ایمانی برکتیں
دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ جامد اور نمو پذیر ، جامد وہ ہے جو یکساں طور پر اپنی حالت پر باقی رہے۔ نمو پذیر وہ ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہے۔ پتھر پہلی چیز کی مثال ہے اور درخت دوسری چیز کی مثال ۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں۔ وہ درخت کی طرح اضافہ پذیر چیز ہے۔ وہ برابر بڑھتا رہتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ درخت اپنے مادی وجود کے اعتبار سے بڑھتا ہے اور مومن کا ایمان اپنے شعوری وجود کے اعتبار سے ۔ درخت کا بڑھنا یہ ہے کہ اس کی لکڑی اور پتی بڑھے ۔ ایمان کا بڑھنا یہ ہے کہ اس کی معرفت بڑھے ۔ اس کا یقین بڑھے ۔ اس کا اعتماد علی اللہ بڑھے ۔ اس کی ربانی گہرائیوں میں اضافہ ہو ۔
اس اضافۂ ایمان کے دو خاص راستے ہیں۔ ایک فکر اور دوسرا صبر۔ آدمی جب اللہ کو یادکرتا ہے ۔ جب وہ اللہ کی کاریگری میں غور کرتا ہے تو اس کا شعورِ ایمان بڑھتا ہے وہ معرفت کے نئے نئے پہلوؤں کا تجربہ کرتا ہے۔ اسی طرح موجودہ امتحان کی دنیا میں جب وہ مختلف قسم کے ناموافق حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ اور ان حالات میں وہ اپنے ایمانی تقاضوں پر قائم رہتا ہے تو اس کے ذریعہ سے وہ اپنی ایمانی قوت کو بڑھاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو پختہ سے پختہ تر کرتا چلا جاتا ہے۔
فکر کی راہ سے اضافہ
آدمی کے ایمان میں فکر کی راہ سے جو اضافہ ہوتا ہے ، اس کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ کی ایک آیت یہ ہے :
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْن۔ (التوبہ : 124) اور جب کوئی سورہ اترتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سورہ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ۔ پس جو ایمان والے ہیں ان کا ایمان اس نے بڑھا دیا اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔
قرآن میں خالق کا تعارف ہوتا ہے۔ انسان کے اندر چھپے ہوئے بندگی کے احساسات کو ابھارا جاتا ہے ۔ یہ چیزیں آدمی کے ذہن کو جگاتی ہیں ۔ وہ اس کے لاشعور کو شعور کی سطح پر لے آتی ہیں۔ وہ اس کے اندر خالق و مخلوق کے تعلق کو زیادہ اجاگر کرتی ہیں ۔ اس طرح قرآن کو سن کر اور پڑھ کر آدمی کا شعور ایمان بڑھتا ہے اور برابر بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جاملے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اپنے اصحاب میں سے ایک یا دو آدمی کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ آؤ ہم اپنے ایمان میں اضافہ کریں ۔كَانَ عُمَرُ يَأْخُذُ بِيَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ فَيَقُولُ: تَعَالَوْا حَتَّى نَزْدَادَ إِيمَانًا ،( مظہری :رابع 326)حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا ایک واقعہ امام بیہقی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ قَالَ لِصَاحِبٍ لَهُ: تَعَالَ حَتَّى نؤمن سَاعَة، قَالَ: أَو لسنا بِمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: بَلَى وَلَكِنَّا نَذْكُرُ اللَّهَ فَنَزْدَادُ إِيمَانًا (شعب الإيمان للبیہقی،حدیث نمبر 50)
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن رواحہ نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ ہم ایک گھڑی کے لیے ایمان
لائیں۔ ساتھی نے کہا، کیا ہم مومن نہیں ہیں ۔عبد الله بن رواحہ نے کہا کہ ہاں ۔ مگر ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہم ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ آؤ ہم بیٹھ کراللہ کی بڑائی بیان کریں ۔ ہم اللہ کے کمالات کو یاد کریں ۔ ہم اللہ کے آلاء( کرشموں) کا اجتماعی تذکرہ کریں ۔ اس سے اللہ کے بارے میں ہمارا احساس تازہ ہوگا۔ اللہ کے بارے میں ہمارا یقین بڑھے گا۔ اللہ کے بارے میں ہماری معرفت مزید ترقی کرے گی۔
صحابہ کرام میں یہ مزاج قرآن کے مطالعہ سے بنا تھا جو اپنے پڑھنے والے کو بار بار اکساتا ہے کہ وہ ذکر و فکر کے ذریعہ اپنے ایمان کو بڑھائے ۔ وہ اپنے ایمان کو مسلسل ترقی دیتا ر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آپ اہل ایمان کا تزکیہ کرتے ہیں ۔و یز کّیھم ( البقرہ: 129 ) اس تزکیہ کا خاص پہلو یہی ہے ۔ ابن جریر نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے :
قَالَ أَبُو ذَرٍّ: وَلَقَدْ تَرَكَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَا يُقَلِّبُ طائر جناحيه في السماء، إلا ذكر لنا مِنْهُ عِلْمًا ،( تفسیر ابن کثیر، جزء 2 صفحہ 131)
حضرت ابو ذر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو چھوڑا اور حال یہ تھا کہ ایک چڑیا بھی آسمان میں اپنا پر نہیں پھڑ پھڑاتی تھی مگر آپ اس سے ہم کوایک علم کی یاد دلاتے تھے ۔
ذکر و فکر سے کس طرح ایمان بڑھتا ہے ، اس کی ایک تازہ مثال لیجئے ۔
جدید معلومات کے مطابق ہماری دنیا نا قابل قیاس حد تک بڑی دنیا ہے ۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کائنات اتنی زیادہ بڑی ہے کہ ایک ہوائی جہا ز اگر روشنی کی رفتا ر سے روانہ ہو۔ یعنی اس کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہو تو اس نا قابل قیاس حد تک تیز رفتار جہاز کو کائنات کے گرد ایک چکر لگانے میں ایک ارب سال سے زیادہ لگ جائیں گے ۔ بشرطیکہ وہ جہاز اور اس کے مسافر اتنی لمبی مدت تک باقی بھی رہیں ۔
