میوات کا سفر

1967 میں جب میں دہلی آیا تو "میوات" کا ایک افسانوی تصور میرے ذہن میں تھا۔ یہ خواہش تھی کہ وہاں چل کر خود اپنی آنکھ سے دیکھا جائے کہ میوات کیا ہے ۔ پہلی بار میں 1969 ءمیں میوات گیا اور وہاں 24 گھنٹے گزارے ۔ اس کے بعد اگلے دس سال کے عرصہ میں بار بار میوات کا سفر ہوتا رہا۔

 اب کچھ لوگوں کا مشورہ ہوا کہ ان پچھلے سفر ناموں کو اکٹھا کر کے انھیں ایک کتاب کی صورت میں شائع کر دیا جائے ۔ ان سفر ناموں کو دوبارہ مرتب کرتے ہوئے خیال آیا کہ یہ اسفار پندرہ سال پہلے کے زمانہ میں پیش آئے تھے ۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک بار اور میوات کے علاقہ کا سفر کر لیا جائے تاکہ میرا مشاہدہ مطابقِ حال ہو جائے ۔ اس کے مطابق میوات کا زیرِ تذکرہ سفر ہوا۔ یہ سفر میں نے بالقصد بذریعۂ بس کیا تاکہ میں عام میواتیوں کو ان کے اپنے ماحول میں دیکھ سکوں اور زیادہ قریب سے میوات کا مشاہدہ کر سکوں ۔

 اس سفر میں مولانا عبدالرحیم بڈیڈوی میرے ساتھ تھے۔ ان سے میں نے مقصد ِسفر کا ذکرکیا تو انھوں نے مسکرا کر کہا : "میوات میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ پندرہ سال پہلے آپ نے میووں کو جس حال میں دیکھا تھا، وہیں آج بھی وہ پڑے ہوئے ہیں "۔ سفر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ واقعی ان کا بیان صحیح تھا۔ میوات کے دوسرے فرقوں کے لیے زمین حرکت میں ہے مگر میووں کے لیے زمین بدستور رکی ہوئی ہے ، میوؤں کے لیے وہ حرکت نہیں کرتی۔

ایک صاحب نے بس کا تازہ لطیفہ بتایا۔ ایک عمر رسیدہ میونی بس میں داخل ہوئی ۔ وہ بس کے اندر ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ کہاں بیٹھے۔ ایک مسافر نے ازراہ ِتفریح ڈرائیور کی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھ وہ سیٹ خالی ہے، اس پر بیٹھ جا ۔ میونی اپنی گھٹری لیےہوئے وہاں پہنچی اور" خالی سیٹ" پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں ڈرائیور اندر داخل ہوا۔" عورت تو یہاں کہاں بیٹھ گئی ۔ یہاں سے تو میں بیٹھ کر گاڑی چلاؤں گا"۔ ڈرائیور نے کہا۔ میونی نے نہایت اطمینان کے ساتھ اپنی گھٹری سبنھالتے ہوئے جواب دیا : میں تو چو کھی بیٹھی ہوں، تو کہیں اور سے چلالے ۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ میواتی مرد یا عور تیں خدا نخواستہ پیدائشی طور پر کم سمجھ ہوتے ہیں۔ وہ بھی یقیناً وہی صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں جو دوسرے انسان لے کر پیدا ہوتےہیں۔ یہ در اصل تعلیم کی کمی ہے جس کی بنا پر میووں کا شعور ارتقاء نہیں کر پاتا۔

 اس سلسلے میں ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ایک بوڑھی میونی بازار گئی۔ اور پچاس روپے میں ایک زنانہ جو تا خرید کر لے آئی۔ گاؤں کی عورتوں نے دیکھ کر پوچھا کہ یہ جو تا تم نے کتنے میں خریدا۔ میونی نے کہا کہ "آٹھ آنے میں " عورتوں نے کہا کہ کیوں مذاق کر رہی ہو، صحیح دام بتاؤ۔ میونی نے کہا کہ میں مذاق نہیں کر رہی ہوں ۔ بات یہی ہے۔ عورتوں کو یقین نہیں آیا کہ ایسا جو تا آٹھ آنے میں مل سکتا ہے ، چنانچہ وہ اصل قیمت جاننے کے لیے اصرار کرتی رہیں ۔ آخر میونی نے کہا کہ بات یہ ہے کہ پہلے میں ایک سیر گھی بازارلے جاتی تھی اور آٹھ آنے میں بیچتی تھی۔ پھر آٹھ آنے کا جو تا خرید کر لاتی تھی۔ اب میں ایک سیر گھی لے کر بازار گئی تومیرا گھی پچاس روپے میں بکا اور جو تا بھی پچاس روپے میں ملا۔ تو میرے لیے تو جیسا پچاس روپیہ ویسا آٹھ آنہ ۔

مذکورہ میونی نے اقتصادیات کے ایک اصول کو نہایت کامیابی کے ساتھ سادہ لفظوں میں بیان کر دیا ہے ۔ یعنی قیمت کے تعین کے اصول کو ۔

