40 منٹ کی آزادی
ٹائمس آف انڈیا (سکشن 2 صفحہ 8) کے شمارہ 16 فروری 1988 میں ایک خبر چھپی ہے۔ اس کا عنوان ہے ––––– 40 منٹ کی آزادی ختم ہوتی ہے :
40 minutes of freedom ends
اس خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ مغربی جرمنی میں جیل کے اصلاحی قوانین کے تحت اس طریقہ کا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ ہفتہ میں ایک دن جیل کے بعض قیدیوں کو چھٹی دی جائے اور انھیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ جیل کی بند فضا سے نکل کر باہر کی آزاد فضا میں گھوم سکیں ۔
14 فروری 1988 کا واقعہ ہے۔ مغربی جرمنی کے شہر لنگن (Lingen) میں دو قیدی اس نئے نظام کے تحت وقتی طور پر رہا کر دیے گئے تاکہ وہ جیل سے باہر جا کر" چھٹی "منا سکیں۔ مگر جلدی ان کی آزادی ختم ہو گئی ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جیل سے نکلتے ہی ایک ہوٹل میں گھس گئے جو جیل خانے سے صرف 200 میٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔ وہاں انھوں نے گڑ بڑشروع کر دی۔ ہوٹل کے آدمی نے فوراً پولیس کو ٹیلی فون کیا۔ پولیس کی گاڑی آئی اور دونوں مجرمین کو پکڑ کر واپس لے گئی۔ آزادی کےصرف چالیس منٹ بعد دونوں دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند تھے :
Two convicts allowed out of prison on weekend leave found themselves back behind bars after just 40 minutes of freedom.
"40 منٹ آزادی " کا یہ معاملہ جو جرمنی کے دو آدمیوں کے ساتھ پیش آیا ، یہی تمام انسانوں کا معاملہ ہے ۔ ہر شخص جو اس دنیا میں چل پھر رہا ہے ، وہ صرف 40 منٹ کے لیے چل پھر رہا ہے ۔ ہر ایک کو صرف ایک محدود مدت تک کے لیے موقع دیا گیا ہے ، اس کے بعد اسےپکڑ لیا جائے گا۔ جرمنی کے مذکورہ دو آدمیوں کو جرمنی کی پولیس نے پکڑا۔ اسی طرح تمام انسانوں کے اوپر خدا کی پولیس لگی ہوئی ہے اور اس بات کی منتظر ہے کہ کب " 40 منٹ " کی مدت پوری ہو اور وہ لوگوں کو عین حالت ِجرم میں پکڑلے ۔
آدمی اگر اس حقیقت کو جان ہے تو اس کی پوری زندگی بدل جائے۔