اس عظیم کائنات میں بے شمار ستارے ہیں ۔ دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرے ہیں اس سے بھی زیادہ آسمان میں ستاروں کی تعداد ہے ۔ یہ ستارے بے حد بڑے ہیں ۔ اتنے بڑے کہ ہماری زمین جیسی کروروں زمینیں کسی ایک ستارہ پر رکھ دی جائیں تب بھی اس کے اوپر جگہ باقی رہے گی ۔ صرف ہماری کہکشاںمیں 100000 ملین ستارے پائے جاتے ہیں ۔
یہ تمام کے تمام ستارے آگ کے دہکتے ہوئے اتھاہ سمندر ہیں۔ ان میں انسانی آبادی کسی طرح ممکن نہیں۔ اس عظیم
کا ئنا ت میں ایک ہی معلوم شمسی نظام ہے اور اس میں ہماری زمین جیسی ایک ہی زمین ہے۔ ساری کائنات میں کوئی بھی دوسرا معلوم کرہ نہیں جس میں پانی ہو، جس میں سبزہ ہو جس میں زندگی پائی جاتی ہو۔ جہاں وہ تمام چیزیں اور وہ تمام متوازن اسباب موجود ہوں جن سے تمدن کی تعمیر کی جاتی ہے۔
اس طرح کی ان گنت معلومات ہیں جو موجودہ زمانے میں ہماری دنیا کے بارےمیں حاصل ہوئی ہیں۔ اگر آدمی ان معلومات کو سامنے رکھ کر غور کر ے تو خالق کی عظمت کے احساس سے اس کا دل دہل اٹھے گا۔ نیز یہی مطالعہ اس کو بتائے گا کہ کائنات کے خالق نے انتہائی استثنائی طور پر اس کے لیے یہاں زندگی اور ترقی کا سامان کیا ہے ۔ اس احساس سے اس کے سینے میں شکر کا سمندر موجزن ہو جائےگا۔ یہ چیزیں اس کی معرفت ِحق میں بے پناہ اضافہ کر دیں گی ۔
جس زمانے میں میں اپنی کتاب "مذہب اور جدید چیلنج " کے سلسلے میں فلکیات اور ارضیات کا مطالعہ کر رہا تھا ، مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے کہ میں کارخانۂ کائنات میں خدا کو بالکل عیا ناً دیکھ رہا ہوں ۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے ، اعظم گڑھ کے ایک صاحب (شاہ نصیر احمد مرحوم ) نے مجھ سے پوچھا: کیا انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے ۔ معاً میری زبان سے نکلا "کیا آپ نے ابھی تک خدا کو نہیں دیکھا"۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر واقعی معنوں میں ذکر و فکر کرے تو وہ خدا کو دیکھنے لگے ۔ اس کا ایمان غیب سے آگے بڑھ کر شہود تک پہنچ جائے ۔
صبر کی راہ سے اضافہ
ایمان میں اضافے کا دوسرا ذریعہ وہ ہے جس کو صبر کہا جاتا ہے ۔ صبر کا مطلب ہے جمنا ۔ آدمی کے سامنے جب ایسی صورت حال آئے کہ دین پر قائم رہنے کے لیے اسے قربانی دینی ہو، اسے اپنے جذبات کو کچلنا پڑے ، خدا کا خوف اسے مجبور کر دے کہ وہ اپنی سوچ کو موڑ کر خدائی سوچ کے تابع کرے اس قسم کا ہر عمل صبر ہے اور جب آدمی اس قسم کا عمل کرتا ہے تو وہ خدا کے حق میں اپنی قوت ارادی کوبڑھاتا ہے ، وہ خدا کے تعلق کا نیا تجربہ کرتا ہے ۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اسی قسم کی ایک مثال صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے ۔ صلح حدیبیہ تمام تر دشمن کی یک طرفہ شرائط پر کی گئی تھی۔ چنانچہ صحابہ کرام اس پر سخت برہم تھے، ان کا دل و دماغ کسی طرح تیار نہ تھا کہ اس قسم کی ذلت آمیز صلح پر راضی ہو جائیں۔ مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس وقت اللہ کی مرضی یہی ہے تو سب نے جذبات کے طوفان کے باوجود اپنے آپ کو اس کے آگے جھکا دیا ۔ انھوں نے اپنے دماغ کا سانچہ خود اپنے ہاتھوں سے توڑ دیا۔ اس کا فوری فائدہ انھیں یہ ملا کہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو گیا۔ قرآن میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے۔ارشاد ہے :
هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ (الفتح : 4)وہ اللہ ہی ہے جس نے مومنین کے دل پر اطمینان اتارا تا کہ ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے ۔
حدیبیہ کے موقع پر دشمن نے صلح کی ایک طرفہ شرطیں پیش کیں تھیں ۔ صحابہ جب اللہ کی خاطران یک طرفہ شرطوں پر راضی ہوئے تو انھوں نے ایک نئے ایمان کا تجربہ کیا۔ پہلے اگر انھوں نے اللہ کو بطور ایک خارجی واقعہ کے مانا تھا تو اب انھوں نے اللہ کو اپنی نفی کی قیمت پر مانا۔ اس واقعے کے ذریعے انھوں نے اس ایمان کا تجربہ کیا کہ اپنی بڑائی ختم ہو تب بھی وہ خدا کے حکم کو مانیں۔ اپنی خواہشات پامال ہوں تب بھی وہ خدا کے طریقہ کو نہ چھوڑیں۔ اپنا ذہنی سانچہ ٹوٹے تب بھی وہ اپنی رائے کو خدا کی رائےکے تابع کریں۔ یہ ہے ایمان پر ایمان کا اضافہ ۔
ایک حدیث
اضافۂ ایمان کے اس معاملے کو ایک حدیث قدسی میں تمثیل کے انداز میں واضح کیا گیا ہےاس کے الفاظ یہ ہیں :
إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ، فصبر وفَلَمْ يَشْكُنِي إِلَى عُوَّادِهِ أَطْلَقْتُهُ مِنْ أَسَارِي، ثُمَّ أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ، وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ، ثُمَّ يُسْتَأْنَفُ الْعَمَلَ ( رواه الحاكم في المستدرك ،1/ 349 ) اللہ تعالٰی نے فرمایا ، جب میں اپنے مومن بندے کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہوں پھر وہ صبر کرتا ہے ، وه حال پوچھنے والوں سے شکایت نہیں کرتا تو میں اس کو اپنی قید سے آزاد کر دیتا ہوں ۔ پھر میں اس کے گوشت کو زیادہ بہتر گوشت سے بدل دیتاہوں اور اس کے خون کو زیادہ بہتر خون سے بدل دیتا ہوں ۔ پھر وہ از سر نو عمل کرنے لگتاہے۔
تکلیف پر صبر کرنا یہ ہے کہ آدمی تکلیف کے حالات میں بھی حق پر قائم رہے۔ جب آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ اس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ جو حق اس نے پایا ہے وہ ہر دوسری چیز سے زیادہ بڑا ہے ۔ ہر دوسری چیز کو کھونا قابل برداشت ہے ، مگر حق کو کھونا اس کے لیے قابل برداشت نہیں۔