18 اکتوبر 1987 کی صبح کو ساڑھے چھ بجے دہلی سے بذریعۂ  بس روانگی ہوئی ۔ شاہ جہاں آباد کی فصیلوں اور لال قلعہ کی دیواروں کو پیچھے چھوڑتے ہوتے ہماری بس آگے بڑھتی رہی ۔ فرید آباد، بلب گڑھ ، پلول ، ہوڈل ، کو سی ہوتے ہوئے ہم کا ما( ضلع بھرت پور) پہنچے۔ کاما ایک تاریخی قصبہ ہے ۔ قدیم راجہ کے محل اب بھی یہاں ٹوٹی ہوئی حالت میں موجود ہیں ۔

 1947 سے پہلے محلہ قاضی پاڑہ میں مسلمانوں کی آبادی تھی۔ تقسیم کے بعد صاحب حیثیت لوگ زیادہ تر پاکستان چلے گئے۔ اس وقت یہاں ایک جامع مسجد زیرِ تعمیر تھی ۔ عین اسی زمانے میں تقسیم کا ہنگامہ پیش آیا اور مسجد اس حال میں پڑی رہ گئی کہ دیواریں کھڑی ہوئی تھیں مگر چھت غائب تھی ۔ صحن اور فرش کی جگہ گڑھے تھے ۔ ویران مسجد جانوروں کی آماج گاہ بن گئی۔

30 سال سے زیادہ عرصے کے بعد حاجی رحیم بخش کو خیال آیا کہ اس کی تعمیر کریں اور اس کو با قاعدہ آباد کریں۔ انھوں نے " آسمان کے سایہ کے نیچے" اور صرف اللہ کے بھروسہ پر کام شروع کر دیا۔ انھوں نے مسجد کی تعمیر مکمل کی اور یہاں حفظ قرآن کا مدرسہ قائم کیا ۔ اب ماشاء اللہ یہ ایک آباد مسجد ہے۔ یہاں تقریباً 50طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ حافظہ کے علاوہ دوسرے علوم بھی بقدر ضرورت پڑھائے جا رہے ہیں ۔ قاری عبد الرحمن ہزاروی اس کے روح رواں ہیں ۔

میری فرمائش پر چند بچوں نے قرآن کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے۔ بچے جب قراٴت کے ساتھ قرآن کی آیتیں پڑھ رہے تھے تو مجھے یاد آیا کہ نزول قرآن سے لے کر اب تک مسلسل ہر دور میں اور رات دن کے ہر لمحہ میں امت اسی طرح قرآن کو پڑھتی اور سناتی رہی ہے ۔ اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے حال کا رشتہ ماضی سے مل گیا ہے ، جیسے آج کے قاری قرآن کے الفاظ دور اول کے قاری قرآن سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ جیسے کہ یہ وہی پیغمبر عربی کی بلند کی ہوئی قدیم آواز ہے جو مجھ کو جدید نسل کی زبان سے سنائی دے رہی ہے ۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں 1947  میں کافی مارکاٹ ہوئی تھی۔ یہاں کے مسلمان سب ادھر اُدھر چلے گئے تھے۔ مسجد کو آباد کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان دوبارہ اگر بسنا شروع ہو گئے چنانچہ اب کافی مسلمان دوبارہ واپس آکر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ اسی طرح دوسری قوموں کےلوگوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

کاما کی اس مسجد کے قریب ایک گوردوارہ ہے اور اس سے بالکل ملا ہوا مندر بھی ہے ۔ یہاں جو باباجی ہیں وہ روزانہ صبح کو فجر سے پہلے اپنی مذہبی ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ مگر مسجد والوں نے بتایا کہ باباجی ہماری عبادت کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ جیسے ہی ہمارا مؤذن فجر کی اذان شروع کرتا ہے ، وہ فورا ًاپنی ریکارڈنگ بند کر دیتے ہیں۔

بابا جی ایسا کسی مطالبہ یا احتجاج کی بنا پر نہیں کرتے ۔ بلکہ محض اپنے مذہبی جذبہ کے تحت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کی اچھی بات کا احترام کرنا ایک فطری جذبہ ہے جو خودخدا نے ہر آدمی کے اندر پیدا کر رکھا ہے۔ اگر انسان کو چھیڑا نہ جائے تو یہ فطری جذبہ کام کرے گا اور اپنے آپ دوسروں کے اچھے کام کے احترام کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ مگر جب ایک فریق دوسرے فریق کی انا کو جگا دے تو یہ پیدائشی جذبہ دب جاتا ہے ۔ اس کے بعد انسان کی بھڑکی ہوئی انا کام کرنے لگتی ہے نہ کہ خدا کا پیدا کیا ہوا فطری جذبہ  ––––– حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی کے حصہ میں اس کے اپنے عمل کا انجام آتا ہے ۔ اگر چہ وہ اس کو نادانی کی بنا پر فریق ثانی کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔ اس مسجد اور مدرسہ کو خوش قسمتی سے ایسے کارکن ملے ہیں جو نہایت سیدھے ہیں۔ جھگڑا لڑائی تو درکنار، وہ احتجاج کی زبانی مہم بھی چلانا نہیں جانتے ۔ وہ ماحول کے ہر خوش گوار یا نا خوش گوار واقعہ سے بے خبر رہ کر بس " قرآن کی خدمت "میں مشغول رہتے ہیں۔اس سادہ مزاجی کا انھیں زبر دست فائدہ ملا ہے۔

مجھے یہاں بیت الخلاء جانے کا اتفاق ہوا۔ خلاف توقع میں نے دیکھا کہ دو نہایت صاف ستھر ے بیت الخلاء "فلش "کے اصول پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ میوات میں میرے لیے نئی چیز تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکومت کی مدد سے بنے ہیں۔ حکومت کی طرف سے دیہات کے سرکاری اسکولوں کے لیے اس قسم کی سہولت کا اعلان کیا گیا تھا۔ مدرسہ والوں نے بھی اپنے لیے دو بیت الخلاء کی درخواست دے دی۔ درخواست منظور ہو گئی، اور یہ مسئلہ نہایت عمدہ طریقہ پر حل ہو گیا ۔ اسی طرح مدرسہ والوں کی درخواست پر حکومت کے محکمہ نے یہاں بجلی اور پانی بھی پہنچا دیا ہے ۔

مسجد اور مدرسہ کے کارکنوں کو دیکھئے تو وہ تقریباً بے زبان معلوم ہوں گے۔ مگر بعض حالات میں بے زبانی اس سے بھی زیادہ بڑی طاقت بن جاتی ہے جتنی کہ زبان دانی۔

کاما سے دوبارہ بذریعۂ بس روانہ ہوئے ۔ اور پہاڑی ، گوپال گڑھ ، سیکری وغیرہ ہوتے ہوئے گلپاڑہ پہنچے ۔ راستہ میں بس چند منٹ کے لیے میل کھیڑلا کے مدرسہ پر رکی۔ یہاں میں نے دیکھا کہ سڑک کے کنار سے ایک شاندار مسجد اور مدرسہ وسیع رقبہ میں بنایا گیا ہے اور اس پر اسلامی مدرسہ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ میں نے سوچا کہ جو لوگ "تعمیر "کے ان امکانات کو نہیں دیکھتے ، اور صرف "تخریب "کی خبریں سناتے رہتے ہیں وہ خود سب سے بڑےتخریب کار ہیں ، خواہ بطور خود وہ اپنے آپ کو معمار قوم کیوں نہ سمجھ رہے ہوں ۔

 گلپاڑہ میں بھی سڑک کے کنار ے ایک بڑی جامع مسجد کھڑی ہوئی نظر آئی ۔ یہ مسجد بالکل نئی جگہ پر بنائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہاں ایک مدرسہ بھی زیر ِتعمیر ہے ۔ اس مسجد میں ہم نے ظہر کی نماز ادا کی۔ میں نے سوچا کہ اس ملک میں اگر مسلمانوں نے کچھ کھویا ہے تو اس سے بہت زیادہ اب بھی ان کے لیے یہاں موجود ہے ۔  مگر اس ملک میں مسلمانوں کی قیادت ماضی کے قائدین سے لے کر حال کے قائدین تک ایک ہی غلطی کر رہی ہے ۔ اور وہ ہے بعض ناموافق حالات کی تعمیم (جنرلائزیشن)۔ ہماری قیادت کا حال یہ ہے کہ 99  اچھی باتیں اس کو نظر نہیں آتیں۔ البتہ ایک خراب بات اس کو انتہائی باریک بینی کے ساتھ نظر آجاتی ہے۔ اور اس کے نام پر دھوم مچا کر عام مسلمانوں کا ذہن  اس طرح خراب کر دیتی ہے کہ اب مسلمانوں میں شاید وہ لوگ  باقی ہی نہیں رہے جو مثبت اور حقیقت پسندانہ انداز پر سوچ سکیں ۔

 گلپاڑہ میں مفتی عبدالشکور مظاہری (پیدائش  1947) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نےبتایا کہ 1390 ھ میں وہ ایک جماعت کے ساتھ پٹن (گجرات) گئے ۔ یہاں مولانا محمد طاہر پٹنی (مصنف مجمع بحار الانوار) کے خاندان کے ایک صاحب ان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کے پاس مخطوطات (ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں) کا ایک بڑا ذخیرہ تھا ۔ وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنا یہ ذخیرہ مختلف لوگوں کو دکھایا ، مگر کوئی شخص اس کو خریدنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر کتابوں کے سرورق غائب تھے اور بظاہر یہ اندازہ نہیں ہوتاتھا کہ یہ کون سی کتاب ہے ۔

مفتی عبدالشکور صاحب نے ایک کتاب اٹھائی۔ یہ کتاب چار ضخیم جلدوں میں تھی ۔ مگر کسی جلد پر بھی سر ورق موجود نہ تھا۔ میں نے دیکھا تو چاروں نہایت عمدہ خط میں اس طرح یکساں انداز میں لکھی ہوئی تھیں جیسے کہ وہ ٹائپ میں چھاپی گئی ہوں ۔

مفتی عبد الشکور صاحب نے ایک جلد اٹھائی اور کھول کر اس کا ابتدائی صفحہ پڑھناشروع کیا ۔ اس میں چند سطروں کے بعد مصنف نے اپنے اس مجموعہ ٔکتب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے تھے :

وسمّيتها فتح الله المعين على شرح العلامة ملّا مسكين

وہ چوں کہ "ملا مسکین " سے واقف تھے ، انھوں نے اس جملہ سے پوری بات پالی –––––  کنز الدقائق کی شرح ملا مسکین ، اور ملا مسکین کی شرح فتح اللہ المعین "۔یا یہ کتاب اب بھی نہایت عمدہ حالت میں ہے اور اس کے مصنف سید محمد ابو السعود ہیں۔ اسی طرح انھوں نے دوسری کتابوں کے بارے میں پتہ کر لیا اور خریدنے کے لیے آمادگی ظاہر کر دی۔ مالک نے اولاً سب کی قیمت تین ہزار روپے بتائی۔ مگر مفتی عبدالشکور صاحب کے الفاظ میں "اس وقت تین ہزار میرے لیے کالا پہاڑ کی طرح تھا "۔ آخر کار مالک نے صرف 350  روپے میں سارا قیمتی ذخیرہ انھیں دیدیا۔ یہ کل 600  کتابیں ہیں۔ ان میں فتاوی تاتارخانیہ جیسی تاریخی کتابیں بھی شامل ہیں ۔

