ایک آیت
سوره لقمان کے آخر میں ارشاد ہوا ہے : بے شک قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اور وہی بارش اتارتا ہے۔ اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہوتا ہے۔ اور کسی کو بھی علم نہیں کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا۔ اور کسی کو یہ علم نہیں کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔(31:34)
جو لوگ قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں اس کی وجہ زیادہ تر یہ ہوتی ہے کہ قیامت کی ساری تفصیلات انسان کے علم میں نہیں۔ مگر زندگی کی بہت سی حقیقتیں ہیں جن کے وقت اور ان کی نوعیت کا کسی کو علم نہیں۔ ہم اپنی بشری محدودیت کی وجہ سے ان کا احاطہ نہیں کر پاتے۔ پھر بھی کوئی شخص ان کا انکار نہیں کرتا۔ زندگی کے تمام معاملات اسی قسم کی" ناکافی "معلومات کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ پھر اسی قسم کی معلومات کو قیامت کے انکار کے لیے معقول وجہ مان لینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے۔
بارش آتی ہے اور آنے والی ہے ، مگر انسان کو قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب آئے گی آج بھی محکمہ ٔموسمیات اس معاملےمیں اتنا ہی عاجز ہے جتنا قدیم دور کا انسان اپنے کو عاجز محسوس کرتا تھا۔
عورت حاملہ ہوتی ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ جننے والی ہے ۔ مگر کیا جنے گی یہ کسی کو نہیں معلوم ۔ پیدا ہونے والا کتنی مدت تک دنیا میں رہے گا اور کب مر جائے گا۔ وہ کیا کمائے گا۔ وہ بُرا نکلے گا یا بھلا۔ وہ دوسروں کو کیا دے گا اور خود کیا حاصل کرے گا۔ اندر کا انسان باہر آکر کیا ثابت ہو گا ۔ یہ سب باتیں لا معلوم رہتی ہیں۔ پھر بھی انسان یقین رکھتا ہے کہ عورت کے پیٹ سے ایک جان ظاہر ہونے والی ہے ۔ وہ مذکورہ عدم ِواقفیت کو اس کے انکار کی وجہ نہیں بنالیتا۔
کسی آدمی کو یہ نہیں معلوم کہ وہ آئندہ کیا کچھ حاصل کرے گا۔ آدمی پروگرام بناتا ہے مگر اس کی تکمیل ہمیشہ غیر یقینی رہتی ہے۔ وہ بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ بالآخر کیا صورت اختیار کرے گا، اس کو کوئی نہیں جانتا ۔
موت ہر ایک کے لیے یقینی ہے۔ مگر کون شخص کہاں مرے گا اور کہاں اپنی کتابِ زندگی کا آخری صفحہ لکھے گا ، اس کے بارے میں کوئی بھی قطعی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔
کب، کیا، کتنا اور کہاں کے سوالات جن کو لوگ قیامت کے انکار کے لیے بنیاد بناتے ہیں، ٹھیک انہیں سوالات کی موجودگی میں دوسری باتوں کو مان لیتے ہیں اور ان کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نظام چلاتے ہیں ۔ پھر اسی قسم کی کمتر واقفیت کی بنا پر قیامت کے بارے میں کیوں شبہ کیا جانے لگے ۔
اور اللہ ہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے( ویعلم ما فی الأرحام) اس آیت کی تفسیر عام طور پر یہ مشہور ہو گئی ہے کہ یہ خدا ہی کے علم میں ہے کہ حاملہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یالڑکی۔ مگر آیت کے الفاظ میں اس تفسیر کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ آیت کے الفاظ بالکل عام ہیں۔" رحم کے اندر کیا ہے، یہ خداہی کو معلوم ہے" ۔ ان الفاظ میں ہر وہ بات آسکتی ہے جو پیدا ہونے والے کی زندگی اور مستقبل سے متعلق ہو۔ یہاں ایسا کوئی بھی قرینہ موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اس کو مذکر اور مؤنث کے ساتھ خاص کیا جائے ۔
جہاں تک قرآن کی قدیم تفسیروں کا تعلق ہے۔ اس سلسلہ میں عام طور پر دو باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک تفسیر کا حوالہ نقل کرتے ہیں ۔ (و يعلم مافي الارحام) ای من ذكر او انثى شقى او سعيد ۔ صفوة التفاسير، محمد على الصابونی
خدا ہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے ، یعنی مذکریا مؤنث ، برایا بھلا ۔
اس آیت میں مذکر اور مونث کا قصہ زیادہ تر عوامی ذوق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عوام کو چوں کہ اس سے بہت زیادہ دل چسپی ہوتی ہے کہ ان کے یہاں پیدا ہونےوالی اولا د لڑکا ہے یا لڑ کی، اس لیے یہ تفسیر مشہور ہوگئی۔ ورنہ خود قدیم تفاسیر میں شقی اور سعید کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ پیدا ہونے والا بڑا ہو کر بُرا نکلے گا یا بھلا ثابت ہو گا۔ "برا اور بھلا" کے الفاظ انتہائی عام اور وسیع ہیں ان میں انسان کی زندگی سے متعلق ہر بات موجود ہے۔ انسان زیادہ عمر کو پہنچ کر جو کچھ بنتا ہے وہ سب ان دو لفظوں میں شامل ہے ۔
مذکر اور مؤنث کے بارے میں پہلے بھی انسان انداز ے کرتا تھا اور موجودہ زمانے میں مزید اضافے کے ساتھ اس کا اندازہ کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ تاہم اصل بات بدستور انسان کے لیے لا معلوم ہےاور وہ یہ کہ مکمل معنوں میں پیدا ہونے والے کے بارے میں پیشین گوئی کی جائے کہ وہ کیسا عورت یا مرد ثابت ہو گا اور کیسا عورت یا مر د ثابت نہیں ہو گا ۔ رحم مادر کا یہ راز اب بھی انسان کے لیےلا معلوم ہے۔