اللہ اکبر
اس کائنات کی اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ اس کا ایک خالق ہے، اور یہ خالق سب سے بڑا ہے۔ اس سے بڑا اور کوئی نہیں۔ اذان اور نماز میں بار بار اللہ اکبر کہنا اسی سب سے بڑی سچائی کا مسلسل اعلان ہے ۔ اذان اور نماز کے ذریعہ گویا ہم کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں ۔
سب سے بڑی حقیقت کا اعتراف کوئی معمولی چیز نہیں۔ یہ خود اپنے آپ کو سب سے بڑے مقام کا مستحق بنانے کے ہم معنی ہے ۔ مغرب نے اس کا اعتراف کیا کہ کائنات سب سے بڑی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغرب کو تمام قوموں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ بڑی حیثیت حاصل ہوگئی۔ پھر جو لوگ کائنات کے خالق کی بڑائی کو پالیں ، ان کا حال کتنا عظیم ہونا چاہیے۔
مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ کمزور اور مغلوب ہیں۔ ہمارے حق میں "اللہ اکبر" کی وہ برکتیں ظاہر نہیں ہوتیں جو مغرب کے حق میں "الکون اکبر" کہنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ اکبر کے الفاظ کو پایا۔ مگر ہم نے اس کی حقیقت کو نہیں پا یا۔ ہم اللہ کبرکے الفاظ فضا میں بکھیرتے ہیں۔ مگر خود اپنے اندر اسے داخل نہیں کرتے ۔
میں نے ایک عربی اخبار میں ایک مضمون پڑھا ۔ اس کا عنوان تھا: الله أكبر في سماء لندن (لندن کی فضا میں اللہ اکبر کی آواز ) یہ لندن کی جامع مسجد کا تعارف تھا۔ مضمون کے ساتھ لندن کی نو تعمیر عظیم مسجد کی تصویر تھی اور دکھایا گیا تھا کہ یہاں سے ہر روز پانچ وقت" اللہ اکبر" کی آواز لاؤڈ اسپیکر پر بلند کی جاتی ہے جو لندن کی فضاؤں میں گونجتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم آسمان تک اللہ اکبر کی آواز کو پہنچادیں، مگر خود اپنے سینہ کے اندر ہم اللہ اکبرکی آواز کو نہ پہنچا سکے ۔ آلۂ مکبر الصوت کے ذریعہ ہم نے بلند فضاؤں میں اللہ اکبر کا ارتعاش پیدا کر دیا ۔ مگر اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے ابھی خدا کے فرشتے انتظار کر رہے ہیں جب کہ خدا کی کبریائی کا احساس ہمارے دلوں میں ارتعاش پیدا کر دے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اکبر کی برکتوں میں سے کوئی برکت ابھی تک ہمارے حق میں ظاہر نہیں ہوئی ۔