اختلافِ امت
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود 71 فرقوں میں بٹ گئے۔ اور نصارٰی 72 فرقوں میں بٹ گئے ۔ اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی (افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً)(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر4596)
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة وافترقت النصارٰى على اثنتين وسبعين فرقة - وستفترق أمتى على ثلاث وسبعين فرقة)
علما ءسنت نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے تاہم ، جیسا کہ المقبلی نے اپنی کتاب العلم الشامخ میں لکھا ہے ، اس بارے میں کثیر روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں ، اس لیے اس کے اصل مفہوم میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا (حَدِیثُ اِفْتِرَاقُ الْأُمَّةِ إلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً رِوَايَاتُه كَثِيرَة يَشُدُّ بَعْضُهَا بَعْضًا بِحَيْثُ لَا تَبْقَى ریبِة فِي حَاصِلِ مَعْنَاه .)
اکثر لوگوں نے 73 کی تعداد کو حسابی گنتی کے معنی ٰمیں لیا ہے، چنانچہ انھوں نے مسلم فرقوں کی فہرست بنانے کی کوشش کی ہے ۔ مثلاً ابن حزم شہرستانی نے اپنی کتاب الملل والنحل میں ان کی تعداد 76 بتائی ہے۔ الاشعری نے مقالات الاسلامیین میں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ تک شمار کی ہے ۔ الخوارزمی کے نزدیک ان فرقوں کی تعداد 72 ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو دکتور محمد عمارة کی کتاب الخلافة ونشأة الاحزاب الاسلامية) مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں 73 کا لفظ تعداد کی کثرت بتانے کے لیے آیا ہے نہ کہ تعداد کی حد بتانے کے لیے۔ اس لیے ہمیں تعداد کا شمار کرنے کے بجائے اختلاف کی اصل حقیقت پر غور کرنا چاہیے ۔
صحابہ کی رائے
إنَّ مَسْأَلَةَ الْخِلَافِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ أَرِقَت أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي لَحْظَةِ تَأَمُّلٍ و تَفَكُّرٍ، فَظَلّ يَسْأَلُ نَفْسَهُ : كَيْفَ تَخْتَلِفُ هَذِهِ الْأُمَّةُ وَنَبِيُّهَا وَاحِدٌ ؟ ثُمَّ أَعَادَ طَرْح السُّؤَالِ عَلَى عَبْدٍ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فِيمَا تُشِيرُ الرِّوَايَةَ ، وَقَالَ لَهُ : كَيْفَ تَخْتَلِفُ هَذِهِ الْأُمَّةُ وَنَبِيُّهَا وَاحِدٌ ، وَقِبْلَتُهَا وَاحِدَةٌ ، وَكِتَابُهَا وَاحِدٌ۔
فَرَدَّہ ابْنُ عَبَّاسٍ قَائِلًا ، يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إنَّمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْقُرْانُ فَقَرَأْنَاه وَعَلِمْنَا فِيمَا أَنْزَلَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدَنَا أَقْوَامٌ يَقْرَأونَ الْقُرْانَ وَلَا يَدْرُونَ فِيمَا نَزَلَ ، فَيَكُونُ لِكُلِّ قَوْمٍ رَأْىٌ. فَإِذَا كَانَ لِكُلِّ قَوْمٍ فِيهِ رَأْيٌ لَاخْتَلَفُوا فَإِذَا اخْتَلَفُوا اقْتَتَلُوا - تَقُول الرِّوَايَةَ أَنَّ سَيِّدَنَا عُمَرَ زجز ابْنُ عَبَّاسٍ وَ نھرَه سیدَنَا عَلی : فَانْصَرَفَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَ نَظَرَ عُمَرُ فِيمَا قَالَ فَعَرَفَهُ ۔۔۔ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ وَقَالَ : أَعِدْ عَلَيَّ مَا قُلْتَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهِ فَعَرَفَ عُمَرُ قَوْلَهُ وَأَعْجَبَه . (د۔ يوسف القرضاوي - العمدة الاسلامية ص 89 نقلاً عن مصادر اخرى)
مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے معاملے نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فکر میں مبتلا کر دیا۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتے رہے کہ یہ امت کیوں کر مختلف اور متفرق ہو جائے گی جب کہ اس کا پیغمبر ایک ہے جیسا کہ روایات بتاتی ہیں ، انھوں نے اس سوال کو عبد اللہ بن عباس کے سامنے رکھا اور ان سے کہا کہ یہ امت کیسے مختلف ہو جائے گی جب کہ اس کا پیغمبر ایک ہے اور اس کا قبلہ ایک ہے اور اس کی کتاب ایک ہے ۔ عبداللہ بن عباس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے امیر المومنین ہمارے اوپر قرآن اترا، پھر ہم نے اس کو پڑھا اور یہ جانا کہ وہ کس بارے میں اترا ہے ۔ اور ہمارے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کو پڑھیں گے مگر وہ نہیں جانیں گے وہ کس بارے میں اترا ہے۔ چنانچہ ہر ایک کی الگ الگ رائے ہو جائے گی ، اور جب ہر ایک کی الگ رائے ہوگی تو وہ اختلاف کریں گے اور جب اختلاف کریں گے تو آپس میں لڑیں گے ۔ روایت کہتی ہے کہ حضرت عمر نے عبداللہ بن عباس کو جھڑک دیا اور حضرت علی نے بھی ان کو ڈانٹا۔ وہ واپس چلے گئے۔ پھر حضرت عمر نے ان کے قول پر غور کیا تو وہ سمجھ گئے۔ حضرت عمر نے دوبارہ انھیں بلایا اور کہا کہ اپنے قول کو دہراؤ ۔ انھوں نے دہرایا۔ حضرت عمر ان کے قول کو سمجھ گئے اور اس کو پسند کیا ۔
حضرت عبد الله بن عباس نے جو بات کہی اور حضرت عمر نے جس کی تصدیق فرما ئی ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو پڑھنے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے معرفت کے ساتھ پڑھنا، اور دوسرا ہے معرفت کے بغیر پڑھنا۔ جو شخص معرفت کی سطح پر قرآن کو پڑھے ، وہی قرآن کو حقیقی طور پر سمجھے گا، اور جو شخص معرفت کے بغیر قر آن کو پڑھے وہ پڑھنے کے باوجود قرآن کو سمجھنےسے قاصر رہے گا۔