روزه

غالباً 1943  کی بات ہے ۔ گورکھ پور میں ایک بڑے مسلم افسر رہا کرتے تھے ۔رمضان کے مہینے میں کچھ روز کے لیے ان کے یہاں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے بنگلہ کے سامنے ایک علاحدہ بیٹھک بنی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ روزانہ صبح کو ایک "حافظ صاحب"  قرآن بغل میں لیے ہوئے آتے ہیں۔ کچھ دیر بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں، پھر واپس چلے جاتے ہیں ۔

 "یہ کون صاحب ہیں جو روزانہ صبح کو یہاں آتے ہیں"۔ کئی روز تک منظر دیکھنے کے بعدمیں نے صاحبِ خانہ سے پوچھا۔ میرا سوال سن کر پہلے وہ ہنسے ۔ اس کے بعد جواب دیا : "بات یہ ہے کہ میں روزہ نہیں رکھ پاتا ۔ اس لیے میں نے حافظ صاحب کو مقرر کر دیا ہے کہ وہ رمضان کے پورے مہینے میں میرے یہاں آکر قرآن پاک کی تلاوت کر دیا کریں۔ مہینہ کےختم پر ان کی کچھ خدمت کر دوں گا"۔

یہ ایک "بے روزہ دار" کا قصہ تھا۔ اب روزہ داروں کو دیکھئے۔ ایک بار میں نے اذان کی آواز آنے سے پہلے گھڑی دیکھ کر افطار کر لیا۔ کئی لوگ سنجیدگی سے اس شبہ میں پڑ گئے کہ میرا روزہ نہیں ہوا۔ آج کل کے روزہ داروں کا حال یہ ہے کہ وہ اس کا سخت اہتمام کریں گے کہ طلوعِ سحر سے کچھ منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دیں اور غروب آفتاب کے کچھ منٹ بعد افطار شروع کریں۔ اس کا نام انہوں نے "احتیاط "رکھا ہے۔ ایک طرف اوقاتِ روزہ میں احتیاط کا یہ عالم کہ سحری میں تعجیل اور افطار میں تاخیر کی حد تک اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ صریح طور پر سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے  گی جب تک وہ افطار میں تعجیل (جلدی )کرتی رہے گی۔ دوسری طرف مقاصد روزه میں بے احتیاطی کا یہ حال ہے کہ وہ اس کو ضروری نہیں سمجھتے کہ روزہ رکھ کر کسی کی برائی نہ کریں، کسی سے جھگڑا نہ کریں، منھ سے جھوٹ بات نہ نکالیں ۔ حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بات کرے تو اس کا روزہ، روزہ نہیں۔ اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ کوئی روزہ  دار کسی مسلمان کی غیبت کرے تو گویا اس نے خدا کی حلال کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور اس کی حرام کی ہوئی چیز سے افطار کر لیا۔

 یہ دونوں واقعات بظاہر ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ ایک جگہ روزہ داری ہے، دوسری جگہ بے روزہ داری ۔لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو دونوں کی شعوری سطح ایک نظر آئے گی۔ دونوں عبادت یا روزہ کوایک قسم کا رسمی عمل سمجھ رہے   ہیں  نہ کہ ایک ایساعمل جوانسان کی اندرونی گہرائیوں سے نکلتا ہے، جواس کے پورے وجود کانمائندہ ہوتا ہے۔

 عبادت کا ایک مطلب یہ ہے کہ و ہ ایک زندہ عمل ہو۔دوسرا یہ کہ وہ محض ایک رسم ہو۔زندہ عمل  آدمی کے پورے وجودسے نکلتا ہے۔ وہ اس کی مکمل  ہستی کا ایک اظہار ہوتا ہے۔ اسکے برعکس رسم کی حیثیت محض ایک بے روح خارجی عمل کی ہوتی ہے ۔ آدمی قلب و روح کو اس میں شامل کیے بغیر او پری طور پر اسے انجام دے دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر تنہائیوں میں اللہ کو یاد