اس تجربے سے پہلے حق اگر اس کی نگاہ میں بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز تھا تو اب حق اس کے لیے تمام چیزوں سے زیادہ بڑا اور قیمتی بن جاتا ہے ۔ ایسی آزمائش کے موقعے پر جو شخص صبر کا ثبوت دے اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھر آتی ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنے اندر ایک نئے انسان کا تجربہ کرتا ہے اس کا خون اب نیا خون اور اس کا گوشت اب نیا گوشت بن جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں اس کے کردار میں نئی جان آجاتی ہے۔ اس کا عمل ایک نئے انسان کا عمل بن جاتا ہے ۔
1۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ایک پیغمبر تھے۔ ان کے یہاں پہلی بیوی سے دو اولاد ہوئی۔ ایک یوسف ، دوسرے بن یمین۔ یہ دونوں بھائی ابھی چھوٹے تھے کہ ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت یعقوب نے دوسرا نکاح کیا جس سے دس لڑکے پیدا ہوئے۔ سوتیلے بھائیوں کو شکایت ہوئی کہ ان کے والد یوسف کو زیادہ مانتے ہیں ۔ چنانچہ وہ حضرت یوسف کے دشمن ہو گئے۔ حضرت یوسف کی عمر تقریباً 16 سال تھی کہ ان کے سوتیلے بھائی ان کو ایک سنسان مقام پر لے گئے اور وہاں ان کو ایک اندھے کنوئیں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد انھوں نے آپ کے ایک کپڑے کو جانور کےخون میں رنگا اور اس کو اپنے والد کو دکھا کر کہہ دیا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ۔
حضرت یعقوب اپنے بیٹوں میں سے حضرت یوسف کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ اس لیےقدرتی طور پر ان کو اس کا بے حد صدمہ ہوا ۔ حتیٰ کہ غم سے ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں۔ مگر اس دردناک حادثےپر انھوں نے کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ قرآن کے مطابق انھوں نے اس پر صبر کر لیا اور زبان سے صرف یہ کہا : قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۔ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتا ہوں ۔(یوسف :86)
حضرت یعقوب پر جو غم پڑا تھا وہ بظاہر انسا نوں کی طرف سے آیا تھا مگر اس کے بارے میں وہ جوکچھ کہنا چاہتے تھے اس کو انھوں نے خدا سے کہنا شروع کر دیا۔ اپنی توجہ کو انہوں نے انسانوں سےہٹا کر خدا کی طرف کر لیا۔ اس طرح انھوں نے اس اعلی حقیقت کا تجربہ کیا کہ واقعات خواه بظاہر انسانوں کی طرف سے پیش آئے ہوں مگر حقیقتا ً وہ خدا کی اجازت کے تحت ہوتے ہیں، اور وہی تنہا یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آدمی کے کھونے کی تلافی کر سکے۔
2۔ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں ابتداءً مسلمانوں کو فتح ہوئی تھی۔مگر بعد کو ایک غلطی کی وجہ سے فتح شکست میں تبدیل ہو گئی اور مسلمانوں کو زبر دست جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے:
فَاَثَابَكُمْ غَمًّـۢا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (آل عمران :153)
پھر اللہ نے تم کو رنج پر رنج دیا تا کہ جو کچھ تم سے کھویا جائے یا جو مصیبت تم پر پڑے اس پرتم غم گین نہ ہو ۔
احد کی جنگ میں شکست رسول کی موجودگی میں ہوئی تھی۔ وہ براہ راست اللہ کے علم میں تھی۔ مگر اللہ نے اس کو ہونے دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے شعورِ ایمان میں اضافہ ہو ۔ ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو کہ وہ کھونے کو برداشت کر سکیں ۔ وہ ایک چیز کو کھو کر جانیں کہ دوسری اس سے زیادہ بڑی چیز اب بھی ان کے پاس موجود ہے اور وہ ان کا عقیدہ ہے ۔
ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کو کھونے کے بعد بھی خدا کو نہ کھوئے ۔ نقصان اس کے لیے اس تجربہ کا ذریعہ بن جائے کہ فانی چیزوں کے درمیان ایک ایسی چیز بھی موجود ہے جو کبھی فنا نہ ہو جو کبھی آدمی سے کھوئی نہ جائے۔ دنیا کے کھونے کو برداشت کر کے اپنے اندر اس قسم کا احساس زندہ کرنا گویا ایک قسم کا ذہنی سفر کرنا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو مزید آگے کی طرف لے جانا ہے ۔ جو شخص اس غیر فانی سرمایہ کو پالے وہ محرومیوں کی اس دنیا میں کبھی احساس محرومی سے دوچار نہ ہوگا۔
3۔غزوہ ٔبنی المصطلق ( 6 ھ) کے بعد مدینہ کے کچھ شر پسندوں نے ایک معمولی واقعہ کو شوشہ بنایا اور اس کو غلط رخ دے کر حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ جھوٹا الزام لگایا۔ حضرت عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ اور حضرت ابوبکر کی صاحبزادی تھیں ۔ قدرتی طور پر حضرت ابو بکر کو اس کا بے حد رنج ہوا۔ کسی باپ کے لیے اس سے زیادہ تکلیف کی بات اور کوئی نہیں کہ اس کی پاکبازلڑکی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگایا جائے ۔
اس جھوٹی مہم میں مدینہ کے ایک سادہ لوح مسلمان بھی شریک ہو گئے تھے جن کا نام مسطح بن اثاثہ تھا۔ یہ حضرت ابوبکر کے ایک غریب رشتہ دار تھے اور حضرت ابو بکر ان کی ماہا نہ امداد کیا کرتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے شدت احساس کے سخت قسم کھائی کہ اب میں مسطح کی کوئی مددنہیں کروں گا ۔ اس پر قرآن میں یہ آیت اتری :
وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (النور :22) تم میں سے جو لوگ فضل اور وسعت والے ہیں وہ اس کی قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ دار اور مسکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہ کریں گے ۔ چاہیے کہ وہ انھیں معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کر دے ۔ اور اللہ بخشنے والامہربان ہے ۔
حضرت ابو بکر نے یہ آیت سنی تو فوراً کہا : خدا کی قسم ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے ہمارےرب ، تو ہمیں معاف کر دے (بَلَى وَاللهِ إِنَّا نُحِبُّ أَن تَغفِرَ لَنَا يَا رَبَّنَا)
اس سے پہلے حضرت ابو بکر ایک ایسے "مسطح " کی مدد کر رہے تھے جس سے انھیں کوئی چوٹ نہیں لگی تھی ۔ اب مسطح کی مدد کرنا ایک ایسے شخص کی مدد کرنا تھا جس سے انھیں سخت چوٹ پہنچی تھی ۔ پہلے اگر وہ نفس سے لڑے بغیر مسطح کی مدد کر رہے تھے تو اب ان کے فیصلہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ نفس سے لڑکر مسطح کی مدد کریں گے ۔ اس طرح انھوں نے سیکھا کہ غصہ کو الگ کر کے ایک شخص کے ساتھ سلوک کریں ۔ انھوں نے جانا کہ صرف معمول کے حالات میں مومنانہ اخلاق نہیں برتنا ہے ۔ بلکہ غیر معمولی حالات میں بھی مومنانہ اخلاق برتنا ہے ۔ ان کے اس عمل نے ان کےایمان کو ایک درجہ اوپر کر دیا ۔
4۔حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ برائی کا جو الزام لگایا گیا ، اس سلسلہ میں مدینہ میں بہت سے واقعات پیش آئے ۔ ان میں سے ایک واقعہ روایات میں اس طرح آیا ہے : عَنْ أَفْلَحَ مَوْلَى أَبِي أَيّوبَ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ أُمُّ أَيُّوبَ: يَا أَبَا أَيُّوبَ أَمَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فِي عَائِشَةَ رضي الله عنها؟ قَالَ: قَالَ: بَلَى، وَذَلِكَ الْكَذِبُ، أَفَكُنْتِ يَا أُمّ أَيّوبَ فَاعِلَةً ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ: لَا وَاَللهِ. قَالَ: فَعَائِشَةُ وَاَللهِ خَيْرٌ مِنْك ( تفسیر ابن کثیر 273/3) حضرت ابو ایوب انصاری کے غلام افلح کہتے ہیں کہ ان کی بیوی ام ایوب نے ان سے کہا کہ اسے ابو ایوب کیا آپ نے نہیں سنا کہ عائشہ کے بارے لوگ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ اور وہ جھوٹ ہے۔ اے ام ایوب کیا تم ایسا کروگی ۔ان کی بیوی نے کہا کہ خدا کی قسم نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ پھر عائشہ خدا کی قسم تم سے بہتر ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ پر جو الزام لگایا گیا اس کے معاملے میں ایک طریقہ ان لوگوں کا تھا جن کا حال یہ تھا کہ انھوں نے جو کچھ سنا اس کو بلا تحقیق بیان کرنے لگے ۔ مگر حضرت ابو ایوب نے اپنے آپ کو اس سے اوپر اٹھایا ۔ انھوں نے معاملے کو اپنی عقل سے جانچا ۔ انھوں نے محسوس کیا کہ وہ خود ایسا نہیں کر سکتے اس لیے انھوں نے کہہ دیا کہ عائشہ نے بھی ایسا نہیں کیا ۔
یہ ایک شعوری صبر کا واقعہ تھا۔ حضرت ابو ایوب نے جب ایسا کیا تو حدیث کے الفاظ میں ان کا خون زیادہ بہتر خون اور ان کا گوشت زیادہ بہتر گوشت بن گیا۔ ان کے اندر وہ شخصیت پیدا ہوئی جو دوسرے کے معاملے کو اپنا معاملہ بنا کر دیکھے۔ وہ ہر معاملے کو اصول کی روشنی میں جانچےنہ کہ سطحی خواہشات کی روشنی میں ۔
خلاصہ
ایک اسلام معمول والا اسلام ہے۔ دوسرا اسلام وہ ہے جب کہ آدمی معمول کے خلاف اسلام پر عمل کرے ۔ خدا کی دنیا کو ظاہری طور پر دیکھنا بھی خدا کی یاد دلاتا ہے ۔ مگر جب آدمی دنیا کے ظاہر سے گزر کر اس کے اندرونی عجائب پر غور کرتا ہے تو اس کی معرفت کی کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ معتدل حالات میں اخلاق بر تنا بھی ایک اچھا کام ہے ۔ مگر جب آدمی ایک ایسے شخص سے اخلاق برتے جس سے اس کے تعلقات خراب ہو گئے ہوں تو وہ ایسے ایمان کا تجربہ کرتا ہے جس کا اس نے پہلے تجربہ نہیں کیا تھا۔ ایک ایسے شخص سے انصاف کرنا بھی انصاف ہے جس سے آپ کا بناؤ ہو۔ مگر جب آپ ایک ایسے شخص سے انصاف کریں جس سے آپ کا بگاڑ ہے تو اس وقت آپ کا عمل سادہ معنوں میں محض انصاف کا عمل نہیں ہوتا بلکہ وہ آپ کو خدا سے براہ راست ملانے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ عمل کے دوران ایمان کی یہی مزید خوراک ہے جس کو اضافہ ٔایمان کہا جاتا ہے ۔ ایمان ہمیشہ بڑھتا ہے۔ مگر یہ بڑھنا ہمیشہ اس نسبت سے ہوتا ہے جتنا آدمی کے اندر حوصلہ ہو ۔
حصہ دوم
ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ ایمان ایک طرف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ خدا کی دنیا میں پتھر کی طرح جامد نہ رہے ، بلکہ درخت کی طرح ہمیشہ بڑھنے والا اور ترقی کرنے والا وجود بن جائے ۔ اسی طرح ایمان آدمی کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے جو دنیا میں ہر قسم کی کامیابی کا واحد یقینی ذریعہ ہے ۔ اس صفت کا نام ایک لفظ میں صبر ہے ۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ : اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے2:53 یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے : اعْلَم أَن النَّصْر مَعَ الصَّبْر (جان لو کہ خدا کی مدد صبر کے ساتھ وابستہ ہے (الأذكار للنووي
2088) یعنی اللہ بلا شبہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ اللہ کی مدد کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے ۔ مگر اللہ کی مدد کا دروازہ صرف اس شخص یا گروہ کے لیے کھلتا ہے جو مشکل پیش آنے کے وقت صبر کا ثبوت دے ۔ مدد ہمیشہ اللہ کی طرف سے آتی ہے مگر اس کو لینے کے لیے بندے کی طرف سے صبر کاپیمانہ درکار ہے ۔
یہ کوئی پر اسرار قسم کی اعتقادی بات نہیں۔ بلکہ یہی اس دنیا کے لیے خدا کا عام قانون ہے ۔ اس قانون کو زیادہ واضح طور پر قرآن کی سورۃ نمبر 94 میں بیان کیا گیا ہے جس کا نام الانشراح ہے ۔ اس سورہ میں اسی بات کو ان لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ: اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (بلا شبہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ) یعنی اس دنیا میں خدا نے آسانیوں کو مشکلات کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہاں جو شخص آسانی کی منزل تک پہنچنا چاہے اس کو جاننا چاہیے کہ وہ دشواریوں سے بھرے ہوئے راستے سے گزر کر ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون ہے اور اس قانون میں کوئی استثناء نہیں ۔
