عبرت ناک
مریم جمیلہ ایک امریکی نومسلمہ ہیں، وہ آج کل پاکستان میں رہتی ہیں۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں انگریزی میں کئی کتا بیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام یہ ہے :
Islam in Theory and Practice
اس کتاب کا اردو ترجمہ " اسلام ایک نظریہ ، ایک تحریک " کے نام سے پاکستان سے شائع ہوا ہے اس کتاب کا ایک باب " اسلام اور صفائی پسندی "کے بارے میں ہے ۔ اس باب کے آغاز میں وہ لکھتی ہیں :
"آج مسلمان ممالک میں بے حد گندگی اور غلاظت پائی جاتی ہے۔ باہر سے آنے والے لوگ مسلمانوں سے جو نفرت کرتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ گندگی اور غلاظت بھی ہے ۔ یہ چیز مسلمانوں کی ساری شہرت اور ساکھ پر پانی پھیر دیتی ہے ۔ کسی بھی یوروپی سیاح سے پوچھیے۔ دنیائےاسلام کے ملکوں اور عوام کے متعلق اس کا کیا خیال ہے ؟ آپ کو ہمیشہ ایک جواب ملے گا وہ "کتنے غلیظ ہیں ! " افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ نکتہ چینی بسا اوقات اس قدر صحیح ہوتی ہے کہ خود یورپی نژاد نو مسلم محض اسی وجہ سے ارتداد کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میری ایک بہت اچھی دوست ایک جرمن نو مسلم –––– بیگم فاطمہ ہیرن سر کا ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر ان دنوں ایک مسلمان ملک میں اسلامی زندگی بسر کرنے کی انتہائی کوشش کر رہےتھے ۔ 11 اگست 1964 کو بیگم فاطمہ نے مجھے ایک خط میں لکھا :
"میرے شوہر اس ملک میں پھیلی ہوئی گندگی سے بے حد متنفر ہو چکے ہیں۔ ان کے دفتر کی دیواریں خصوصا ًسیڑھیاں پان کی پیک سے لال سیاہ ہو رہی ہیں۔ لوگ اپنی پتلون کے بٹن باتھ روم میں نہیں، اپنے میز کی طرف واپس آتے ہوئے لگاتے ہیں۔ جس ٹونٹی پر میرے شوہر نماز کے لیے وضو کرتے ہیں دوسرے لوگ وہاں اپنے مصنوعی دانت صاف کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور پان کی سرخی سے ارد گرد کی ہر چیز کو لال کر دیتے ہیں۔ اسی دوران میں نو کر جا کر پینے کا پانی بھرتے رہتے ہیں۔ جمعہ کے روز نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر مسجد میں آنےکے بجائے گندے اور بد بو دار کپڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں جس قسم کےحالات ہیں ان کے پیش نظر میرے شوہر کی رائے یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کی سلامتی مطلوب ہے تو جلد سے جلد مسلمانوں سے الگ ہو جانا چاہیے ۔ جرمنی میں وہ اپنی تبلیغی جد و جہد کے لیےکہیں زیادہ مفید ثابت ہو سکیں گے"۔
"انھوں نے پاکستان کے مسلمان معاشرہ میں بود و باش اختیار کرنے کی سر توڑ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور اگلے سال دونوں میاں بیوی اپنی آبائی سرزمین کو لوٹ گئے ۔ کس قدر اند و ہناک بات ہے ۔ آج کے مسلمان ممالک اپنی گندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں بد نام ہیں حالانکہ اسلام سے زیادہ کوئی دوسرا مذہب جسم اور ماحول کے پاک صاف ہونے کی ضرورت واہمیت پر زور نہیں دیتا " (صفحہ 84 – 83 )
پاکستان اور دوسرے مسلم ملکوں میں تقریبا ً نصف صدی سے "اسلامی نظام قائم کرو"کا غلغلہ مچا ہوا ہے ۔ اس کے باوجود یہ حال ہے کہ آج ایک نو مسلم اپنے اسلام کو بچانے کے لیے" اسلام پسندوں" کے ملک کو چھوڑ کر" کفر پسندوں " کے ملک میں پناہ لے رہا ہے ۔
اس صورت حال کی ذمہ داری تمام تر ان نام نہاد اسلامی قائدین پر ہے جنھوں نے دین میں"لازم "کو "متعدی" کرنے کا مجرمانہ فعل انجام دیا۔ قرآن میں اقیموا الدین کا حکم اس معنی میں تھا کہ ہر مسلمان دین پر قائم ہو جائے۔ مگر جھوٹی تعبیرات کے ذریعہ اس کا مفہوم یہ بنا دیا گیا کہ حکمرانوں کے اوپر دین کو قائم کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی دوسروں کے خلاف دین کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے ، خود اپنی زندگی میں اس کو دین پر کاربند ہونے کی کوئی فکر نہیں ۔
اسی طرح تمام اسلامی احکام کو فعل لازم سے فعل متعدی کر دیا گیا ہے ۔ اس معنوی تحریف کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ حکمرانوں کے اوپر دین کو نافذ کرنے کے لیے تو قتال اور مسلح اقدام تک جانے کی تقریریں کر رہے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں معمولی اخلاقی آداب کا اہتمام کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