جدو جہد کی تربیت
رمضان کے مہینہ کو حدیث میں صبر کا مہینہ (شھر الصبر ) کہا گیا ہے ۔ صبر و استقامت بلا شبہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی تمام فتوحات اور کامیابیوں کا راز ہے ۔ حقیقی روزہ صبر کی صفت پیدا کرتا ہے اور صبر ہی وہ چیز ہے جو تمام اعلیٰ کامیابیوں کا دروازہ ہے۔
روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے ۔ صوم کے اصل معنی ہیں رُکنا ۔ صائم کے معنی ہیں رکنے والا ۔ قدیم زمانے میں مشکل اوقات میں گھوڑا انسان کا سب سے بڑا سا تھی تھا۔ جنگ اور سخت قسم کے سفر میں وہ انسان کے کام آتا تھا۔ اس مقصد کے لیے تربیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ گھوڑے کو محدود مدت کے لیے بھوکا پیاسا رکھا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سختی کو برداشت کر سکے ۔ اس طرح کے تربیت یافتہ گھوڑے کو خیل صائم (روزہ دار گھوڑا) کہتے تھے۔ نابغہ نے میدان جنگ کی تصویر کشی میں گھوڑوں کے بارے میں کہا ہے کہ کچھ گھوڑے روزہ والےتھے اور کچھ گھوڑے بغیر روزہ والے :
خيل صيام وَخيلٌ غير صائمة
اس طرح انسانِ صائم سے مراد وہ انسان ہے جو کھانے پینے ، اور ازدواجی تعلقات سے وقتی طور پر رک جائے ۔ یہ رکنا اور پر ہیز کرنا آدمی کے اندر برداشت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ، وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ جب سختیاں پیش آئیں تو وہ ان کے مقابلے میں پوری طرح جم سکے ۔
رمضان کا مہینہ آدمی کے لیے اپنے نفس اور اپنی خواہشات سے لڑنے کا مہینہ ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جب کہ مومن شیطانی طاقتوں کو زیر کر کے ان کے اوپر قابو پاتا ہے اور دوبارہ خدا کی بندگی کا عزم لے کر نئے سال میں داخل ہوتا ہے ۔
تاریخ حیرت انگیز طور پر روزہ کی اس خصوصیت کی تصدیق کرتی ہے ۔ چنانچہ روحانی مقابلہ کا یہ مہینہ اسلام کی تاریخ میں فوجی مقابلہ کا مہینہ بھی رہا ہے ۔ اسلام اور غیر اسلام کے کئی بڑے بڑے معر کے اسی مہینہ میں پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ان میں سے چندمعرکوں کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے :
1۔غزوۂ بدر (رمضان 2ھ)
جب کہ رسول اور اصحاب رسول کو قریش کے اوپر فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔
2۔فتح مکہ (رمضان 8 ھ) جس نے پورے عرب پر اسلام کو غالب کر دیا ۔
3۔غزوہ ٔتبوک (رمضان 9 ھ) جس نے رومیوں کے اوپر اہلِ اسلام کی دھاک قائم کر دی۔غزوۂ تبوک رجب میں شروع ہو کر رمضان میں ختم ہوا ۔
4۔ فلسطین (رمضان 15 ھ) عمرو بن العاص نے فلسطین کو فتح کر کے بیت المقدس کواسلام کے حدود سلطنت میں شامل کیا ۔
5۔معرکۂ اسپین (رمضان 91 ھ) جب کہ طارق بن زیاد نے اسپین میں کامیاب پیش قدمی کی ۔
6۔سندھ (رمضان 96 ھ) محمد بن قاسم سندھ میں داخل ہوئے اور وہاں اسلام کو پھیلایا ۔
7۔دولت اندلس (رمضان 138 ھ) عبد الرحمن الداخل اندلس میں داخل ہوئے اور وہاں با قاعدہ دولت امویہ قائم کی ۔
8۔صقلیہ (رمضان 212 ھ) زیاد بن الاغلب نے جزیرہ ٔصقلیہ کو فتح کیا ۔
9۔حروب صلیبیہ (رمضان 584 ھ) حطین کی مشہور جنگ میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی طاقتوں پر فتح حاصل کی ۔
10۔معر کہ عین جالوت (رمضان 658 ھ) جس نے تاتاریوں کو شکست دے کر مسلم دنیا میں ان کی پیش قدمی کو روک دیا ۔
11۔معرکہ ٔسوئز (رمضان 1393 ھ ) جب کہ مصری فوجوں نے اسرائیلی فوجوں کو شکست دے کر نہر سوئز پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔
اس قسم کے تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ روزہ اور جدو جہد حیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ روزہ کی مشقت آدمی کو کمزور نہیں کرتی ۔ بلکہ وہ اُس کو اس قابل بناتی ہے کہ زندگی کےمعرکہ میں وہ زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ حصہ لے سکے۔