 کر کے رونا ایک عبادت ہے جب کہ اپنے دنیوی دھندوں میں مشغول رہتے ہوئے تسبیح کے دانوں پر "اللہ اللہ "شمار کرنا محض ایک رسم  ––––  تنہائی میں مومن کی آنکھ سے جو آنسو نکلتے ہیں وہ اس کی پوری ہستی کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ جبکہ لفظ" اللہ " کو شمارکرنے والاصرف یہ کرتا ہے کہ پلاسٹک کے دانوں کو مقررہ تعداد میں دھاگے میں پرولیتا ہے اور اپنے مشاغل میں مصروف رہتے ہوئے محض انگلیوں کی حرکت کے اوپر اس کوگنتا رہتا ہے۔ زندہ عمل میں آدمی اور اس کے عمل کے درمیان گہرا نفسیاتی ربط ہوتا ہےجب کہ رسم میں دونوں کے درمیان اس قسم کا کوئی ربط نہیں ہوتا۔

موجودہ زمانے میں روزہ کی حیثیت ایک قسم کی سالانہ رسم کی ہوگئی ہے۔ لوگوں کی اصل زندگی بدستور اپنے ڈھرے پر چلتی رہتی ہے ۔ روزہ کا زمانہ آتا ہے تو وہ بس ہجری کیلنڈر کے نویں ماہ میں داخل ہوتا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں میں داخل نہیں ہوتا ۔ روزہ رکھ کرنہ لوگوں کے دل نرم پڑتے۔ نہ ان کے اندر عجز پیدا ہوتا ، نہ جائز اور نا جائز کے معاملہ میں ان کی قوت ِشامہ میں کوئی اضافہ ہوتا ۔ ان کے نزدیک روزہ کے معنی صرف یہ ہیں کہ ایک خاص وقت سے خاص وقت تک کھانا پینا بند رکھا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس طرح بھوکے رہنے سے خدا خوش ہو جائے گا ––––––  ایسی حالت میں ایک بے روزہ دار کیوں نہ سوچے کہ جب خدا کو خوش کرنے کے لیے کچھ رسم ہی ادا کرنی ہے تو جیسا روزہ کی رسم ویسا  تلاوت کی رسم  ––––  ایک رسم نہ کی ، دوسری رسم کرلی ۔ خدا جیسے اس رسم سے خوش ہوتا ہے، اسی طرح وہ دوسری رسم سے بھی خوش ہو جائے گا۔

اصل یہ ہے کہ روزہ محض ایک خارجی رسم نہیں ۔ بلکہ وہ ایک باطنی عمل ہے۔ وہ مومن کی نفسیاتی حالت کا ایک جسمانی اظہار ہے۔ مومن کا مطلب ہے ایک ایسا شخص جو دنیا کی زندگی میں برائیوں سے بچ کر رہے ۔ "جو کرنے اور نہ کرنے" کے بارے میں خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کی پابندی کرے۔ روزہ اسی قسم کی پابند زندگی کی مشق ہے۔ روزہ میں کھانا پینا چھڑانے کامطلب یہ ہے کہ آدمی کو روزمرہ زندگی میں "یہ کر و اور وہ  نہ کرو" کے ایک لازمی کورس سے گزار کر اس کو سبق دیا جائے کہ اسی طرح تم کو پوری زندگی گزارنی ہے ۔ اسی طرح ساری عمر کے لیے تم کو "روزہ دار "بن جانا ہے جب کہ تم خود اپنے ارادہ سے ایک طرح کی زندگی کو چھوڑ دو اور دوسری طرح کی زندگی کو بالقصد اختیار کر لو۔ روزہ کے مہینے کی پابند زندگی در اصل پورے سال اور ساری عمر کے لیے پابند زندگی کی ایک علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے سارے معاملات میں " روزہ داری" کے اسی طریقے پر عمل کرے جو اس نے رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کے معاملہ میں کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو حدیث کے الفاظ میں "اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ کوئی شخص محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے"۔

اگر روزه دار لوگ اپنے عمل سے حقیقی روزہ داری کا نمونہ پیش کریں تو غیر روزہ داروں کو ہمت ہی نہیں پڑے گی کہ وہ سوچیں کہ اپنے روزہ کی تلافی کے لیے کسی حافظ صاحب کی خدمات بالمعاوضہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کے بعد انھیں یہ عمل بالکل مضحکہ خیز دکھائی دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ روزہ کی یہ بے قدری روزہ داروں نے پیدا کی ہے نہ کہ بے روزہ داروں نے۔ بے روزہ دار تو اسی کو روزہ سمجھیں گے جس کا نمونہ روزہ دار دکھا رہے ہوں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom