فکری طاقت
قرآن میں آئندہ آنے والے زمانے کے بارے میں جو خبریں دی گئی ہیں ان میں سے ایک پیشگی خبر وہ ہے جو سورہ نمبر 41 میں ان الفاظ میں آئی ہے :
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (حٰم السجدة :53)عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں اور انفس میں، یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ یہ حق ہے۔ کیا یہ تیرے رب کے لیے کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے ۔
اس آیت کے مطابق ، نزول قرآن کے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ فطرت کی نشانیوں کا ظہور ہی تبیین حق کے لیے کافی ہو جائے ۔ جب کہ کائنات اور انسان کے بارے میں علمی انکشافات ہی ان حقائق کو ثابت شدہ بنا دیں جن کی خبر قرآن اور صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ اہل ِعالم کو دی گئی ہے ۔
یہی بات حدیث میں ایک اور انداز سے آئی ہے ۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی ایک روایت نقل کرتے ہیں : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: « سَمِعْتُمْ بِمَدِينَةٍ جَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَرِّ وَجَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَحْرِ. قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَغْزُوهَا سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ بَنِي إِسْحَاقَ، فَإِذَا جَاؤُوهَا نَزَلُوا فَلَمْ يُقَاتِلُوا بِسِلَاحٍ، وَلَمْ يَرْمُوا بِسَهْمٍ،
قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، فَيَسْقُطُ أَحَدُ جَانِبَيْهَا. قَالَ ثَوْرٌ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: الَّذِي فِي الْبَحْرِ. ثُمَّ يَقُولُوا الثَّانِيَةَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، فَيَسْقُطُ جَانِبُهَا الْآخَرُ، ثُمَّ يَقُولُوا الثَّالِثَةَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، فَيُفَرَّجُ لَهُمْ فَيَدْخُلُوهَا فَيَغْنَمُوا، فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْمَغَانِمَ إِذْ جَاءَهُمُ الصَّرِيخُ فَقَالَ: إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَرَجَ، فَيَتْرُكُونَ كُلَّ شَيْءٍ وَيَرْجِعُونَ . (صحیح مسلم ،حدیث نمبر2920)
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا۔ کیا تم نے ایک شہر کے بارے میں سنا ہےجس کا ایک رخ خشکی کی طرف ہے اور اس کا دوسرا رخ سمندر کی طرف ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے خدا کے رسول ۔ آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک بنو اسحاق کے ستر ہزار افراد اس سے جنگ نہ کریں ۔ جب وہ لوگ اس شہر تک آئیں گے تو وہ وہاں اتریں گے ۔ وہ کسی ہتھیار سے نہ لڑیں گے اور نہ کوئی تیر ماریں گے۔ وہ کہیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ پس اس کے دور خوں میں سے ایک رخ گر جائے گا ۔ ثور بن زید (راوی حدیث )نے کہا کہ میں اس کے سوا نہیں جانتا کہ آپ نے فرمایا کہ وہ جو سمندر کی جانب ہے۔ پھر وہ لوگ دوبارہ کہیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ، پس اس کا دوسرا رخ گر جائے گا۔ پھر وہ لوگ تیسری بار کہیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ، پس وہ ان کے لیے کھل جائے گا وہ اس میں داخل ہو جائیں گے اور غنیمت حاصل کریں گے۔ پس جب وہ غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے ، اسی اثناء میں پکار سنائی دے گی––––– کہنے والا کہے گا کہ دجال نکل آیا۔ پس وہ ہر چیز چھوڑ دیں گے اور لوٹ آئیں گے ۔
اس روایت کی ذیلی تفصیلات سے ہٹ کر اس کے اصل مدعا کو دیکھئے تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئندہ ایسا زمانہ آئے گا جب لا الٰہ الا للہ اللہ اکبر کہہ دینے سے فتح حاصل ہو گی۔ بالفاظ دیگر، ہتھیار کو استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہو گی ۔ بلکہ اسلام کی فکری اور نظریاتی طاقت ہی قوموں کو مسخر کرنے کے لیے کافی ہو جائے گی ۔
مذکورہ حدیث میں آخری زمانہ کے ایک واقعہ کا ذکر ہے جس کے لیے حدیث میں "غزوہ "کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کی تشریح فرمائی تو کہا کہ وہ نہ کسی ہتھیار سے لڑیں گے اور نہ کوئی تیر چلائیں گے ۔ وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کہیں گے اور ان کے لیے فتح کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ "غزوہ " کا مطلب لازمی طور پر جنگ وقتال نہیں ہے ۔ فکری اور نظریاتی مہم بھی اسلام کے نزدیک غزوہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی پیشنگوئی کے مطابق ، دور آخر میں غزوہ کی یہی قسم مسلمانوں کے لیے غلبہ اور کامیابی کا سب سےبڑا ذریعہ ہوگی۔