ایک مثال
ڈاکٹر ایم خلیل اللہ امراض ِقلب کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ اس وقت نئی دہلی کے گوبندبلبھ اسپتال میں ڈائرکٹر ہیں۔ انھوں نے اندرون ملک ہندستان کا پہلا پیس میکر (Pacemaker) تیار کیا ہے ۔ یہ وہ طبی آلہ ہے جو دل کی حرکت کو مصنوعی طور پر باقاعدہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ اس کا قدرتی نظام کام نہ کر رہا ہو۔ ان کی اس قسم کی ممتاز طبی خدمات کی بنا پر ناگپور یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری عطا کی ہے ۔
ڈاکٹر خلیل اللہ کو یہ اعزاز ناگپور یونیورسٹی کے 75 ویں کنونشن پر وائس چانسلر ڈاکٹر مدھو سودن چن سرکار نے 5 جنوری 1988 کو پیش کیا ۔ کنونشن کے مہمان خصوصی لوک سبھا کے اسپیکرمسٹر بلرام جاکھڑ تھے ۔
ڈاکٹر خلیل اللہ نے ایک جدید برقی لیبارٹری قائم کر کے امراض قلب کی تشخیص میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان کو 1984 میں پدم شری کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اسی سال انہیں بی سی رائے قومی ایوارڈ بھی ملا ۔ ڈاکٹر خلیل اللہ نے کئی نصابی کتابوں کی تیاری میں حصہ لیا ہے اور قومی اور بین اقوامی طبی جرنل میں ان کے 120 مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ (قومی آواز 6 جنوری 1988)
"ایم خلیل اللہ " اگر ڈاکٹر کی ڈگری لینے کے لیے مطالبات کی مہم چلاتے ۔ وہ جلسوں اور تقریروں کے ذریعہ یہ مانگ کرتے کہ مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دو تو کوئی یونیورسٹی ان کی طرف توجہ نہ کرتی۔ مگر جب انھوں نے ممتاز کام کر کے اپنے آپ کو ڈگری کا مستحق ثابت کر دیا تو مانگ کے بغیر ان کو ڈگری مل گئی۔آدمی اگر واقعی معنوں میں کوئی قابل قدر کام کرے تو وہ قدر دانی پا کر رہتا ہے ، خواہ وہ ایک فرقہ کا آدمی ہو یا دوسرے فرقہ کا ۔
موجودہ دنیا کا نظام نفع بخشی کے اصول پر قائم ہے ۔ یہاں سب سے زیادہ بے قیمت چیز مانگنا ہے اور سب سے زیادہ باقیمت چیز دینا ۔ مانگنے والا اپنے گھر کے اندر بھی حقیر ہو جاتا ہے اوراپنے گھر کے باہر بھی ۔ مگر جو شخص اپنے آپ کو دینے والا بنائے وہ اپنوں کے اندر بھی عزت پائے گا اور اپنوں کے باہر بھی ۔