایا ہے ۔ یہ نہایت مناسب طریقہ ہے ، خدا کے فضل سے بہت سے ساتھی ایسا کر رہے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرف سے غیر مسلم صاحبان کے نام انگریزی الرسالہ جاری کرانا چاہیے ۔ یہ دعوتی ذمہ داری کو ادا کرنے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ ہے۔
7۔الرسالہ کی مقبولیت اب خدا کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس کے مخالفین بھی اس کو بطورِ واقعہ تسلیم کرتے ہیں ۔ ایک صاحب نے اپنے چار صفحہ کے خط (11 جون 1988) میں الرسالہ پر سخت تنقید کی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ آخر میں لکھتے ہیں : آپ کا پرچہ( الرسالہ) تو اب سنلائٹ صابن کی طرح چل چکا ہے ۔ آپ اس میں کچھ بھی لکھیں ، کیا ہوتا ہے (لوگ بہر حال اس کو پڑھیں گے)عبد الصبور ، اجین ۔
8۔ایک صاحب لکھتے ہیں : میں نے تذکیر القرآن کی دونوں جلدیں حاصل کیں ۔ ان کو پڑھ رہا ہوں ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ حقیقت میں ایک ایسی تفسیر مجھے ملی ہے جو قرآن کے اصلی مقصد کو واضح کر رہی ہے ۔( الطاف حسین شاہ انجینیر، مٹن، کشمیر)
9۔ایک صاحب اپنے خط ( 26 جولائی 1988) میں لکھتے ہیں : میں بحمد اللہ شروع سے آپ کی تحریروں کو بغور پڑھ رہا ہوں۔ اس مطالعہ سے مجھے نہ صرف دین کی بابت معلومات ہوئی بلکہ اس سے میرے اندر ایک نیا دینی مزاج بنا ہے ۔ میرے اندر ایک یقینِ کامل پیدا ہوا ہے۔ پہلے میں ہر معاملہ میں اندیشوں میں گھرا رہتا تھا۔ مطالعہ کے بعد میں اپنے آپ کو قناعت سے واقف، صبر کرنے والا اور ایک یقین والا انسان پاتا ہوں جس میں نہ گھبراہٹ ہے اور نہ پریشانی۔( اقبال احمد ، مراد آباد )
10۔ایک صاحب اپنے خط 25 جون میں لکھتے ہیں : بندہ بڑے شوق سے ہر ماہ الرسالہ پڑھتا ہے ۔ میں ایک مسجد میں پیش امام ہوں اور آپ کے مضامین اپنے وعظ میں بیان کرتا رہتا ہوں ۔ نوجوانوں کے ذریعہ ایک موقع پر مجھے یہ رپورٹ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ اپنا بیان صبر و اعراض کے عنوان پر نہ دیتے تو ہم نے طے کیا تھا کہ "ہم نوجوان لوگ پولیس چوکی کو جلائیں گے ۔ آپ کا بیان سن کر ہم اس سے رک گئے "۔ یہ تمام فائد ے الرسالہ کی تحریروں کا نتیجہ ہیں ۔ (سید نور ، پونہ)
11۔صدر اسلامی مرکز کی آواز میں ایک نیا کیسٹ تیار کیا گیا ہے ۔ اس کا نام ہے "میدانِ عمل "اس میں دعوت کی اہمیت کو ایک گھنٹہ کی تقریر میں بتایا گیا ہے ۔
12۔جب سے تذکیر القرآن کی دونوں جلدیں شائع ہوئی ہیں ، اس کے انگریزی ترجمہ کی مانگ بڑھ گئی ہے ۔ مثلاً زینب شیخ محمد حبیب اللہ نے نیوزی لینڈ سے لکھا ہے کہ کیا تذکیر القرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہو چکا ہے۔ اس کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے ( 29 جون 1988) اس سلسلہ میں اطلاع دی جاتی ہے کہ تذکیر القرآن کے انگریزی ترجمہ کا کام برابر جاری ہے۔ تاہم ابھی اس کا اندازہ نہیں ہے کہ اس کو کتابی صورت میں لانے کے لیے کتنی دیر لگے گی۔
13۔ایک صاحب اپنے خط 20 جون 1988 میں لکھتے ہیں : ہم تمام بہن بھائی آپ کی تصنیفات اور الرسالہ کا بصد شوق مطالعہ کرتے ہیں ۔ ہم آپ کے خیالات سے پوری طرح متفق ہیں ۔ اس بات کی کوشش پوری طرح جاری ہے کہ آپ کی ہر بات پر عمل ہو ۔ آپ کی تصنیفات کے مطالعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات جس کی زندگی میں نہیں ہیں وہ خدا کی اس زمین پر جینےاور زندہ رہنے کے لائق نہیں۔ (نیر ربانی، بنگلور)
14۔ایک صاحب کراچی سے لکھتے ہیں : پہلے مجھے سوشلسٹ مفکرین اور غیر مسلم مفکرین کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک روز اردو بازار میں اسی قسم کی کتابیں خرید رہا تھا کہ میرے دوست نے کہا کہ تم ان کتابوں پر اپنی رقم کیوں ضائع کرتے ہو ۔ چلو مولانا وحید الدین صاحب کی کتابیں خریدو ۔ میں مولانا لوگوں سے بہت الرجک تھا۔ مگر دوست کے اصرار پر آپ کی دو کتابیں، اللہ اکبر اور راز ِحیات خرید لیا ۔ جب میں نے یہ کتابیں پڑھیں تو مجھے اپنے بھائیوں سے شکوہ پیدا ہواکہ کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ اسلام کیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے راہ بتانے والا مل گیا۔ اب میں اس کو سنہری اصول بنا کر اس پر عمل کروں گا، ان شاء اللہ (مصطفیٰ کمال ، کراچی)