اعلان، اقدام
حق کا اعلان ہر حال میں مطلوب ہے ، خواہ سننے والا اس کو سنے یا نہ سنے ، خواہ مخاطب اس کو مانے یا نہ مانے۔ مگر حق کے لیے عملی اقدام کا معاملہ سراسر مختلف ہے ۔ وہ نتیجہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر نتیجہ نکلنے کا یقینی امکان ہو تو اقدام کیا جائے گا۔ ورنہ اقدام سے باز رہ کر صرف صبر کیا جاتا رہے گا۔
اعلان اور اقدام کا یہ فرق قرآن و سنت میں واضح طور پر ملتا ہے ۔ مثلاً قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاگیا کہ لوگوں کو حق بات کی یاد دہانی کراؤ۔ تم صرف یا ددہانی کرنے والے ہو۔ تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو ۔ (الغاشیہ) یعنی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، ہر حال میں تبلیغ ِحق کا کام کرتے رہو۔ تمہارا کام پہنچا دینا ہے، نتیجہ نکالنا تمہارے ذمہ نہیں ۔ یہ وہ بات ہے جو تبلیغ کےبارے میں کہی گئی ۔
دوسری طرف روایات میں آتا ہے کہ مکہ کے زمانے میں حضرت ابو بکر نے عملی اقدام کی بات کی تو آپ نے فرمایا : یا أبابکر إنا قلیل (اے ابو بکر ہم تھوڑے ہیں )اسی طرح حضرت عمر نے عملی اقدام کے لیے کہا تو آپ نے دوبارہ فرمایا : یا عمر إنا قلیل (اے عمر ہم تھوڑے ہیں)ابن کثیر ، جلد اول ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ قلت تعداد اور قلت وسائل کی وجہ سے ابھی ہم اس حالت میں نہیں ہیں کہ فریق ثانی کے خلاف اقدام کرکے کوئی واقعی نتیجہ بر آمد کر سکیں۔ اس لیے ابھی ہم کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے ۔ ابھی ہم پیغام رسانی پر قانع رہ کر بقیہ امور میں صبر کی روش پر قائم رہیں گے۔
بولنے سے پہلے سوچنا ضروری ہے ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ آدمی کرنے سے پہلے کرنے کی تیاری کرے۔ جو شخص سوچے بغیر بولے وہ فضول گوئی کا مرتکب ہو گا۔ اسی طرح جو شخص ضروری تیاری کےاقدام کرے ، اس کا اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ ایسا اقدام ایک قسم کی خود کشی ہے ۔ وہ موت کی طرف چھلانگ ہے نہ کہ زندگی کی طرف سفر ۔