بدتر از گناه
ٹائمس آف انڈیا (15 ستمبر 1987) میں راقم الحروف کا ایک مضمون چھپا تھا ۔ ایک بزرگ نے اس کو غلط شکل میں پیش کر کے مجھ کو بد نام کرنے کی کوشش کی ۔ ان صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں تنبیہ کی ۔ میں نے کہا کہ اگر بات کو غلط شکل میں پیش کر کے مطعون کرنا درست ہو تو اس طرح آپ کسی بھی شخص کو مطعون کر سکتے ہیں ، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ صحیح کیوں نہ ہو۔
میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے 1332ھ میں ایک فتویٰ مرتب کیا۔ اس میں چار
دیو بندی علماء (مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا اشرف علی تھانوی) کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ تکفیر کا یہ فتویٰ بظاہر اتنا قطعی تھا کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی جب حجاز گئے اور مکہ اور مدینہ کے عرب علماء کو اسے دکھایا تو حرمین کے علماء نے بھی اس کو صحیح سمجھ کر اس کی تصدیق کر دی ۔ اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے ہندستان واپس آکر اس کو "حسام الحرمین "کے نام سے شائع کر دیا ۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ فتویٰ صحیح نہ تھا۔ کیونکہ اس میں مذکورہ علماء دیوبند کی عبارتوں کو غلط شکل میں پیش کیا گیا تھا ۔
میری یہ بات سن کر مذکورہ بزرگ نے کہا کہ میں نے وہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تھی ۔ فلاں صاحب نے آپ کے خلاف ایک مراسلہ چھپوایا تھا ، اسی کو میں نے دہرا دیا۔ میں نے کہا کہ آپ کی اس تو جیہہ سے آپ کا جرم کم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ جو بات سنے اس کو بیان کرنے لگے ۔كفى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ(صحیح مسلم،حدیث نمبر 5)اگر آپ خود سے ایسی بات کہیں تو آپ مسخِ حقیقت(Distortion of facts) کے مجرم ہیں اور اگر آپ اخباری خط کو پڑھ کر بلا تحقیق اس کو دہرائیں تو حدیث کے مطابق کذب بیانی کے مجرم۔ غلطی کو چھپانے کے لیے جھوٹی توجیہہ کا سہارالینا عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہے۔