کسی حقیقت کو پانے کے لیے پیشگی طور پر اس سے آشنا ہونا ضروری ہے ۔ جولوگ پیشگی طور پر آشنا نہ ہوں ، وہ حقیقت کو اپنے سامنے بے نقاب دیکھیں گے مگر وہ اس کو پہچان نہ سکیں گے ۔

گلپاڑہ کی ملاقاتوں میں ایک یادگار ملاقات حاجی دراب خاں (عمر 80 سال )کی تھی۔ وہ بالکل ان پڑھ ہیں۔ اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے۔ مگر ان کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو اپنی معلومات کے مطابق اب تک میں نے کسی عالم کے اندر بھی نہیں پائی، وہ ہے  –––––– اختلاف کے باوجود قدردانی۔

مولانا عبدالرحیم صاحب (بڈیڈ ، ضلع گوڑ گاؤں) اس سے پہلے گلپاڑہ کے مدرسہ میں استادتھے ۔ وہ یہاں ساڑھے تین سال تک امام اور مدرس کی حیثیت سے کام کرتے کرتے رہے ۔ 1969 ء  میں وہ یہاں سے چھوڑ کر چلے گئے ۔ دیہات کے لوگوں کو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں میں اماموں اورمدرّسوں سے شکایت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ گلپاڑہ کے لوگوں کو بھی ہوئی۔ انھیں میں سے ایک حاجی دراب خاں بھی تھے کہ ان کے الفاظ میں ان کی" اس مولوی سے لڑائی رہنے لگی" ۔

لڑائی کس بات پر ہوتی تھی ۔ معمولی معمولی باتوں پر ۔ مثلاً حاجی دراب خاں نے اپنا ایک درخت کٹوایا اور اس کی لکڑی مسجد کے صحن میں رکھوادی۔ اس کی وجہ سے مسجد کا صحن تنگ ہو گیا۔ مولانا عبد الرحیم صاحب نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس اس لکڑی کو یہ یہاں سے ہٹاؤ۔ مگر حاجی دراب خان نے نہیں ہٹایا۔ آخر مولانا عبدالرحیم صاحب نے ایک روزاپنے مدرسہ کے لڑکوں کے ذریعہ تمام لکڑی کو وہاں سے نکلوا کر باہر رکھوا دیا ۔ اس پر حاجی در اب خان کافی غصہ ہوئے۔ وغیرہ یہ مسجد حاجی دراب خان کے خاندان نے بنوائی تھی ۔ مدرسہ بھی ان ہی لوگوں نے قائم کیا تھا۔ مولانا عبدالرحیم صاحب وہاں گویا ان کے ایک" ملازم" تھے۔ ایسی حالت میں ان کی یہ جسارت بالکل نا قابل برداشت تھی۔ اس قسم کی اور بہت سی باتیں تھیں جن کی وجہ سے حاجی دراب کی "اس مولوی سے لڑائی رہتی تھی "، مگر مولانا عبد الرحیم نے بتایا کہ اس کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حاجی در اب ان کے بارے میں مخالفانہ رول ادا کریں ۔

مولانا عبدالرحیم ایک با اصول آدمی ہیں اور اسی کے ساتھ صاف گو ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے لوگوں سے کسی نہ کسی بات پر ان کی تکرار ہو جاتی تھی۔ مثلاً وہ یہاں مسجد کے امام بھی تھے۔ مقرر وقت پر وہ ٹھیک گھڑی کے لحاظ سے جماعت شروع کر دیتے تھے، خواہ کوئی آیا ہو یا نہ آیا ہو ۔ بعض لوگوں کو یہ بات بہت ناگوار ہوتی تھی۔ اس طرح کی باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لوگ ان کے خلاف ہو گئے ۔ حتیٰ کہ انھوں نے گاؤں کی اکثریت کو اپنے موافق بنا لیا اور عام رائے یہ ہو گئی کہ ان کو مدرسہ سے نکال دیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے آدمی کو لایا جائے ۔

 مگر حاجی در اب اس تحریک کے سخت مخالف ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ "اگر چہ اس مولوی سے میری ذاتی لڑائی ہے ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مدرسہ کے کام کے لیے وہ نہایت موزوں ہے، اس کو ہٹانے کے بعد ایسا لائق معلم ہم کو نہیں مل سکتا۔ اس لیے انھوں نے اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے مولوی عبدالرحیم صاحب کی بھر پور حمایت کی  –––– ذاتی شکایت کے باوجود  اعتراف اور قدر دانی کی یہ صفت اتنی کم یاب ہے کہ کم از کم میں نے اپنے تجربہ میں اب تک کوئی دوسرا حاجی در اب نہیں دیکھا ۔

 "حاجی دراب خاں"بظاہر ایک معمولی آدمی ہیں مگر میر ے نزدیک وہ آنے والے عظیم میوات کی علامت ہیں ۔ وہ میووں کے تاریک حال میں اس کے روشن مستقبل کو بتارہے ہیں۔

 میو قوم اگر چہ اپنی جہالت اور اپنی بے شعوری کی وجہ سے ہندستان کی ایک پچھڑی ہوئی قوم بنی ہوئی ہے ۔ مگر فطری امکانات کے اعتبار سے وہ ایک جاندار قوم ہے ۔ باعتبار واقعہ اگرچہ یہ دوسروں سے پیچھے ہیں۔ مگر باعتبار امکان آج بھی وہ دوسروں سے آگے ہیں۔ ذاتی شکایتوں کو نظر انداز کر کے کسی کی خوبیوں کا اعتراف کرنا ، اعلیٰ ترین انسانی صفت ہے ۔ حاجی در اب کی مثال بتاتی ہے کہ یہ اعلیٰ انسانی صفت میووں کے اندر موجود ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں میووں کےلیے ایک عظیم مستقبل کا امکان چھپا ہوا ہے ۔

حاجی در اب خاں نے بتایا کہ انھوں نے مولانا محمد الیاس صاحب کو کئی بار دیکھا ہے اور ان کی تقریریں اور گفتگوئیں سنی ہیں ۔ میں نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب کی کوئی بات جو آپ کویاد ہو بتا ئیے ۔ انھوں نے کہا کہ مولانا جب یہاں آئے تو انھوں نے میووں سے کہا کہ ––––سلوک سے رہو ، نماز پڑھو اور جماعتوں میں جاؤ۔

میں مسجد میں تھا کہ ایک میونے دوسرے میو سے سوال کے انداز میں کہا : کر لیے اُجو(کر لیا وضو ) میواتی زبان دراصل بگڑی ہوئی اردو کا دوسرا نام ہے۔ دنیا کی تقریباً  تمام زبانوں کا حال یہی ہے ۔ ہر ایک کی ایک ادبی اور تحریری زبان ہوتی ہے اور دوسری وہ ہے جس کو عوامی بولی کہا جاتا ہے۔ اسی فرق کی وجہ سے ایک زبان جانتے ہوئے بھی آدمی اس ملک کے  باشندوں کی باہمی گفتگو کو سمجھ نہیں پاتا۔ کیوں کہ غیر شخص کتابی زبان جانتا ہے اور مقامی لوگ عوامی بولی میں باہم گفتگو کرتے ہیں۔ یہ ثنویت عربی اور انگریزی جیسی زبانوں میں بھی ہے اوراردو اور ہندی جیسی زبانوں میں بھی ۔

ایک نوجوان میوسے ملاقات ہوئی ۔ اس کا ایک ہاتھ کہنی کے پاس سے کٹا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ تھریشر   (Thresher) میں    کٹ گیا ہے ۔ جب سے تھریشر ( دانہ کو بھوسہ سے الگ کرنے والی مشین) کا رواج ہوا ہے ، اس طرح کے حادثے زرعی علاقوں میں بہت زیادہ پیش آرہے ہیں۔بیل کا رواج کم ہو جانے کی وجہ سے لوگ تھر یشر کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں، اور موجودہ تھریشر کا حال یہ ہے کہ ذرا سی غفلت سے وہ ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور پھر اس کو کچلے بغیر نہیں رہتا ۔

ترقی یافتہ ملکوں میں اب تھریشر کی جگہ کمبائن (Combine) مشین رائج ہو گئی ہے۔ یہ دوسری مشین بہ  یک وقت دو کام کرتی ہے۔ وہ فصل کاٹتے ہوئے عین اسی وقت اس کا دانہ بھی الگ کر دیتی ہے ۔

تاہم تھریشر بجائے خود کوئی مہلک چیز نہیں ، یہ ہندستانی صنعت ہے جس نے اس کو مہلک بنا دیا ہے ۔ ہندستان میں جو تھریشر بنائے جاتے ہیں وہ ایسی وضع کے ہوتے ہیں کہ ان میں ڈالنے والی چیز کنارے سے ڈالی جاتی ہے اور اس کو ہاتھ سے دھکیلنا پڑتا ہے۔ اس بنا پر یہ خطرہ رہتا ہے کہ ہاتھ اس کے اندر چلا جائے۔ مگر یہ پرانا طریقہ ہے۔ باہر کے ملکوں میں اب ایسے تھریشر بنائے گئے ہیں جن میں کٹی ہوئی فصل کے گھٹے بنا کر اوپر سے ڈال ڈا دیے ہتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی جیسے آٹا پیسنے والی مشین میں غلہ اوپر سے ڈال دیا جاتا ہے۔ اس دوسری قسم کے تھریشر میں یہ امکان ہی نہیں کہ ہاتھ کو مشین پکڑے ۔

ہر سال اخباروں میں تھریشر سے ہاتھ کٹنے کی خبریں چھپتی ہیں ۔ مگر تعجب ہے کہ ہندستانی مشینوں کا طرز ابھی تک بدلا نہیں گیا ۔

 ہم لوگ بستی میں چل رہے تھے کہ ایک عورت گود میں ایک بچہ لیے ہوئے سامنے آئی۔ اس نے مولانا عبد الرحیم صاحب بڈیڈوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : میری بہن کو خون کٹ رہو ہے ، اس کو نّکس بنا دے (میری لڑکی کو خون کی پیچش ہو رہی ہے، اس کے لیے تعویذ لکھ دو)