مشکل میں آسانی
سورۃ الانشراح یا سورہ الم نشرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اس دور میں اتری جس کو مکی دور کہا جاتا ہے ۔ اس وقت مکہ کے حالات بہت سخت تھے ۔ اس وقت کے مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو نا قابل بیان تکلیفوں میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ تکلیف کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو قدیم مکہ کے لوگوں نے آپ پر نہ ڈالی ہو ۔
حضرت طارق بن عبد الله المحاربی کہتے ہیں کہ میں نے بعثت کے ابتدائی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذو المجاز کے بازار میں پہلی بار دیکھا تھا۔ آپ لوگوں کے درمیان یہ کہتے ہوئے گزر رہے تھے کہ : يا ايها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا (اے لوگو کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، تم فلاح پاؤ گے ) آپ یہ کہتے جاتے تھے اور ایک شخص آپ کے پیچھے آپ کو پتھر مارتا ہوا چل رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ کہتا جاتا تھا : يا ايها الناس لا تطيعوه فانہ کذاب (اے لوگو اس کی بات نہ مانو کیوں کہ وہ جھوٹا ہے )
حضرت عروہ ابن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار عبد اللہ بن عمر و بن العاص سے کہا کہ قدیم مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تکلیف پہنچاتے تھے اس کا کچھ حال بیان کیجئے۔ عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط آیا۔ اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اتنے زور سے کھینچا کہ آپ کا گلا گھٹنے لگا ۔
اس طرح کے بہت سے واقعات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ قدیم مکہ میں اسلام کے دشمن آپ کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتے تھے ۔
مکہ کے ابتدائی سالوں میں یہ حال تھا کہ نماز پڑھنا یا قرآن کی تلاوت کرنا بھی مشرکین کو گوارا نہ تھا۔ ابن ہشام اپنی سیرت کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو نماز پڑھنا ہوتا تو وہ پہاڑ کی گھاٹیوں میں چلے جاتے ۔ وہ اپنی نماز کو اپنی قوم سے چھپاتے تھے ۔ (کان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صلوا ذهبوا في الشعاب واسْتَخْفُوا بصلاتهم من قومهم ، صفحہ ، 275)
قدیم مکہ کے مشرکین صرف برا بھلا کہنے پر نہیں رکتے تھے ، وہ باقا عدہ مار پیٹ بھی کرتے تھے۔ وہ ہر طرح مسلمانوں کو ستاتے تھے جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے ۔
یہی سخت حالات تھے جب کہ قرآن میں یہ آیت اتری :
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
ابن جریر نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے :
خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا وَهُوَ مَسْرُورٌ يَضْحَكُ وَهُوَ يَقُولُ: "لَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنَ لَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنَ إنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"( تفسير الطبري ،ج24ص496)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز نکلے ۔ آپ خوش تھے اور ہنس رہے تھے اور یہ فرما رہے تھےکہ ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی ، ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی ۔ کیوں کہ قرآن میں ہے کہ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔
یہ آیت موجودہ دنیا میں خدا کے قانون کو بتا رہی ہے ، اس دنیا کو بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں جب بھی آدمی کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے مشکلات آتی ہیں ۔ مگر ہر مشکل میں آسانی کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ یہاں ہر ڈس ایڈوانٹج میں ایڈوانٹج چھپا ہوا ہوتا ہے اس لیے یہاں آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ جب بھی مشکل پیش آئے تو وہ مشکل میں چھپی ہوئی آسانی کو دریافت کرے ، وہ ڈس ایڈوانٹج میں ایڈوانٹج کو پالے ۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔ جو لوگ اس راز کو دریافت کر سکیں وہ کامیاب ہیں اور جو لوگ اس را زکو دریافت نہ کر سکیں وہی وہ لوگ ہیں جو نا کام ہو گئے ۔
انسانی علم کی تصدیق
زندگی کی یہ حقیقت جو قرآن میں بیان کی گئی ہے ، یہ اتنی واضح ہے کہ علماء نفسیات جنہوں نے انسان کا مطالعہ خالص علمی انداز سے کیا ہے انھوں نے بھی اس راز کو پالیا ہے ۔ اور اس کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔
یہاں میں مشہور عالم نفسیات ڈاکٹر الفرڈ ایڈلر (1937 – 1870) کا حوالہ دوں گا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا شخص ہے جس نے احساس کمتری (Inferiority feeling) کا لفظ استعمال کیا۔ اور اس کی سختی سے تردید کی ۔
الفرڈ ایڈلرنے پوری زندگی اس مطالعہ میں صرف کر دی کہ انسان کیا ہے اور وہ کس طرح اپنی قوتوں کواستعمال کرتا ہے ۔ وہ ایک ممتاز ترین ماہر نفسیات تھا ۔ اس نے تمام عمر کے مطالعہ کے بعد ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے (The Individual Psychology) اس میں اس نے لکھا ہے کہ انسانوں کے اندر میں نے ایک انتہائی حیرت ناک خصوصیت پائی ۔ ان کی یہ طاقت کہ وہ ایک" نہیں" کو "ہے" میں تبدیل کرسکیں :
……….their power to turn a minus into a plus.
الفرڈ ایڈلر نے جس چیز کو انسان کی طرف منسوب کیا ہے ۔ وہ دراصل خدا کا عطیہ ہے ۔ انسان بلا شبہ اس دنیا میں اپنے "نہیں" کو "ہے" میں تبدیل کرتا ہے ۔ مگر یہ معجزہ انسانی طاقت کی بنا پر نہیں ہوتا ۔ وہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا نے اس دنیا کو اس ڈھنگ سے بنایا ہے کہ اس کے اندر یہ امکان بے پناہ حد تک موجود ہے کہ ناموافق حالات کبھی بھی انسان کے لیے آخری اور کلی معنوں میں ناموافق نہ بنیں ۔یہاں ہمیشہ ناموافق میں موافق پہلو موجود رہے تاکہ انسان اس کو استعمال کر کے کامیابی کی منزل تک پہنچ سکے۔
یہاں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تاریخ کے بعض واقعات کا ذکر کریں گے جو اس حقیقت کی زندہ مثال ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ جو عسر پیش آیا ، کس طرح اس کے اندر خدا نے یسر کا پہلو رکھ دیا تھا۔ اور اللہ کے یہ بندے جب منفی نفسیات کا شکار نہیں ہوئے تو انھیں اس پہلو کو جاننے میں دیر نہیں لگی ۔ انھوں نے یسر کے پہلو کو استعمال کر کے تاریخ کے رخ کو موڑ دیا۔جو واقعہ بظاہر ان کے خلاف جارہا تھا اس کو انھوں نے اپنے موافق بنا لیا ۔
مخالفت سے رفع ذکر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے مکہ میں اسلام پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چر چاہونے لگا۔ یہاں ابن ہشام نے یہ الفاظ لکھے ہیں : ثم دخل الناس في الاسلام ارسالاً من الرجال والنساء حتى فشا ذكر الاسلام بمكة، وتُحدّث به ، صفحہ 274(پھر عورتوں اور مردوں کی ایک جماعت اسلام میں داخل ہو گئی ، یہاں تک کہ اسلام کا ذکر مکہ میں پھیل گیا اور اس کا چر چاکیا جانے لگا )۔
قریش نے جب یہ دیکھا کہ اسلام کی رفتار دن بدن بڑھ رہی ہے تو ان کے سردار ولید بن مغیرہ کےمکان پر جمع ہوئے ۔ انھوں نے یہ مشورہ کیا کہ حج کا موسم قریب آگیا ہے اور تمام عرب کے قبائل مکہ میں جمع ہوں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ محمد کی باتوں سے متاثر ہو جائیں۔ اس لیے ہمیں پہل کر کے آنے والے قبائل سے کوئی ایسی بات کہہ دینی چاہیے کہ وہ محمد کی طرف سے بدگمان ہو جائیں اور ان کی طرف دھیان نہ دیں ۔
اس سلسلے میں مختلف سرداروں نے مختلف رائیں دیں ۔ آخری مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ عرب کے وفود جب حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوں تو تمام سردار ان کے درمیان جائیں اور انھیں قومی تفریق پیدا کرنے والا بتا کر لوگوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کریں ۔
اس وقت مکہ میں اسلام بہت کمزور حالت میں تھا ۔ ایسی حالت میں مکہ کے تمام سرداروں کا متفق ہو کراسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا بظاہر ایک مایوس کن بات تھی ۔ عرب کے قبائل پر مکہ کے سرداروں کا زبر دست اثر تھا۔ اس لیے ان کا متفقہ طور پر اسلام کے خلاف کھڑا ہونا بظاہر یہ معنی رکھتا تھا کہ لوگ اسلام سے بدک جائیں اور اس کے پیغام کو سننے کے لیے تیار نہ ہوں ۔
مگر یہ واقعہ کا ایک پہلو تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس طرح اسلام کی زبر دست تشہیر ہو گئی۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسلام کو جان لیا جن کو بتانا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ممکن نہ تھا۔ مکہ کے سردار اگر چہ اسلام کی مخالفت میں بولتے تھے ۔ مگر انسان کی یہ نفسیات ہے کہ جس چیز کی مخالفت کی جائے اس کے بارے میں اس کے اندر تجسس (Curiosity) پیدا ہوتا ہے۔ وہ سنی ہوئی بات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ مزید اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ چنانچہ اسلام کو جاننے کے لیے ان کے اندر مزید اشتیاق بڑھ گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدرتی طور پر سرداروں کی اس مخالفانہ مہم پر غم زدہ تھے۔ مگر قرآن نےاس واقعہ کے دوسرے پہلو کو لیا اور قرآن میں یہ آیت اتری : وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكرک (اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا مذکور بلند کیا ) قریش کی مہم ایک اعتبار سےمخالفانہ پروپیگنڈے کی مہم تھی۔ مگر دوسرے اعتبار سے وہ اسلام کا چرچا کرنے کی مہم تھی۔ قرآن نے دوسرے پہلو کو لیتے ہوئے بتایا کہ اس مہم کے تاریک پہلو میں ایک روشن پہلو چھپا ہوا ہے ۔ جو چیز ایک پہلو سے مخالفانہ پروپیگنڈا ہے وہ دوسرے پہلو سے رفع ذکر ہے ۔ تم اس دوسرے پہلو کو جانو اور اس کو استعمال کرو۔
اس طرح اس وقت کے مسلمانوں کو سوچ کی ایک مثبت لائن مل گئی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ قریش کے پیدا کیے ہوئے تجسس کو وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئے ۔ جو لوگ قریش کے پروپیگنڈے کی وجہ سے اس سوال سے دو چار تھے کہ –––––– " یہ نیا دین کیا ہے"۔ان کو بتایا کہ اسلام کا اصل پیغام یہ ہے ۔ اس طرح اچانک اسلام کا رفع ذکر ہو گیا ۔ مسلمانوں کی اپنی کوشش سے برسوں میں جتنا اسلام پھیلا تھا، دشمنوں کی مخالفت کے بعد وہ اس سے کئی گنا ز یادہ مقدارمیں تھوڑے دنوں میں پھیل گیا ۔
تاخیر نعمت بن گئی
قدیم مکہ کے لوگوں نے اسلام کے خلاف جو تدبیریں کیں ان میں سے ایک تدبیر یہ تھی کہ انھوں نے اپنے دو خاص آدمی ، نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط مدینہ بھیجے ۔ وہ وہاں یہودی علماء سے ملے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ تم لوگ اہل تو رات ہو۔ ہم تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم ہمارے آدمی کے بارے میں بتاؤ ۔ یہود نے کہا کہ تم لوگ ان سے چند چیزوں کی بابت سوال کرو۔ اگر وہ ان کے بارے میں بتا دیں تو وہ واقعی خدا کے پیغمبر ہیں اور اگر وہ نہ بتاسکیں تو وہ صرف باتیں بنانے والے ہیں ۔
) فَإِنْ أَخْبَرَكُمْ بهن فهو نبي مرسل وإلا فرجل مُتَقَوِّل(
ان باتوں میں سے ایک سوال اس شخص کے بارے میں تھا جو مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچا۔دوسرا سوال ان نوجوانوں کے بارے میں تھا جو غار میں جا کر سو گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سوالات کو سنا تو فرمایا : أُخْبِرُكُمْ غَدًا عما سَأَلْتُمْ عَنْهُ ۔ جن چیزوں کے بارے میں تم نے پوچھا ہے ان کے بارے میں تم کو میں کل بتاؤں گا ۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا مگر ان شاء اللہ نہ کہا ۔ آپ کو خیال تھا کہ حضرت جبریل کل آئیں گے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا۔ مگر خلاف ِمعمول حضرت جبریل کل کے دن نہ آئے ۔ حتیٰ کہ پندرہ دن گزر گئے اور حضرت جبریل نہ آئے ۔( تفسير ابن كثير،ج5 ص123)
یہ بے حد نازک معاملہ تھا۔ یہودی علماء نے جن شخصیتوں کی بابت سوال کیا تھا وہ اس وقت عام لوگوں کے لیے سراسر
نا معلوم شخصیتیں تھیں۔ ان کا ذکر صرف یہود کے بعض نوشتوں میں تھا۔ چونکہ اس وقت تک پریس کا دور نہیں آیا تھا، یہ نوشتے صرف بعض یہودی علماء کے پاس تھے ۔ عام لوگوں کو ان کی مطلق کوئی خبر نہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی بابت اس وقت کسی قسم کی کوئی اطلاع نہ تھی ۔
مکہ کے مشرکین ہر روز آپ سے پوچھتے ۔ اور آپ سوال کا جواب نہ دے پاتے ۔ اس طرح مکہ کے مخالفین کو موقع مل گیا کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں اور لوگوں سے کہیں کہ یہ سچے پیغمبر نہیں ہیں۔ اگر وہ سچے پیغمبر ہوتےتو یقینا ً خدا انھیں بتا دیتا اور وہ سوال کا جواب دیدیتے ۔
بہ ظاہر یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو اسلام کے خلاف تھا۔ یہ اسلام کی صداقت کو مشتبہ کر رہا تھا۔ مگر یہاں بھی "عسر "کے اندر ایک "یسر" چھپا ہوا تھا ۔ وحی کارکنا اور مخالفین کا اس کو استعمال کر کے پروپیگنڈا کرنا اپنے اندر ایک روشن پہلو رکھتا تھا ۔ اس طرح یہ ہوا کہ سارے مکہ میں اسلام ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ ہر گھر میں اس کا چرچا پہنچ گیا۔ پوری آبادی کے اندر سننے کی فضا پیدا ہو گئی۔
پندرہ دن وحی رکنے کے بعد حضرت جبریل سورہ الکہف لے کر آئے جس میں مذکورہ سوالات کا تفصیلی جواب تھا ۔ عام حالت میں یہ سورہ اترتی تو اس کا اترنا لوگوں کو زیادہ قابلِ توجہ واقعہ نظر نہ آتا مگر اب وہ اتری تو سارا مکہ اس کو سننے کے لیے کان لگائے ہوئے تھا۔ چنانچہ اس کے اترتے ہی وہ سارے مکہ میں پھیل گئی۔ ہر آدمی اس کو جاننے کے لیے دوڑ پڑا کہ دیکھیں "محمد " نے ان سوالات کا کیا جواب دیا ہے ––––– جو چیز بظاہر اسلام کے غیر موافق تھی وہ اسلام کے موافق بن گئی ۔
ہجرت سے تبلیغ
مشرکین مکہ کی مخالفت کے باوجود اسلام برابر پھیل رہا تھا۔ مشرکین کی ہر تدبیر اسلام کی مزید اشاعت کا سبب بن رہی تھی ۔ اس کو دیکھ کر مکہ کے مشرکین اور زیادہ سخت ہو گئے ۔ انھوں نے مسلمانوں کے اور پر اپنی سختیاں تیز تر کر دیں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں (تفَرقُوا فِي الأَرْض، فَإِن اللَّه تَعَالَى سيجمعكم) لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جائیں تو آپ نے فرمایا کہ حبش چلے جاؤ ۔( الدرر في اختصار المغازي والسير لابن عبد البر،ص 48)
حبش افریقہ کی طرف عرب کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ دونوں کے درمیان بحر احمر حائل ہے۔ اس سمندر کی چوڑائی یمن کے پاس بہت کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قدیم زمانے میں یہیں سے لوگ کشتیوں کےذریعہ عرب سے حبش کا اور حبش سے عرب کا سفر کیا کرتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مشورہ کے بعد رجب 5 نبوی میں ایک درجن آدمی مکہ کو چھوڑ کر حبش چلے گئے ۔ جلد ہی بعد دوسرا زیادہ بڑا قافلہ مکہ کو چھوڑ کر حبش گیا۔ ابن ہشام کے مطابق ان کی تعداد 86 تھی ۔ اس طرح مجموعی طور پر تقریبا ً ایک سو مسلمان افریقہ کے ملک حبش پہنچ گئے ۔
بظاہر یہ واقعہ پسپائی کا واقعہ تھا۔ مگر خدا کے فضل سے اس کے اندر اقدام کا پہلو نکل آیا۔ یہ لوگ جو مکہ سے حبش گئے تھے یہ کوئی اسٹیچو نہ تھے بلکہ اسلام کے زندہ مبلغ تھے۔ ان کا حبش جانا قدرتی طور پر اسلام کے مبلغین کا ایک برّاعظم سے دوسرے
بر اعظم جا نا بن گیا ۔ ان کے حبش پہنچتے ہی سمندر پار کے اس ملک میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔ ان کی دعوتی اور اخلاقی تاثیر سے حبش کے لوگوں میں اسلام پھیلنے لگا۔ حتیٰ کہ جب اس کا چر چا بڑھا تو خود شاہ حبش نجاشی نے ان لوگوں کو اپنے دربار میں بلایا ۔ جو حبش کے قدیم شہر اکسوم پر واقع تھا۔
اس وقت حضرت جعفر نے مسلمانانِ حبشہ کی نمائندگی کی۔ انھوں نے اسلام کے تعارف پر ایک تقریر کی ۔ جو لوگ کسی مقصد کے لیے ستائے جائیں اور پھر بھی اس سے نہ پھریں خواہ اس کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دینا پڑے ، ایسے لوگوں کی آواز میں قدرتی طور پر سوز پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کے الفاظ دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔ چنانچہ حضرت جعفر نے جب بھرے دربار میں تقریر کی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ حتیٰ کہ خود شاه نجاشی رونے لگا۔ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ حضرت جعفر بظاہر ستائے گئے تھے۔ مگر اسی ستانے کے واقعہ نے آپ کے کلام میں وہ زور اور تأثر پیدا کر دی جس نے بادشاہ کواور اس کے تمام درباریوں کو تڑپا دیا ۔
ہجرت حبشہ سے متعلق اس قسم کے بہت سے واقعات سیرت کی کتابوں میں آئے ہیں ۔ اس طرح ایک بظاہر پسپائی کا واقعہ اقدام کا واقعہ بن گیا۔ اسلام کی دعوت ایشیا کے علاقہ سے نکل کر افریقہ کے علاقہ میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد وہ افریقہ میں بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ افریقہ کا نصف سے زیادہ حصہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ ایک مقامی دعوت عالمی دعوت میں تبدیل ہو گئی ۔ اریٹیریا کا علاقہ جومسلم اکثریت کا علاقہ ہے ، وہ اسی ہجرتِ حبشہ کے بعد وجود میں آیا ۔
خاتمہ میں نیا آغاز
عُسر میں یُسر کے اسی امکان کی ایک مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے ۔ آپ کا قصہ ابتداءً اسوء القصص معلوم ہوتا ہے ۔ مگر قرآن کے الفاظ میں بالآخر وہ احسن القصص بن گیا۔ حضرت یوسف کے دشمنوں نے جہاں آپ کی تاریخ ختم کرنی چاہی تھی ، وہیں آپ کے لیے ایک شاندارتر تاریخ کے امکانات پیدا ہو گئے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں یہ نئے امکانات کیسے پیدا ہوئے ۔ اس کی طرف قرآن میں ان لفظوں میں اشارہ ملتا ہے : وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْر( یوسف :99) وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْو ( یوسف :100) اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضرت یوسف اور ان کے خاندان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان یہ تھا کہ وہ ان کو دیہات سے نکال کر مصر جیسے متمدن ملک میں لایا اور وہاں کی راجدھانی میں ان کے قیام کے اسباب پید ا کیے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام فلسطین کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ عام حالات میں وہ اسی گاؤں میں پڑے رہتے ۔ ان کی اعلیٰ صلاحیتیں گاؤں کے حالات میں اپنے ظہور کاراستہ نہ پاتیں۔ مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ نوجوانی کی عمر میں آپ کے سوتیلے بھائیوں کو آپ سے ضد ہو گئی ۔ ان کی ضد یہاں تک پہنچی کہ وہ ایک روز آپ کو دور جنگل میں لے گئے اور آپ کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔
بظاہر یہ ایک زبردست ناکامی کا واقعہ تھا۔ مگر اس ڈس ایڈوانٹج میں ان کے لیے ایک ایڈوانٹج نکل آیا ۔ وہ ایک تجارتی قافلہ کے ہاتھ لگ گئے جو مصر کی راجدھانی کی طرف تجارت کے لیے جا رہا تھا۔ آپ کی پرکشش شخصیت کو دیکھ کر ان تاجروں کو دل چسپی ہوئی ۔ کیوں کہ انہیں امیدہوئی کہ وہ آپ کو مصر کے بازار میں فروخت کر کے کچھ رقم حاصل کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ انھوں نے حضرت یوسف کو اپنے قافلہ میں شامل کر لیا اور ان کو لے جا کر مصر کی راجدھانی میں ایک سرکاری افسر کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
حضرت یوسف کا کنویں میں ڈالا جانا بظاہر ایک ناپسندیدہ واقعہ تھا ۔ مگر اسی نا پسندیدہ واقعہ کے اندر سے یہ امکان نکل آیا کہ وہ معمولی دیہات سے نکل کر ترقی یافتہ شہر میں پہنچیں ۔ اور اس طرح ان کی صلاحیتوں کے استعمال کے لیے زیادہ وسیع میدان حاصل ہو ۔ چنانچہ یہی ہوا ۔ اپنے گاؤں میں وہ صرف بکریاں چرایا کرتے تھے۔ مگر مصر میں آخر کا ر وہ ملک کے اقتدار تک پہنچادئے گے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں اسوء القصص بھی احسن القصص بن سکتا ہے۔ بشر طیکہ آدمی تقویٰ اور صبر کا ثبوت دے ۔ تقویٰ آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے۔ اور صبر سےآدمی کے اندر انتظار کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی دونوں چیزیں زندگی میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں ۔ سنجیدگی آدمی کو حقیقی اور درست رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہے اور انتظار کی طاقت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ بے فائدہ قسم کے عاجلانہ اقدام سے بچتا ر ہے ۔ یہاں تک کہ وہ محفوظ طور پر اپنی منزل تک پہنچ جائے ۔
مثبت شعور کی ضرورت
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر نا موافق صورت حال میں ایک موافق امکان چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا کلیہ ہے جس میں کوئی استثناء نہیں۔ خدا کی اس دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں کہ آدمی کو صرف ناموافق حالات گھیرے ہوئے ہوں ۔ اور کوئی موافق امکان اس کے لیے سرے سے موجود نہ ہو ۔
مگر اس موافق پہلو کو پانے اور اس کو استعمال کرنے کے لیے مثبت شعور کی ضرورت ہے ۔ جب آدمی کسی نا موافق صورت ِحال میں گھر جائے تو عام طور پر وہ اس سے اتنا متاثر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناموافق حالات بیشتر آدمیوں کو صرف ایک ہی تحفہ دیتے ہیں اور وہ ہے ردِّ عمل میں مبتلا ہو جانا۔ جب آدمی
رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے۔ تو وہ اپنے حالات سے صرف مایوسی اور نفرت کی غذالے گا ۔ وہ اس سے کبھی مثبت فکر کی غذا نہیں لے سکتا ۔
نا موافق حالات میں چھپے ہوئے موافق امکان کو جاننے اور اس کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی قریبی حالات سے الگ ہو کر سوچ سکے ۔ وہ اپنے آپ کو فکری اعتبار سے اس مقام پر لےجائے جہاں وہ غیرمتاثر ذہن کے ساتھ رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو ۔
آدمی ہر تاریکی میں روشنی پاسکتا ہے۔ وہ ہر نا موافق صورت ِحال میں اپنے لیے ایک موافق پہلوڈھونڈ سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقت پسند بنائے ۔ وہ جھنجھلاہٹ کی نفسیات سے دور رہے ۔ وہ دشمن کو بھی غیر دشمن کی نظر سے دیکھے۔ وہ اپنے آپ سے الگ ہو کر اپنے آپ کو پڑھ سکے ۔ اسی کا نام مثبت طرزِ فکر ہے اور اس دنیا میں بلاشبہ مثبت طرز فکر ہی کے اندر تمام کامیابیوں اور ترقیوں کا راز چھپا ہوا ہے ۔