یہ انسان
قرآن میں ارشاد ہوا ہے : "زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن سے لوگ گزرتے رہتے ہیں۔ مگر ان پر وہ دھیان نہیں دیتے" ۔ (یوسف :105) جو بات ہم انسانی زبان میں کہنا چاہتےہیں، وہ کائنات میں زیادہ بہتر طور پر خدائی زبان میں نشر ہو رہی ہے۔ پھر خدا کی آواز کو سننے کے لیے جب لوگوں کے کان بہرے ہوں تو انسان کی آواز سے وہ کیا اثر قبول کریں گے ۔ جو لوگ خدا کی تحریر کو نہ پڑھ سکیں وہ انسان کی تحریر کو پڑھ کر کیا پائیں گے ۔
کائنات کی وسعتوں اور عظمتوں سے زیادہ کون اس بات کا سبق دے سکتا ہے کہ انسان انتہائی طور پر ایک حقیر وجود ہے۔ عجز کے سوا کوئی اور رویہ اس کے لیے درست نہیں۔ اس کے با وجود انسان گھمنڈ کرتا ہے (اسراء: 37)
پہاڑوں کے پتھریلے سینے سے بہہ نکلنے والے پانی کے دھارے سے بڑھ کر کون اس حقیقت کو بیان کر سکتا ہے کہ تم دوسروں کے لیے سیرابی اور تراوٹ کے دریا بن جاؤ۔ مگر انسان دوسروں کے لیے پتھر سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوتا ہے (بقرہ: 74)
زمین کے سینے پر کھڑے ہوئے تناور درختوں سے زیادہ بہتر طور پر کون اس حقیقت کا اعلان کر سکتا ہے کہ اپنی اجتماعی زندگی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرو تا کہ کوئی اس کو اکھاڑ نہ سکے۔اس کے باوجود لوگ وقتی جھاڑ جھنکاڑ کی مانند اپنی تعمیرات کھڑی کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ فلاں نے میرے درخت کو اکھاڑ لیا (ابراہیم :26)
اگر لوگوں کے پاس سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھ ہو تو کائنات ہر آن خدائی سچائیوں کا اعلان کر رہی ہے ۔ اور جب خدائی اعلان کو سننے کے لیے لوگوں کے کان بہرے ہو جائیں ۔ اور خدائی نشانیوں کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی آنکھیں اندھی ہو چکی ہوں تو کوئی انسانی آوازانھیں کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے ۔ اس کے بعد تو لوگوں کو ہوش میں لانے کے لیے قیامت کی چنگھاڑ ہی کا انتظار کرنا چاہیے۔