میوات کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی جہالت ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ نا خواندہ یا نیم خواندہ ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں کی زندگی میں رسوم اور تو ہمات کا اتنا غلبہ ہے کہ اس کے نیچے میووں کی پوری زندگی دب کر رہ گئی ہے ۔ خاص طور پر عورتیں تو بالکل ہی ان پڑھ ہیں ۔ شاذ و نادر ہی ایسی عورتیں  ملیں گی جو ایک  خط بھی لکھ سکتی ہوں ۔ علم کی اہمیت زندگی میں جتنی زیادہ ہے،میووں کے یہاں اس کی اہمیت اتنی ہی کم نظر آتی ہے۔

 گلپاڑہ قصبہ کی تقریبا ًتمام دوکانیں دوسری اقوام کی ہیں ۔ مسلمانوں کی کوئی ایک بھی قابلِ ذکر دوکان نہیں۔ صبح کے وقت میں قصبہ کے اندر سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ دکاندار اپنی دکان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہندی اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جب کہ میووں کے لیے اخبار پڑھنا ابھی تک ایسا ہی ہے جیسے چاند پر سفر کرنا۔ اسی بے علمی کی وجہ سے میو تجارتوں میں داخل نہ ہو سکے اور زراعت (زمیندارہ ) جس میں ان کے تمام مرد و عورت اور چھوٹے بڑے لگے رہتے ہیں ، ان میں بھی وہ زیادہ ترقی نہ کر سکے ۔ تاہم پچھلے اسفار کے مقابلے میں اس بار مجھے کئی میو زمیندار کے یہاں ٹریکٹر اور ٹیوب ویل نظر آیا جو کہ پہلے نایاب تھا۔ میو ترقی کر رہے ہیں۔ مگر اس کی رفتار اتنی کم ہے کہ خورد بینی مشاہدہ کے ذریعہ ہی اس کودیکھا جا سکتا ہے ۔

پورے میوات میں سٹرک اور بجلی کی وجہ سے کام کی نئی صورتیں پیدا ہوئی ہیں۔ بہت سے مقامات جہاں پہلے ویرانہ تھا۔ لوگ ان کو بھوت کی جگہ سمجھتے تھے ، وہاں اب پُر رونق بازاربن گئے ہیں ۔ مگر ان میں میووں کا کوئی قابل مشاہدہ حصہ نہیں ۔

میوات کے دیہاتوں کا نقشہ اب بھی تقریباً وہی ہے جو  بیس سال پہلے تھا۔ اونچے نیچے مٹی کی دیواروں کے اوپر چھپر ہم ایک میو کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک طرف سرسوں کے ڈنٹھل سے کھانا پک رہا ہے ۔ دوسری طرف بیل بندھے ہوئے بول و براز کر رہے ہیں ۔ ایک کنارے دو عورتیں" مشین "چلا کر چارہ کاٹ رہی ہیں ۔ غرض رہائش سے لے کر گھر ہستی تک جتنے لوازم ہیں ، سب ایک غیر منصوبہ بند احاطہ کے اندر موجود تھے ۔ اور اس کا نام مکان تھا۔ آپ کو ایسے میو ملیں گے جن کے گھروں میں بجلی کے بلب لٹک رہے ہوں گے ۔ مگر بلب روشن ہو کر جب چاروں طرف کے ماحول کو دکھائے گا تو آپ سوچیں گے کہ وہ یہاں  شاید اس لیے روشن ہوا ہے کہ آپ کو بتائے کہ میو لوگ دور جدید کے عین وسط میں بھی دور قدیم کی زندگی گزار رہے ہیں۔

میوات میں آپ سنیں گے کہ فلاں مسلمان عورت کا نام "بسکر" ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی میو کے یہاں جب مسلسل کئی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں تو وہ اپنی آخری لڑکی کا نام بسکر رکھ دیتا ہے ۔ یعنی اے خدا ، اب بس کر، اور مزید لڑکی نہ پیدا کر ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لڑکی کا نام "بس کر" رکھ دیا تو اس کے بعد یہ سلسلہ بس ہو جائے گا اور پھر جو اولاد پیدا ہو گی وہ نرینہ اولاد ہوگی  ––––– یہ وہی ذہن ہے جس کے تحت مہذب قسم کے لوگ اپنی لڑکی کا نام بشریٰ رکھ دیتے ہیں۔

 قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ ایک شخص نے پوچھا : کون صاحب اذان دے رہے ہیں۔ جواب دینے والے نے کہا "پلٹو "۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں کثرت سے اس طرح کے عجیب و غریب نام ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ تسمیہ مجھے یہ بتائی گئی کہ میووں میں یہ رواج ہے کہ ایک لڑکا مر جائے، اس کے بعد ولادت ہو اور دوبارہ لڑکا پیدا ہو تو ایسے لڑکے کا نام پلٹایا پلٹو رکھ دیتے ہیں۔ یعنی بدلہ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا نے دوسرا لڑ کا بدلہ میں دیدیا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے عجیب عجیب نام سنائی دیے۔ مثلاً یہاں تین بھائی ہیں جن کے نام یہ ہیں : سکاری ، لنگاری، پیکاری ۔ وغیرہ ایک مقام پر ہماری بس میں میواتی عورتوں کا ایک جھنڈ سوار ہوا۔ بتانے والے نے بتایا کہ یہ لوگ " فاتحہ خوانی " میں شرکت کر کے آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میوات میں رسموں کا رواج بہت ہے، اور اب اس میں ایک مادی پہلو بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس نے پرانی رسموں میں نئی طاقت عطا کر دی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ مثلاً موت کے بعد فاتحہ کرنا۔ کچھ" دیوبندی" حضرات نے فاتحہ کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ میو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ۔ ہم خود ان رسوم کو پسند نہیں کرتے ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب ایک موت ہو جاتی ہے تو مہینوں تک رشتہ دار لوگ تعزیت کے لیے آتے رہتے ہیں اور مہمان داری اور خاطر تواضع کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ فاتحہ کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ ایک تاریخ کو سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور ایک ہی دن دے کر یا کھلا پلا کر چھٹی ہو جاتی ہے۔

 تعزیت اور پر سہ کی موجودہ رسم خود قابل ترک ہے ۔ مگر ایک قابل ترک کو ترک نہ کرنےکے لیے ایک اور قابل ترک کو اختیار کرنا پڑا۔

 میوات میں کافی ذہین لوگ پیدا ہوئے ہیں ، اگر چہ بے علمی کی وجہ سے ان کی ذہانت اپنے لیے کوئی بڑا استعمال نہ پاسکی ۔ اس کا اندازہ یہاں کی کہاوتوں اور اشعاروں سے ہوتا ہےجو کسی نے کہے تھے اور اب وہ عوام میں رائج ہیں۔ مثلاً کسی قدیم میوشاعر کا ایک شعر یہ ہے :

دھنمت کے کانٹو لگے سبھی لگاواں ہات       نردھن کے کانٹو لگے کوئی نہ پوچھے بات

یعنی دولت مند کو  کانٹا چبھ جائے تو ہر ایک اس کا حال پوچھتا ہے ، غریب آدمی کو کانٹا چبھ جائے تو کوئی اس کا حال دریافت نہیں کرتا۔ ایک صاحب نے یہ شعر بتاتے ہوئے کہا : آج یہ حال ہے کہ بڑا آدمی ہے تو اس کے کھلانے پلانے میں زبر دست اہتمام ہوگا، اور غریب آدمی کو صرف معمولی کھانا کھلایا جائے گا۔ لڑکی امیر کے گھر جا رہی ہے تو بہت زیادہ جہیز دیا جائے گا۔ اور اگر لڑکی غریب کے گھر جا رہی ہے تو معمولی جہیز دے کر رخصت کر دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ کسی مدرسہ میں شاندار عمارتیں کھڑی ہوئی ہیں تو اس کو خوب چندہ ملے گا ، اور کوئی مدرسہ چھپروں میں ہو تو اس کوکوئی چندہ دینے والا نہیں ۔ یہی حال زندگی کے تمام معاملات کا ہے ۔

میوات میں ایک مثل ہے کہ دو آدمیوں نے طے کیا کہ وہ مل کر گنا بو ئیں گے اور جب گناتیار ہو جائے گا تو اس کو توڑیں گے۔ اب ایک شخص نے کہا کہ "میں گنا توڑوں گا کڑاک سے "دوسرے شخص نے کہا : "میں بھی توڑوں گا کڑم کڑاک سے "۔ یہ سن کر پہلے شخص نے کہا کہ میں نے تو ایک گنا توڑا تھا ، تم نے دو تو ڑ لیے ۔ اس پر تکرار ہوئی، یہاں تک کہ دونوں آپس میں لڑ گئے۔

یہ مثل میووں کی کہانی بھی ہے اور عام مسلمانوں کی کہانی بھی ۔ اس وقت تمام مسلمانوں کا حال یہی ہے کہ کرنے کا کام تو کوئی نہیں کرتا ۔ البتہ کیا کام کرنا ہے ، اس پر خوب بحثیں ہو رہی ہیں ۔ گویا گنے کی فصل تو اگائی نہیں گئی ، اور گنے کی حصہ داری پر لڑائیاں جاری ہیں۔ بحث میں ہر آدمی آگے ہے ، مگر عمل میں ہر آدمی پیچھے۔

گلپاڑہ میں ایک میو حاجی مل خاں نام کے تھے ۔ 1978 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس سے پہلے ان سے میری ملاقات ہو چکی ہے ۔ وہ نہایت سنجیدہ اور نیک آدمی تھے ۔ موجودہ سفر میں ان کے صاحبزادے فیروز خان سے ملاقات ہوئی۔ اسی کے ساتھ حاجی صاحب مرحوم کے بھتیجے (ملھو) کے لڑکے فجر الدین عرف فجر و بھی ملے ۔ یہ لوگ اپنی سادگی ، خاموش طبعی اور دینی مزاج کے معاملہ میں حاجی مل خاں مرحوم کی تصویر ہیں ۔

گلپاڑہ سے رسول پور تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر اندر کی طرف ہے۔ یہاں سڑک نہیں۔ میں اندرونِ میوات کا نقشہ دیکھنے کے لیے یہاں جانا چاہتا تھا ۔ یہ فاصلہ ٹریکٹر کے ذریعہ سے کیا ۔ چونکہ اس موسم میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس لیے سارا راستہ گرد کی دلدل بنا ہوا تھا۔ ٹریکٹر کو فیروز خاں اور فخر الدین چلا رہے تھے۔ وہ ایک پر شور مشین کے خاموش ڈرائیور تھے ۔ یہ سفر اس طرح طے ہوا کہ کپڑے گرد میں اَٹ رہے تھے۔ گدّی کے بجائے لوہے پر نشست تھی اور مسلسل ہچکولے اس کے علاوہ تھے ۔

میرا خیال ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کار کی سواری کی ہےاس کو ٹریکٹر کی سواری بھی کرنا چاہیے ۔ اسی طرح ہر شخص جو ٹریکٹر پر بیٹھا ہے اس کو کار پر بیٹھنا چاہیے ۔ ان دونوں سفروں کا تقابل ایک عظیم دینی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اتنا موثر ہے کہ اس سے زیادہ موثر میرے علم میں کوئی دوسری چیز نہیں ۔

جس آدمی نے بھی دونوں چیزوں کی سواری کی ہے ، وہ جانتا ہے کہ ٹریکٹر کے ذریعہ اگر سفر کیا جائے تو منزل پر آدمی اس طرح پہونچتا ہے کہ وہ تھک چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آدمی جب ایک اچھی کار پر سفر کرتا ہے تو وہ اپنی منزل پر بالکل ترو تازہ اترتا ہے ۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ کار کے پہیوں کے ساتھ جھٹکے کو سہنے والا پرزہ (Shock absorber) لگا ہوا ہوتا ہے، جب کہ ٹریکٹر کے اندر ایسا پرزہ نہیں ہوتا۔ گویا ٹریکٹر وہ سواری ہے جو اپنے اوپر آنے والے جھٹکوں کو مسافرتک پہنچاتی رہتی ہے ، جب کہ کار وہ سواری ہے جو جھٹکوں کو خود اپنے آپ پر سہہ لیتی ہے ، وہ ان کو مسافر تک پہنچنے نہیں دیتی۔

لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے اکثر غصہ اور انتقام کے جذبات دل کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو کیا کرنا چاہیے۔ مومن کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اس قسم کے تمام نفسیاتی جھٹکوں کو خود اپنے اوپر سہے ، وہ ان کو دوسرے شخص تک نہ جانے دے ۔ وہ لوگوں کے درمیان کار کی طرح رہے نہ کہ ٹریکٹر کی طرح ۔

 رسول پور میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔ عبد الرشید عرف دھنو تالی اور عبد الرحیم عرف خر دل سیدھے سادے میواتیوں کا مکمل نمونہ نظر آئے ۔ کار اور ٹریکٹر کے مذکورہ فرق کو شاید وہ شعوری طور پر نہ جانتے ہوں ۔ مگر فطرت کے زور  پر عملاً وہ اسی قسم کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ حدیث کے الفاظ میں ، ان کے طریقِ زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچاؤاور اگر نفع نہ پہنچا سکو تو ان کو اپنے نقصان سے بچاؤ ۔

 دہلی جیسے شہر میں مشکل ہی سے کبھی آسمان اپنے قدرتی نیلے رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی کھلی فضا میں آسمان اپنے اصل نیلے رنگ میں دکھائی دیا۔ آسمان کا یہ رنگ جو مختلف طبیعی اسباب سے پیدا ہوتا ہے ، اتنا زیادہ جاذب ِنظر ہے کہ آسمان کے لیے اس سے زیادہ جاذب نظر رنگ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے آخری معیاری نمونہ پر ہے۔ خواہ ایک گھاس ہو یا ایک شیر یا اور کوئی چیز ۔ کسی بھی چیز کا کوئی دوسرا اس سے بہتر ماڈل تجویز نہیں کیا جا سکتا ۔ مخلوقات کا معیارِ کمال پر ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا خالق بھی آخری معیارِ کمال پر ہے ۔ کامل خالق کے بغیر کامل تخلیق کا وجود ممکن نہیں۔

نیلے آسمان کے نیچے ابھری ہوئی پہاڑیاں ، ہرے بھرے درخت ، آکسیجن سے بھری ہوئی خالص ہوا فطرت کے اس حسین ماحول میں انسان اپنے آپ کو خدا کے بالمقابل محسوس کرنے لگتا ہے آج کل شہروں کے لوگ اپنے فرصت کے اوقات کو سینما اور ٹیلی ویژن کے ماحول میں گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس انھیں اپنے فرصت کے اوقات کو شہر سے باہر فطرت کے ماحول میں گزارنا چاہیے۔" ٹیلی وژن" آدمی کو دوبارہ مصنوعاتِ انسانی کی اسی دنیا میں گم کر دیتا ہے جس میں وہ اس سے پہلے گم تھا۔ اس کے برعکس کھلے ہوئے جغرافیہ کا ماحول آدمی کو مصنوعاتِ خداوندی کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے، وہ دنیا جہاں انسان اور خدا آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ جہاں آدمی اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے ۔ جہاں آدمی اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے ۔ جہاں وہ ظواہر سے گزر کر حقیقت ِاعلیٰ کو پالیتا ہے ۔

19 اکتوبر 1987 کی صبح کو واپسی ہوئی۔ گلپاڑہ سے دوبارہ میں بذریعۂ بس روانہ ہوا۔ اور پہاڑی ، بیواں، فیروز پور ، نوح ، سوہنا ، گوڑ گاؤں ہوتے ہوئے 12 بجے دن میں دہلی واپس پہنچا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom