ایک سفر
ڈیگو گارشیا سے لے کر لکا دیپ تک سمندر میں جگہ جگہ چٹانی ابھار اس طرح پھیلا ہوا ہے جیسےکسی نے اتھاہ پانی کے درمیان لکڑی کے بہت سے تنے ڈال دیے ہوں۔ اسی لمبے سلسلے کے درمیان وہ "ملک" ہے جس کو جزائر مالدیپ کہتے ہیں۔ یہ جزائر ہندستان کے جنوبی ساحل سے تقریباً400 میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔
مالدیپ کے بارے میں راقم الحروف نے سب سے پہلے الجمعیۃ ویکلی 29 مارچ 1974 ء میں ایک مفصل مضمون شائع کیا تھا۔ اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا گیا تھا : مالدیپ کا رقبہ صرف 300 مربع کلومیٹر ہے ، مگر کلیدی محل وقوع کی وجہ سے وہ بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔
اس کی اسی اہمیت کی بنا پر برطانیہ نے پہلی بار مالدیپ (مالے) میں ایک ہوائی اڈہ بنایا۔ دوسری عالمی جنگ میں فوجی اہمیت کے اس ہوائی اڈہ سے برطانیہ نے بہت کام لیا تھا۔ بحر ہند کے درمیان اس ہوائی اڈہ کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ انگریز واقعتاً دور رس نظر رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ دنیا کے اتنے بڑے رقبہ پر حکومت کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
الجمعیۃ کے اس مضمون میں راقم الحروف نے مزید لکھا تھا : جزائر مالدیپ کی پوری آبادی مسلمان ہے۔ یہ پانچ سو سال پہلے کے اس واقعہ کی یاد گا ر ہے جب کہ عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام جنوبی ہند کے ساحل سے لے کر سیلون ، مشرقی بنگال ، ملیشیا اور چین تک پھیل رہا تھا۔ پندرہویں صدی کے آخر میں پرتگالی قافلے بحر ہند میں آگئے ، اور انھوں نے اس علاقے سے عربوں کی تجارت منقطع کر دی ۔ اس کے بعد اس علاقے میں اسلام کی اشاعت کا کام بھی بند ہو گیا (صفحہ 10)
مالدیپ کے لیے میرا پہلا سفر جنوری 1983 میں ہوا۔ یہ سفر ایک اسلامی کا نفرنس کی دعوت پر تھا۔ اس سفر کی روداد الرسالہ مئی 1983 میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کا نفرنس میں مجھے ایک مقالہ "جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کی اشاعت" کے موضوع پر پیش کرنا تھا۔ مقالہ کی تیاری کے لیے کتابوں کی ضرورت تھی ۔ دہلی کے مسلم اداروں میں مجھے اس موضوع پر کوئی کتاب نہ مل سکی اس کے بعد میں نے دہلی کے ایک مسیحی ادارہ کو ٹیلیفون کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ آج شام
نقشہ
کو ہماری لائبریری میں آجائیں۔ شام کو میں وہاں پہنچا تو انھوں نے دس انگریزی کتا بیں خاص اسی موضوع پر میرے حوالے کر دیں ––––– کتنا فرق ہے ایک میں اور دوسرے میں۔
مالدیپ کے لیے میرا دوسرا سفر دسمبر 1987 میں ہوا۔ یہ سفر دوبارہ ایک انٹرنیشنل اسلامک کا نفرنس میں شرکت کے لیے تھا جس کا اہتمام حکومت مالدیپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
5 دسمبر 1987 کی صبح کو فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہونا تھا ۔ 4 دسمبر کی شام کو مختلف کاموں میں دیر ہو گئی اور میں ساڑھے بارہ بجے سے پہلے بستر پر نہ جا سکا۔ سوتے وقت دل سے دعا نکلی کہ خدایا مجھے تین بجے جگا دیجئے۔ تاخیر کی وجہ سے نیند بھی کسی قدر دیر میں آئی۔ میں گہری نیند سو گیا ۔ بالکل بے خبر سو رہا تھا کہ خلافِ معمول اچانک نیند کھل گئی۔ دیکھا تو گھڑی کی ایک سوئی تین پر تھی اور دوسری سوئی بارہ پر۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ دل نے کہا کہ اللہ کی مدد ٹھیک اپنے وقت پر آتی ہے۔
اگر چہ انسان اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی مدد آنے والی نہیں۔
5 نومبر 1987 کی صبح کو انڈین ائیر لائنز کی فلائٹ نمبر 467 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ میرے پاس جو ریٹرن ٹکٹ ہے ، اس پر لکھا ہوا ہے : دہلی –– مالدیپ –– دہلی ۔ اس کو دیکھ کر خیال آیا کہ اسی طرح ہر آدمی کے پاس ایک اور ریٹرن ٹکٹ ہے۔ یہ دوسرا ٹکٹ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ مگر اس پر غیر تحریری زبان میں پختہ طور پر لکھا ہوا ہے : آخرت ––– دنیا ––– آخرت ۔ مجھے دہلی سے مالدیپ پہنچ کر وہاں چند دن قیام کرنا ہے اور پھر دوبارہ دہلی واپس آجانا ہے ۔ اسی طرح ہر آدمی جو یہاں ہے وہ آخرت سے دنیا میں آیا ہے ، اور دوبارہ اس کو یہاں سے آخرت کی طرف جانا ہے ۔ پہلی قسم کے سفر کو ہرشخص جانتا ہے، مگر دوسری قسم کے سفر کو جاننے والے اتنے کم ہیں کہ دور بین اور خورد بین سے تلاش کرنے پر بھی کہیں کوئی نہیں ملتا۔
ہوائی جہاز کے اعلانات میں ہمیشہ ایک ضروری اعلان سگرٹ نوشی کے بارے میں ہوتا ہے ––––– ٹوائلٹ میں اسموکنگ نہ کریں ، لینڈنگ کے وقت اسموکنگ نہ کریں ، وغیرہ ۔ اعلان کرنے والا سگریٹ نوشی کے بارے میں ہمیشہ "نہ کریں " والے مواقع کو بتاتا ہے ، وہ " کریں " والے موقع کا اعلان نہیں کرتا۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں " کریں " والی بات کہنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ تو آدمی بتائے بغیر کرے گا۔ ایسی چیزوں کیلے صرف" نہ کریں" والا پہلو یاد دلانےکی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے طبعی تقاضوں کے جوش میں وہ اس دوسرےپہلو کو بھول جاتا ہے ۔
جہاز میں مختلف اخباروں کے ساتھ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمس (5 نومبر1987)بھی تھا۔ میں نے اس کو کھولا تو درمیان کے صفحہ پر ایک مضمون تھا جس کا عنوان حسب ذیل الفاظ میں قائم کیاگیا تھا : "پنجاب پر ایک آشا وادی نظر" اڈیٹوریل کے عنوانات یہ تھے : واپسی لمبی ہوگی، عام آدمی کو انصاف ۔آجکل ہندی اخبارات میں جو زبان ہوتی ہے وہ سادہ اردو ہوتی ہے ۔ زیادہ بڑا فرق رسم الخط کا ہے۔ یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ ہندستان میں" اردو دانوں "کے لیے کبھی وہ چیزپیدا ہونے والی نہیں جس کو لینگویج گیپ کہا جاتا ہے۔ یعنی زبان کی دوری۔ اصل فرق رسم الخط کا ہوگا۔اور وہ کوئی زیادہ بڑا فرق نہیں۔
راقم الحروف نے ہندی صرف سات دن پڑھی ہے ، روزانہ ایک گھنٹہ کی رفتار سے۔ اعظم گڑھ کے زمانہ ٔقیام میں ایک کائستہ بھولیشور لال نے ایک ہفتہ ہمارے گھر پر آکر ہندی زبان پڑھائی تھی۔ اس سات گھنٹے کی تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ میں ہندی کے بڑے حروف (عنوان ، پوسٹر، نام ) بآسانی پڑھ لیتا ہوں ۔ اردو داں لوگ اگر صرف ہندی رسم الخط سیکھ لیں تو وہ کبھی ہندی علاقہ میں اجنبی نہیں ہوں گے۔
انڈین ائیرلائنز کے میگزین سواگت (دسمبر 1987) میں ایک مضمون لکا دیپ کے بارے میں تھا۔لکا دیپ جغرافی اعتبار سے بالکل مالدیپ کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ اگر چہ وہ ہندستانی ایڈ منسٹریشن کے تحت ہے۔ یہاں کے ایک حصہ میں مالد یپی زبان بولی جاتی ہے ۔ آبادی چالیس ہزار ہے جو سب کی سب مسلمان ہے ۔ 36 جزائر کا یہ مجموعہ صرف 32 مربع کلو میٹر کا رقبہ رکھتا ہے۔
مضمون نگار مسٹر پی ۔ کے ۔ ڈے مالدیپ گئے ۔ وہاں سمندر کے کنارے کے خوبصورت سیپ انھیں بہت پسند آئے اور انھوں نے بہت سے سیپ اپنے بیگ میں جمع کرلیے ۔ وہ لکھتے ہیں :
I managed to collect a bagful of sea shells of various shapes and hues. However, many of these I had to throw back as soon as it was discovered that inside these were nestling live hermit crabs!
وہ خوبصورت سیپ جن میں دنیا کے کیکڑے بیٹھے ہوئے ہوں ، ان کو ہر آدمی دیکھ لیتا ہے اور اپنے سے دور پھینک دیتا ہے ۔ مگر یہاں دوسرے بہت سے خوبصورت سیپ ہیں جن میں آخرت کے کیکڑے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان دوسری قسم کے کیکڑوں کو کوئی نہیں دیکھتا ۔ ان کو ہر آدمی اپنے بیگ میں محفوظ کئے ہوئے ہے۔ وہ ان کو صرف آخرت میں پھینکنا چاہے گا۔ مگر اس وقت کا پھینکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔
جہاز میں انگریزی اخبار دکن کرانیکل (5 دسمبر 1987) نظر سے گزرا ۔ اس کی ایک خبر کی سرخی تھی ––– معمولی جھگڑے پر موت :
Petty quarrel leads to death
خبر میں بتایا گیا تھا کہ حیدر آباد میں ایک شخص نے رات کے وقت کسی آدمی کا دروازہ کھٹکھٹا یاصاحب مکان کو اتنی رات میں دروازہ کھٹکھٹانا قابل اعتراض معلوم ہوا ۔ وہ آنے والے سے جھگڑ نے لگا۔ اب دوسرا شخص جو اس کا جاننے والا تھا اور سادہ طور پر صرف ملنے کے لیے آیا تھا۔ وہ بھی غصہ میں آکرلڑنے لگا ۔ یہاں تک کہ مارپیٹ کی نوبت آگئی اور ایک شخص شدید زخمی ہو کر ہلاک ہو گیا۔
بظاہر یہ دو جاہل آدمیوں کی کہانی ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی پوری ملت کی کہانی ہے ۔ آج تمام دنیا میں مسلمانوں کا حال یہی ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر لڑ جاتے ہیں اور لڑائی شروع ہونے کے بعد ان کی لڑائی دوبارہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک ان کے اندر لڑنے کی سکت ہی ختم نہ ہو جائے –––– عراق - ایران کی حکومتی جنگ سے لے کر بستیوں کی انفرادی مقدمہ بازی تک ہر جگہ مسلمانوں کا حال یہی ہے ۔
راستہ میں ہمارا جہاز کچھ دیر کے لیے کو چن اترا۔ 35 سال پہلے میں ایک بار چند دن کے لیے کو چن آیا تھا۔ اس وقت کی کئی باتیں ابھی تک مجھ کو یاد ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں کوچن سے راس کماری (کیپ کمورن ) گیا تھا۔ اس وقت یہاں تعمیرات نہیں ہوئی تھیں۔ ہندستان کے آخری ساحل پر بیٹھ کر دیر تک میں سمندر کے مناظر کو دیکھتا رہا۔ ساحل سے تقریباً نصف فرلانگ کے فاصلہ پر سمندر کے درمیان ایک چٹان تھی۔ اس سے سمندر کا پانی ٹکرا کر اچھلتا تھا تو عجیب منظر پیدا ہوتا تھا۔ سوامی ویویکا نند ہندستان کا سفر کرتے ہوئے یہاں آئے توانھوں نے سمندر میں چھلانگ لگادی ۔ وہ تیرتے ہوئے مذکورہ چٹان کے او پر پہنچے اور وہاں دھیان گیان کیا ۔ اب اس چٹان پر ان کے نام سے بہت بڑا سنٹر بنا یا گیا ہے ۔ تا ہم قدرت کا سابقہ منظراب وہاں موجود نہیں ۔
آتے اور جاتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جہاز گوا میں ٹھہرا۔ بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں ۔ گوا 1505 سے پرتگال کے قبضہ میں تھا۔ 1962 میں دوبارہ وہ ہندستان کے قبضہ میں آیا ۔ آزادی (1947) سے قبل ہندستان میں تین مغربی طاقتیں تھیں۔ زیادہ بڑے حصہ پر انگریز اور چند چھوٹے مقامات پر فرانسیسی اور پرتگالی ۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے بدلے ہوئے حالات کا اعتراف کرتے ہوئے پر امن طور پر اپنے زیر قبضہ علاقے خالی کر دیے ۔ مگر پرتگالی پرامن تخلیہ کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ ملک میں آزاد قومی حکومت کے قیام کے بعد جو اہرلال نہرو نے مسلسل یہ کوشش کی کہ پر تگالی پر امن طور پر اپنے علاقے کو آزاد کر دیں ۔ مگر وہ راضی نہیں ہوئے ۔ آخر کاردسمبر 1961 میں ہندستان نے فوجی کارروائی کر کے بزور گوا پر قبضہ کر لیا۔
اس سلسلہ میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے نہایت با معنی ٰبات لکھی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ نہرو کے فوجی قبضہ کے بعد مغربی ملکوں میں اس کے خلاف کافی شور و غل ہوا مگر تاریخ کی روشنی میں نہرو کا اقدام جائز تھا۔ برطانی اور فرانسیسی واپسی کے بعد ہندستان میں پر تگالی مقبوضات کی موجودگی ایک خلاف ِزمانہ حرکت تھی :
With the withdrawal of the British and the French, the Portuguese colonial presence in India became an anachronism (12/946).
حقیقت واقعہ کا اعتراف اگر آپ بخوشی نہ کریں تو بالآخر آپ کو حقیقت واقعہ کا اعتراف بجبر کر نا پڑے گا۔ اور دوسری صورت کے مقابلہ میں پہلی صورت یقینی طور پر زیادہ اہون ہے۔
تریو ندرم سے جہاز بدلنا تھا، اس لیے یہاں چند گھنٹے رکنا پڑا ۔ تریوند رم ریاستِ کیرلا کا دارالسلطنت ہے جو ساحل سمندر سے ایک میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ تریو ندرم کو پہلی بار 1745 میں اہمیت حاصل ہوئی جب کہ "راجہ مارتند اور ما"نے اس کو اپنی راجدھانی قرار دیا ۔ کیرلا یونیورسٹی یہیں قائم ہے۔ مشہور اور نیٹل کا نفرنس (1937) تریو ندرم ہی میں ہوئی تھی ۔ اس کے صدرڈاکٹر ٹامسF.F. Thomas) )تھے ۔ انھوں نے میکس مولر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انوکھی بات کہی تھی کہ سنسکرت اس ملک میں اتنی ہی عام ہے جتنا کہ قدیم یورپ میں لاتینی تھی۔ اور سنسکرت کی ایک ساده صورت (Simple form) کو پورے ملک کی مشترک زبان بنانے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ (ڈسکوری آف انڈیا ، صفحہ 127)
تریو ندرم جنوبی ساحل پر واقع ہے جہاں بحر عرب کی لہریں آکر ہندستان کی سرزمین سے ٹکراتی ہیں۔ اس علاقہ کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہاں اسلام عرب تاجروں کے ذریعہ آیا۔اس طرح یہاں کے لوگ اسلام سے اس خالص تعمیری پہلوکی حیثیت سے آشنا ہوئے جس کو پنڈت جواہر لال نہرو نے شاندار کلچر (Brilliant culture) سے تعبیر کیا ہے۔
عرب تاجروں کے غیر سیاسی اور تعمیری انداز نے لوگوں کو اسلام کا گرویدہ بنا دیا۔ نہ صرف عوام بلکہ راجے اور مہا راجے بھی اسلام سے شدید طور پر متاثر ہوئے ۔ کالی کٹ کے راجہ زمورن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عرب تاجروں کا سر پرست بن گیا۔ اور اپنی رعایا میں قبول اسلام کی حوصلہ افزائی کرنے لگا (پریچنگ آف اسلام ، 269 )
پروفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ سولھویں صدی کے آغاز میں موپلا نومسلم مالا بار کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ تھے ۔ اگر پرتگالی اس علاقہ میں نہ پہنچتے تو اس ساحل کے تمام لوگ مسلمان ہو جاتے۔ کیوں کہ وہ کثرت سے اسلام قبول کر رہے تھے اور مسلم تاجروں کا طبقہ ان کے اوپر نہایت گہرا اثرڈال رہا تھا (269)
ہندستان میں "ملک" ایک واحد جغرافی خطہ کا نام ہوتا ہے ۔ مگر جب آپ مالدیپ کی فضا میں پہنچ کر نیچے کی طرف نظر ڈالیں تو "ملک " کا تصور بالکل بدلا ہوا ہو گا۔ یہاں "ملک" ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے جو متفرق صورت میں سمندر کے اندر دور دور تک بکھرا ہوا ہو ۔ مالدیپ 1087 چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ ان کا مجموعی رقبہ 298 مربع کیلو میٹر ہے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے جزیرے سمندر میں تقریباً ساڑھے سات سو کیلو میٹر لمبائی اور تقریباً سوا سو کیلو میٹر چوڑائی میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف 219 جزیرے آباد ہیں جن میں یہاں کے تقریباً پونے دو لاکھ باشندے رہتے ہیں ۔ باقی جزیرے زیادہ تر جنگلات کی صورت میں ہیں۔ مالے (Male) نامی جزیرہ یہاں کا دارالسلطنت ہے۔ یہ جزیرہ صرف ایک میل چوڑا اور ڈیڑھ میل لمبا ہے۔
مالدیپ کے سابق وزیر اعظم مسٹر احمد ذکی مارچ 1974 میں ہندستان آئے تھے ۔ یہاں انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ "ان کا ملک چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹا ہوا ہے ، اس بنا پر رسل و رسائل (Communication) کی بہت دشواری ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے"۔ آزادی (1965) کے بعد مالدیپ نے اس میدان میں خصوصی توجہ دی۔ اب یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہو چکا ہے ۔ تمام آباد جزائر میں بندرگا ہیں بنی ہوئی ہیں۔ جدید طرز کی کشتیاں جزائر کو مربوط کرنے کے لیے ہر وقت سمندر میں دوڑتی رہتی ہیں۔ وائرلیس کا عمدہ نظام قائم ہے جسکی وجہ سے ایک لمحہ میں ایک جزیرہ اور دوسرے جزیرہ کے درمیان ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔
ان چیزوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ مالدیپ کے ذمہ دار اگر یہ مہم چلاتے کہ مالدیپ کے 1087 جزیروں کو ملا کر ایک کر دیا جائے تاکہ دوسرے ملکوں کی طرح ان کا ملک بھی ایک واحد زمینی خطہ بن جائے جس میں اس سرے سے اس سرے تک سڑکیں ہوں اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ریلیں دوڑتی ہوں ۔ اگر وہ ایسی مہم چلاتے تو وہ صرف ایک بے فائدہ لفظ بازی ہوتی جس کا موجودہ اسباب کی دنیا میں کوئی حاصل نہیں ۔ مگر انھوں نے اس قسم کی کوئی مہم نہیں چلائی ۔ اس کے برعکس انھوں نے صورت واقعہ کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے حسب ِحال اپنے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 25 سال کے اندر ان کا مسئلہ حل ہو گیا۔ جب کہ جزائر کی یکجائی کے لیے ان کی مطالباتی مہم 25 ہزار سال میں بھی کس نتیجہ پر پہنچنے والی نہیں تھی۔
اس دنیا میں کامیابی کی پہلی شرط حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ حقیقتِ واقعہ کے اعتراف کے بعد ہی کسی شخص یا قوم کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت واقعہ کا اعتراف نہ کریں، ان کا سفر ہی شروع نہیں ہوگا۔ اور جس سفر کا آغاز نہ ہوا ہو وہ سفر اختتام پر کیسے پہنچ سکتا ہے۔
5 دسمبر 1987 کی سہ پہر کو مالدیپ پہنچے ۔ یہاں کا خاص شہر اور دارالسلطنت مالے ہے۔ مالے سے کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا اور لمبا جزیرہ ہے۔ اس جزیرہ پر ہوائی اڈہ بنا ہوا ہے۔ اس جزیرہ کا رقبہ بس اتنا ہی ہے کہ وہ ایک اوسط درجہ کے ہوائی اڈہ کے طور پر استعمال ہو سکےاس کا طرز تعمیر عام ہوائی اڈوں سے مختلف ہے۔ وہ جس طرح فطری ماحول میں ہے، اسی طرح وہ فطری انداز میں بنایا گیا ہے اور نہایت خوبصورت ہے۔
ہوائی اڈہ اور مالے کے درمیان سمندر حائل ہے ۔ یہ فاصلہ جدید طرز کی موٹر بوٹ کے ذریعہ طے ہوا۔ یہ سفر اس درجہ پرکشش تھا کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک عرب شیخ بار بار "جمیل، جمیل" کہے جا رہے تھے۔ ہمارے پیچھے، ہوائی اڈہ پر جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا ، اور ہمارے سامنے مشینی کشتی سمندر کی موجوں کو پھاڑ تی ہوئی آگے چلی جارہی تھی ۔ چاروں طرف آفاقی مناظر اور حسین فطرت آدمی کو مبہوت کر رہے تھے۔ اس تجربہ کے زیر اثر میں ہوٹل کے کمرہ میں داخل ہوا تو وہاں دیوار پر ایک خوبصورت تصویر تھی جس میں سمندر کے پس منظر میں جزیرہ کو دکھایا گیا تھا۔ اس تصویر کے نیچے انگریزی میں یہ الفاظ لکھے ہوتے تھے :
A taste of paradise
میں نے سوچا کہ جس جنت کی دور کی ایک جھلک اتنی حسین ہو ، وہ جنت خود کتنی زیادہ حسین ہوگی ۔ بے اختیار یہ دعا نکلی کہ خدایا ، میرے پاس کوئی عمل نہیں جس سے میں جنت جیسی قیمتی چیز کا امیدوار بن سکوں دوسرے لوگوں کو آپ جنت بطور جزا دیں گے، مجھ کو جنت بطور عطیہ دے دیجئے۔
موٹر بوٹ سے اتر کر سڑک پر آئے تو وہاں سب سے پہلے جو چیز نظر کے سامنے تھی وہ ایک بڑا سا بینر تھا جس پر لکھا ہو اتھا : مرحبا بالعلماء المسلمين على أرض الإسلام(اسلام کی سرزمین پر مسلم علماء کا آنا مبارک ) یہ گویا پہلی تحریری علامت تھی کہ اب ہم اس منزل پر پہنچے گئے ہیں جہاں مذکورہ انٹر نیشنل اسلامک کانفرنس کا انعقاد ہونے والا ہے۔
پروفیسرٹی ڈبلیو آرنلڈ نے اپنی کتاب پر یچنگ آف اسلام میں مالدیپ کے تذکر ےکے ذیل میں لکھاہے کہ گمان غالب ہے کہ مالا بار کے راستہ سے اسلام مالدیپ میں پہنچا۔ اس جزیرے کے باشندے عرب اور ایرانی تاجروں کے ذریعے مسلمان ہوئے ۔ یہ تاجر ان علاقوں میں آباد ہوئے ۔ انھوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کیں اور اس طرح انھوں نے یہاں مؤثر تبلیغ کا راستہ ہموار کیا۔ اندازہ ہے کہ مالدیپ میں پہلا اسلام قبول کرنے والا شخص سلطان احمد شنورازہ تھا جو 1200ء کے قریب مسلمان ہوا۔ (صفحہ 273) کچھ مورخین کا خیال ہے کہ لگ بھگ 500ء میں سیلون سے کچھ بدھسٹ یہاں آکر آبادہوئے ۔ 12 ویں صدی عیسوی میں ان لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیا۔
جناب ابراہیم شہاب (اسپیکر) نے مالدیپ میں اسلام کے آغاز کی تاریخ کسی قدر مختلف انداز میں بتائی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے یہاں ایک راجہ شری بھونا دیت تھے۔ ان کے زمانے میں مغرب (افریقہ) سے ایک "ولی" ابو البرکات یوسف البربری یہاں آئے ۔ 548ھ میں ان کے ہاتھ پر راجہ مسلمان ہو گیا۔ اور اپنا نام محمد بن عبد اللہ رکھا۔ اس کے بعد تھوڑی مدت میں مالدیپ کے تمام باشندےمسلمان ہو گئے۔
جناب ابراہیم شہاب نے ایک اور عجیب بات یہ بتائی کہ سابق سلطان کا خاندان مالدیپ میں نئے حالات سے مکمل موافقت کر کے رہتا ہے۔ دوسرے باشندوں کی طرح اس کے افراد یا سروس میں ہیں یا تجارت میں۔ کسی شاہی خاندان کے لیے بدلے ہوئے حالات سے مطابقت کی یہ انوکھی مثال ہے جو غالباً یہاں کے سادہ فطری مزاج کی دین ہے۔
مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک قدیم زمانے میں ہمیشہ خطرہ کی حالت میں رہتے تھے کسی بھی صبح و شام کوئی بڑی طاقت آکر ان پر قبضہ کر سکتی تھی ۔ مثلاً پر تگالی 1558 میں آکر مالدیب پر قابض ہوگئے۔ ان کا قبضہ 1573 تک جاری رہا۔ سترہویں صدی عیسوی میں وہ ڈچ حکمرانوں کے ماتحت رہا۔ 1887 سے وہ برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نو آبادیاتی نظام کمزور ہوا تو 1965 میں اس کو برطانیہ سے آزادی حاصل ہوگئی ۔ 1968 سے مالدیپ میں مکمل جمہور یہ قائم ہے ۔ موجودہ دور میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ چھوٹی قومیں بھی اپنی آزاد حکومت قائم کر سکیں ۔ مالدیپ 1965 سے اقوام متحدہ کا ممبر ہے ۔ یہاں تقریباً 85 فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں ۔
مساوات اور قومی سالمیت اور انسانی آزادی کے احترام کا دور جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوا ہے اس کو عام طور پر لوگ اس جدید مغربی انقلاب سے منسوب کرتے ہیں جس کی ایک علامت اقوام متحدہ ہے۔ مگر خود جدید انقلاب اور اقوام متحدہ اس اسلامی انقلاب کی پیداوار ہیں جو چودہ سوسال پہلے پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے عالمی سطح پر پیدا کیا تھا۔
16 ویں صدی کے پرتگالی سیاح باربوسا (Duarte Barbosa) نے جنوبی ہند کا سفر کیا تھا ۔ وہ 1504 اور 1517 کے درمیان و جیا نگرم آیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مالدیپ میں جہاز سازی کی صنعت قائم تھی۔ اور جنوبی ہند کے لوگ اپنی ضرورت کے جہاز مالدیپ میں بنوایا کرتے تھے۔ وجیانگرم کے راجہ کے جہاز بھی مالدیپ سے بن کر آتے تھے۔
جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ سلطان ٹیپو کا باپ حیدر علی (1782 - 1722) نہایت عزم اور حوصلہ والا آدمی تھا۔ وہ ہندستان کی تاریخ میں ممتاز شخصیت کا مالک تھا۔ وہ پورے ملک کا لیڈر بننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ حیدر علی نے دوسروں سے بہت پہلے سمندری طاقت کا اندازہ کر لیا تھا اور یہ سمجھ گیا تھا کہ انگریزوں کی کامیابی کا اصل راز بحری طاقت میں ان کی برتری ہے۔ اس نے خود اپنا ایک بحری بیڑہ بنانا چاہا اور مالدیپ پر قبضہ کر کے اس کو جہاز سازی اور بحری سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی :
He started building his own navy and, capturing the Maldive Islands, made them his headquarters for ship building and naval activities (p. 275).
مالدیپ کے ساحل پر جب میں نے یورپ کی بنی ہوئی مشینی کشتیوں کی قطاریں دیکھیں تو میں نے کہا : روایتی جہاز سازی کے دور میں مالدیپ جہاز کا "تاجر" تھا ، مگر سائنسی جہاز سازی کے دور میں مالدیپ صرف "خریدار" بن کر رہ گیا۔ یہی موجودہ زمانے میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا حال ہے۔ مسلمان دورقدیم میں سب سے آگے تھے ، مگر دور جدید میں وہ سب سے پیچھے ہو گئے۔
یہاں میرا قیام نسن دُھرا پیلس ہوٹل کے کمرہ نمبر 108 میں تھا۔ یہ عین سمندر کے کنارے واقع ہے۔ ایک طرف ہوٹل کی عمارتوں کی صورت میں انسانی مصنوعات کا منظر ہے اور دوسری طرف سمندر کی لہروں اور پھیلے ہوئے آسمان کی صورت میں خدائی مصنوعات کا۔ ہوٹل اور سمندر کے درمیان صرف ایک سڑک حائل ہے۔ سمندر کا یہ منظر میرے لیے ہمیشہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ(45:13)کی تصویر ہوتا ہے ۔ ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کے مقابلہ میں سمندر ہیبت ناک حد تک بڑا ہے۔ مگر اس کی موجیں ساحل کو چھو کر اس طرح واپس چلی جاتی ہیں جیسے کہ ان کو ایک برتر حکم کے تحت پابند کر دیا گیا ہو کہ تمہاری حد یہاں ختم ہو گئی ، اس سے آگے تجاوز کرنے کی تمہیں اجازت نہیں۔
زندہ چیزوں میں ہا تھی اور غیر زندہ میں سمندر کا انسان کے لیے مسخر ہونا انتہائی عجیب ہے۔اگر چہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِکے دوسرے بے شمار پہلو ہیں جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہیں ۔ مگر ان کو جاننے کے لیے سائنسی معلومات کی ضرورت ہے لیکن ہاتھی اور سمندر کا مسخر ہونا ایسے کھلے ہوئے واقعات ہیں جن کو ایک عام آدمی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اور ان سے اپنےلیے سبق حاصل کر سکتا ہے۔
مالدیپ کو" سیاحوں کی جنت " کہا جاتا ہے ۔ یہاں کثرت سے مغربی ملکوں کے لوگ تفریح اور سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں سے یہاں میری گفتگو ہوئی۔ میرا عام تأثر یہ ہے کہ مسلمانوں میں اور مغربی اقوام میں ایک خاص فرق پایا جاتا ہے ۔ اگر آپ ایک مسلمان سے کسی موضوع پر گفتگو کریں تو اس کے لیے انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی خیالات سے الگ ہو کر آپ کی بات سن سکے ۔ وہ آپ کی بات کو اس طرح سنتا ہے جیسے کہ کب آپ کی بات ختم ہو اور وہ دوبارہ اپنے دماغ کا ٹیپ کھول دے۔
میں نے اپنے تجربہ میں بار بار یہ محسوس کیا ہے کہ اس معاملہ میں مغربی انسان کا حال بالکل مختلف ہے ۔ ذاتی طور پر وہ خواہ کوئی بھی خیال رکھتا ہو ، مگر جب آپ اس سے ایک بات کہیں تو وہ اپنے خیالات سے جدا ہو کر آپ کی بات کو سنے گا۔ ایسا معلوم ہو گا، جیسے کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ خالی الذہن ہو گیا ہے اور ہر دوسری چیز سے بالکل بے تعلق ہو کر آپ کے نقطہ ٔنظر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ بے حد اہم فرق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب سے بڑا سبب ہے جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو جمود کی حالت میں مبتلا کر دیا ہے ، اور مغربی قو میں مسلسل ترقی کی طرف اپنا سفر جاری کیے ہوتے ہیں۔
یہاں ایک پاکستانی افسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور اگست 1947 میں پاکستان منتقل ہو گئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ میرا ڈِس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ میں ایک اردو اسپیکنگ مہاجر ہوں ، اس لیے بڑی ترقیوں کے دروازے میرے لیے بند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمار اگر وہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بے حیثیت ہو رہا ہے ۔ ان کے الفاظ میں" ان مہاجرین کے اندر Nuisance value تو ہے ، مگر ان کے اندر Democratic value نہیں اس لیے وہ شور و غل تو کر سکتے ہیں، مگروہ ملک کے ڈھانچہ میں کوئی مؤثر تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتے" –––– جو لوگ" ہند و اکثریت" سے خائف ہو کر پاکستان چلے گئے تھے ، وہ دوبارہ خود "مسلم اکثریت " کا شکار ہو کر رہ گئے۔
یہ بات جومذ کورہ پاکستانی نے اپنے ملک کے بارے میں کہی، یہی ہندستان کے مسلمانوں کے بارے میں بھی درست ہے۔ یہاں کے مسلمان جلسے جلوس، تقریروں اور بیانوں کے ہنگامے تو دکھا رہے ہیں مگر وہ ملکی نظام پر اثر انداز نہیں ہو پاتے ۔ اور اس کی مشترک وجہ یہ ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں اور اسی کے ساتھ غیر منظم بھی۔ ان کے موجودہ طریق کار کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ صرف غوغائی گروہ Clamorous group کا لقب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کو اس کے بجائے " تخلیقی گروہ " بننا چاہیے ۔ انھیں احتجاج اور مطالبہ کے بجائے اپنی افادیت ثابت کر کے اس ملک میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہیے۔
ایک اور پاکستانی مسلمان نے بتایا کہ 1986 میں کراچی میں شیعہ سنی فساد کا سبب جلوس تھا۔ شیعہ حضرات نے ایک ایسے راستہ سے اپنا جلوس نکالا جس پر سنی حضرات کو اعتراض تھا۔ انھوں نے روٹ بدلنے پر اصرار کیا ۔ تا ہم روٹ میں تبدیلی نہ ہوسکی اور فساد ہو گیا۔ یہی کہانی ہندستان میں بھی بار بار دہرائی جارہی ہے۔ جلوس کے روٹ پر اعتراض کا سبب غالباً مسلمانوں کا بڑھا ہوا جذ بہ ٔفخر ہے۔ جلوس کو مسلمان شان و شوکت کا مظاہرہ سمجھتے ہیں ، اس لیے غیر قوم کے جلوس کا اپنے علاقہ سے گزرنا نہیں گوارا نہیں ہوتا ۔ مسلمانوں سے اگر جھوٹے فخر کی یہ نفسیات ختم ہو جائے تو جلوس جیسی چیزوں پر فساد برپا ہونے کا سلسلہ بھی یقیناً ختم ہو جائے گا۔
ڈاکٹر شیر چو دھری جنوبی افریقہ سے آئے تھے ۔ وہ اصلاً پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر اب افریقہ میں وہاں کے شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک گفتگو کے دوران بہت دل چسپ بات کہی ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی اصلاح کیسے ہو۔ کوئی شخص جب مسلمانوں کی اصلاح کے لیے نکلتا ہے ، تو خواہ وہ جدھر بھی نکلے ، فوراً راستہ میں ایک مردہ آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کا سفرو ہیں رک جاتا ہے (مردہ کھڑا ہونے سے ان کی مراد کیا تھی ، اس کی تشریح ناظرین خود کر سکتے ہیں )
مذکورہ اسلامی کانفرنس کا ایجنڈا (جدول الأعمال) حسب ذیل تھا :
عالمی اسلامی مسائل پر رپورٹ
اسلامی تعلیم کا جائزہ
مشکلات جو عالم اسلامی کو در پیش ہیں (المشاكل التي تواجه العالم الاسلامی)
دنیا میں مسلم اقلیتوں کی حالت(أوضاع الأقليات الإسلامية في العالم )
دعوت اسلامی میں مسلم عورت کا حصہ (دور المرأة المسلمة في الدعوة الإسلامية )
7 دسمبر سے 11 دسمبر تک ان موضوعات پر بحث و گفتگو جاری رہی ۔ اپنے عام طریقہ کے مطابق میں اس سفرنامہ میں رپورٹ کے انداز کی تفصیلات درج نہیں کروں گا ۔ میں صرف ان چند یا دوں کو پیش کروں گا جن میں کوئی سبق ہے اور جن میں عام لوگوں کے لیے غور و فکر کا سامان ملتا ہے ۔
کا نفرنس کا افتتاح 7 دسمبر 1987 کی صبح کو اسلامک سنٹر کے ہال میں کیا گیا۔ یہ وسیع اور خوبصورت اسلامک سنٹر ابھی حال میں مختلف اسلامی ملکوں کے تعاون سے تعمیر کیا گیا ہے۔ کارروائی کا آغاز مالدیپ کے ایک قاری کی قرأتِ قرآن سے ہوا ۔ قاری جب قرآن کی قرآت کر رہا تھا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ دنیا کے جس گوشہ میں بھی میں نے کسی شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا ہے ، اس کی زبان اور اس کا لہجہ ہمیشہ ٹھیک وہی ہوتا ہے جو یہاں اس چھوٹے سے جزیرےمیں مجھ کو سنائی دے رہا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چودہ سو سال پہلے ایک زندہ ٹیپ تیار کیا گیا تھا،یہ ٹیپ آج بھی اپنی اصل صورت میں محفوظ ہے اور اسی ابتدائی آواز میں ہر جگہ لوگوں کو خدا کا ابدی پیغام سنا رہا ہے ۔
مالدیپ کے صدر مامون عبد القیوم کے کلمات سے کانفرنس کی کارروائی شروع ہوئی۔انھوں نے اپنی عربی تقریر میں خصوصیت کے ساتھ باہمی اتفاق و اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا : لقد نسينا قول الله عز وجل (وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ (8:46) و نسينا قول رسوله الكريم ("لا تَبَاغَضُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَدَابَروا، وَلا تَقَاطَعُوا، وَكُونُوا عَبَّادَ اللهِ إِخْوَانًا،) (مسند أبي يعلى الموصلي،حدیث نمبر 3549)
میں نے سوچا کہ مسلمان کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خدا اور رسول کے کلام کی صورت میں ان کے پاس ایک ایسا مستند ہدایت نامہ موجود ہے جس کا حوالہ باہمی معاملات میں دیا جاسکتا ہو اور جس کےآگے تمام لوگوں کی گردنیں جھک جائیں ۔ اس کے باوجود کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا حال موجودہ زمانے میں ایسا ہو رہا ہے جیسے کہ ان کے پاس کوئی متفقہ فکری اور اعتقادی بنیاد ہی نہیں –––– کسی قوم کے افراد میں اگر بے حسی پیدا ہو جائے تو انتہائی قیمتی پیغام بھی اس کے لیے بے اثر ہو جاتاہے۔
مجھے جہاں کہیں بھی موقع ملا، میں نے دعوت کے پہلو پر زور دیا۔ ایک عرب مقرر نے اپنی تقریر میں کہا کہ کیف ندعوا غير المسلمين إلى الإسلام والمسلمون منهزمون أمام اعدائهم (ہم کیسے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دے سکتے ہیں جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے سامنے شکستہ اور مغلوب ہو رہے ہیں) میں نے کہا کہ قدیم مکہ میں مسلمان اپنے دشمنوں سے مغلوب تھے، اس کے باوجود انھوں نے ان کو دعوت دی اور کامیابی حاصل کی۔ تا تاری حملہ کے بعد مسلمان مغلوب ہو گئے تھے ، پھر بھی انھوں نے ان کو دعوت دی اور اسلامی دعوت کےذریعہ دوبارہ مسلم دنیا میں اسلام کی ایک نئی تاریخ ظہور میں آئی ۔
موجودہ زمانے میں مسلمان ہر دوسرے پر وگرام کو فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ مگر خالص اسلامی دعوت کا پروگرام ان کی سمجھ میں نہیں آتا ، اگر چہ اس کے حق میں کتنے ہی زیادہ دلائل پیش کر دیے جائیں ۔ دوسرے پروگراموں کی مسلسل ناکامی کے باوجود اس طریقہ کے بارے میں ان کا یقین ختم نہیں ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر" مسائل دنیا "کا غلبہ ہے ، ان کے اوپر" مسائل آخرت" کا غلبہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اور دنیوی نوعیت کے مسائل فوراً ہر شخص کی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ مگر ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے اوپر گواہ بنانا چاہتا ہے اور آخرت کی یہ گواہی وہ اسی وقت دے سکتے ہیں جب کہ اس سے پہلے دنیا میں انھوں نے دعوت الی اللہ کا کام کیا ہو۔
عام طور پر لوگ بڑے بڑے واقعات سے دل چسپی لیتے ہیں۔ اس کے برعکس مجھے ہمیشہ ان چیزوں سے دل چسپی ہوتی ہے جن کو لوگ معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ مثلاً بین اقوامی اجتماعات میں فوری ترجمہ کا انتظام ۔ یہ ایک عام اور معلوم بات ہے ۔ مگر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھ کو اتنا عظیم معلوم ہوتا ہے کہ شدتِ تاثر سے میرے جسم میں تھر تھری پیدا ہو جاتی ہے۔
ایک شخص عربی زبان میں تقریر کر رہا ہے ۔ عین اسی وقت اس کی تقریر انگریزی زبان میں منتقل کی جارہی ہے ۔ مثلاً ایک مقرر اپنی تقریر کے دوران ایک تجویز پیش کرتے ہوئےکہتا ہے : لذلك أنى أقترح ، عین اسی وقت مترجم کہتا ہے Therefore 1 propose اسی طرح مثلاً ایک شخص کی تقریر کے دوران دوسرا شخص مداخلت کرتے ہوئے کہتا ہے : Point of order عین اسی وقت مترجم کہتا ہے : نقطةُ نظام ۔ بظاہر یہ ایک انسانی واقعہ ہے مگر جب میرے سامنے یہ واقعہ گزرا تو وہ مجھے ایک خدائی کرشمہ معلوم ہونے لگا۔ میں نے سوچا کہ دو الگ الگ ذہنوں کے درمیان ایک انتہائی پیچیدہ معاملے میں انتہائی کامل مطابقت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ دونوں شخصیتوں کا خالق (بالفاظ دیگر منصوبہ ساز) ایک ہو ۔ اور دونوں کا منصوبہ ساز ایک ہستی کو مانتے ہی یہ ماننا بھی لازم ہو جاتا ہے کہ انسان کا خالق "شعور" ہے نہ کہ بے روح مادی اسباب کا اندھا تعامل۔
اسی طرح بڑی کانفرنسوں میں یہ منظر عام ہے کہ ٹیلی وژن کے آدمی مشینیں لیے ہوئے موجود ہیں اور لوگوں کی آوازیں اور ان کی حرکات ریکارڈ کر رہے ہیں ۔ 9 دسمبر کی رات کو میٹنگ چل رہی تھی۔ حسب معمول دو آدمی اپنی مشینوں کے ساتھ اپنی کارگزاری میں مصروف تھے۔ میں نے اس منظر کو دیکھا تو اچانک وہ میرے ذہن میں اس واقعہ میں مبدّل ہو گیا جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے : اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ (ق : 17) ایک منٹ کے لیے مجھے ایسا لگا جیسے واقعتاً ہمارے دونوں طرف فرشتے کھڑے ہوئے ہیں اورنہایت صحت کے ساتھ ہمارے قول و عمل کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔
ایک بزرگ (شیخ را شد فرحان ) نے کہا تھا کہ ہمیں سیاست سے الگ رہ کر صرف دعوت کے کام پر مرتکز رہنا چاہیے۔ اس پر ایک نوجوان نے پُر جوش طور پر کہا کہ اسلام صرف مذہب نہیں ، اسلام سیاست بھی ہے ۔ اس لیے ہم اپنے پروگراموں سے سیاست کو الگ نہیں کر سکتے۔ اس کے جواب میں دکتور اسکندر نے کہا : یہ صحیح ہے کہ اسلام دین اور سیاست دونوں ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ اسلام حکمت بھی ہے۔ اور حکمت کا تقاضا ہے کہ اس وقت ہم سیاسی مسائل سے الگ رہیں۔ ور نہ کوئی بھی کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ہم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کل کو لینےکی کوشش میں جزء کو بھی کھو دیں، حتیٰ کہ خود دعوت کو بھی۔
ایک عرب نوجوان نے پر جوش طور پر اس چیز کا ذکر کیا جس کو آجکل صحوة إسلامية ( اسلامی بیداری )کہا جاتا ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ صحوہ اسلامیہ نہیں ہے بلکہ صحوہ قومیہ ہے ۔ ان تحریکوں کے پیچھے رومانی جوش کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے منفی دھوم میں تو ضرور اضافہ کیا ہے۔ مگر ان کے ذریعہ اب تک کوئی مثبت انجام ظاہر نہ ہو سکا۔
اسلامی صحافت کے موضوع پر کلام کرتے ہوے ایک صاحب نے کہا جو لندن سے آئے تھے،کہ ہمارے نزدیک اسلامی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو معصوم فرض کرتے ہوئے صرف اغیار کو ظالم اور فاسد بتایا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف ہماری یہ "اسلامی صحافت"ہے ۔ دوسری طرف یہودی صحافت کا حال یہ ہے کہ میں یہودیوں کے بڑے بڑے اخبارات کو پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں ۔ میں نے پایا ہے کہ یہودی اخبارات میں کسی تحفظ کے بغیر یہودیوں کے درمیان پائی جانے والی خرابیوں کو بتا یا جاتا ہے اور کوئی یہودی اس کو بر انہیں مانتا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کی یہ شکایت اگر صحیح مان لی جائے کہ یہودی اور عیسائی اخبارات ہمیشہ مسلمانوں کی بری تصویر پیش کرتے ہیں تو عین یہی بات خود مسلم اخبارات بھی عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ مسلم صحافت سے اگر ہماری مراد مسلم وکالت ہے تو یہ بالکل بے فائدہ ہے۔ اس کے بر عکس مسلم صحافت کو بیانِ واقعہ پر مبنی ہونا چاہیے ۔ اس طرح ایک طرف ہم اپنے نقائص سے مطلع ہو کر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دے سکیں گے ۔ دوسری طرف ہمارے اخبار کو قارئین کے درمیان مقبولیت حاصل ہوگی ۔ وکیلانہ صحافت کو کبھی عمومی ریڈرشپ نہیں مل سکتی ، حتٰی کہ اس گروہ کے درمیان بھی نہیں جس کی وکالت کے لیے اسے جاری کیا گیا ہے ۔
سری لنکا سے ایک صاحب کا نفرنس میں شریک ہوئے ۔ انھوں نے ان مظالم کی تفصیل بیان کی جو اکتوبر - نومبر 1987 میں وہاں کے مسلمانوں کو پیش آئے اور جس کے نتیجے میں تقریباً پچاس ہزار آدمی اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے جو تفصیلات بیان کیں ، ان سے میں نے جو نتیجہ نکالا ، وہ یہ تھا کہ سری لنکا کے ایک علاقہ میں تامل باشندوں نے آزاد تامل اسٹیٹ کا مطالبہ کیا۔ اس علاقہ کے ایک مختصر حصہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ان مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ وہ تامل اسٹیٹ کےاندر کمزور اقلیت بن جائیں گے ۔ چنانچہ ان کے لیڈروں نے مطالبہ کیا کہ اس علاقے میں ایک "مسلم پر اونشیل" کونسل بنائی جائے جس کو اپنے اندرونی معاملات میں آزادی حاصل ہو ۔ اس مقصد کے لیے براہ راست یا بالواسطہ مطالبے اور مظاہرے شروع ہوئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سری لنکا کے مسلمان حکومت اور تامل ٹائیگرس دونوں کی نظر میں مشتبہ ہو گئے ۔ اسی سیاست کا نتیجہ ہے کہ جس سےآجکل سری لنکا کے ایک ملین سے زیادہ مسلمان دوچار ہیں۔
سری لنکا اور دوسرے بہت سے ملکوں (مثلاً برما ، فلپائن ، اریٹیریا وغیرہ ) میں آج کل مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرے نزدیک"تقسیم " کی سیاست کی توسیع ہے ۔ اس طریق کار کی نادرستگی خود اس ملک میں ثابت ہو چکی ہے جو تقسیم کی سیاست کے نتیجہ میں بناتھا۔ یہ منقسم ملک 1971 میں دو ملک میں تقسیم ہو گیا اور اب وہاں تقسیم کر انے والے لوگ دوبارہ ایک اور تقسیم (مہاجرصوبہ) کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس واضح ناکامی کے باوجود جو لوگ بدستور تقسیم کو اپنے مسئلہ کا حل سمجھیں اور اس کے لیے تحریک چلائیں ، ان کے متعلق کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بصیرت سے محروم ہیں۔ ان کو ماضی کا گزرا ہوا واقعہ بھی دکھائی نہیں دیتا، پھر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مستقبل کے آنے والے واقعہ کو دیکھ سکتے ہیں۔
"جمہوریت " بظاہر اچھی چیز ہے ۔ مگر جمہوریت کی صحیح کار کردگی کے لیے شعوری پختگی اور فکری انضباط نہایت ضروری ہے ورنہ جمہور یت بے فائدہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً اس کا نفرنس میں ایک موضوع خواتین کے دعوتی رول (دور المرأة المسلمة فى الدعوة الإسلامية)تها۔ اس موضوع کا آغاز ایک صاحب کی تقریر سے ہوا۔ ان کی تقریر عمومی نوعیت کی تھی ۔ چنانچہ فوراً ہی ایک صاحب نے کہا کہ یہ تقریر غیر متعلق ہے۔ کیوں کہ ایجنڈا کے مطابق موضوع "دعوت اسلامی میں مسلم عورت کا رول " ہے اور مقرر نے عمومی طور پر مسئلہ خواتین پر تقریر کی ہے۔ دوسرے صاحب نے کہا کہ "دعوت " کسی محدود چیز کا نام نہیں ۔ دعوت سے مراد تمام اسلامی سرگرمیاں ہیں ۔ ایک صاحب نے اپنی پُر جوش تقریر میں کہا کہ دعوت کا مطلب میرے نزدیک اسلام کا عملی پہلو (Practical aspect of Islam) ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کی بحثیں دیر تک ہوتی رہیں اور کوئی متعین اور مثبت چیز سامنے نہ آسکی۔
جمہوری اندازکی ہر میٹنگ یا کانفرنس میں میں نے یہی منظر دیکھا ہے۔ ہمارے لیڈر جو جمہوریت کی حمایت میں پر جوش تقریریں کرتے ہیں، انھیں اس سے پہلے لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ فکری انضباط کے ساتھ سوچنے کے قابل ہو سکیں ۔
مدرسہ کی تعلیم کے زمانے میں میرے ایک ساتھی محمد عبد الرشید برمی تھے ۔ وہ رنگون کے رہنے والے تھے ۔ اپنے ملک واپس جانے کے بعد انھوں نے "برمی مسلم آرگنا ئزیشن " کے نام سے ایک جماعت بنائی ۔ وہ اس کے صدر تھے ۔ یہ تنظیم برما میں بہت مقبول ہوئی ۔ وہ ایک اچھے مقرر تھے انھوں نے الکشن میں حصہ لیا ۔ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور اس کے بعد "لیبر اینڈ انڈسٹری" محکمہ کے وزیر مقرر ہوئے ۔ دوسرے ممالک سے برما کے تعلقات قائم کرنے میں انھوں نے اہم رول اداکیا اور ملک میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ۔
مالدیپ کی کا نفرنس میں برما کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ وہ عبد الرشید (ایم اے رشید) کے ساتھیوں میں سے تھے ۔ ان سے ان کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ انھوں نے بتا یا کہ 1962 میں جب برما میں فوجی حکومت قائم ہوئی اور اس نے منتخب حکومت کو ختم کر دیا توعبد الرشید صاحب کھل کر اس کے خلاف تنقیدیں کرنے لگے :
He used to criticise the government openly
چنانچہ حکومت ان کی مخالف ہوگئی ۔ آخر عبد الرشید صاحب پاکستان چلے گئے اور وہیں 1978 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ عبد الرشید صاحب نے اپنی وزارت کے زمانے میں علماء کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی نے قرآن کا ترجمہ برمی زبان میں کیا۔ تا ہم اس کے چھپنے سے پہلے عبد الرشید صاحب کی حکومت ختم ہوگئی ۔ بعد کو قرآن کا یہ ترجمہ خود موجودہ حکومت کے تعاون سے شائع ہوا ۔ موجودہ حکومت مسلم تنظیموں کو 65000چاٹ ( برمی سکہ ) سالانہ امداد دیتی ہے۔ اسی سے مذکورہ ترجمۂ قرآن شائع کیا گیاہے۔
میں نے کہا کہ عبد الرشید صاحب نے ختم ِحکومت کے بعد جوراستہ اختیار کیا ، وہ یہ تھا کہ نئی حکومت کے مخالف بن کر کھڑے ہوں اور بالآخر پاکستان جا کر خاموشی کے ساتھ فوت ہو جائیں اس کے بجائے اگر انھوں نے بدلے ہوئے حالات سے مطابقت کی روش اختیار کی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ ان کو نئے حالات میں دوبارہ مواقع کار مل جائیں جس طرح ان کے ترجمۂ قرآن کے کام کو نئی حکومت کے زمانے میں مواقع ملے۔ مذکورہ برمی مسلمان میری یہ بات سن کر خاموش ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ یہ طرز فکر ان کے لیے بالکل نیا ہے ۔
ایک صاحب جنوبی افریقہ سے آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اچھی انگریزی بولتے ہیں اور کافی معلومات رکھتے ہیں۔ میرے پاس گا ڈار ائزز (God Arises) کا ایک نسخہ تھا۔ میں نے واپسی کی شرط پر ان کو یہ کتاب دیکھنے کے لیے دی۔ اگلے دن انھوں نے بتایا کہ میں کتا بیں چوری کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ مگر آپ کی اس کتاب کو دیکھنے کے بعد اس کے بارے میں میری نیت خراب ہو گئی ہے۔ میں اس کو واپس کرنا نہیں چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی انگریزی اتنی اچھی ہے کہ میں نے بے شمار کتا بیں پڑھی ہیں مگر اب تک کسی دینی شخصیت کی کتاب میں مجھے ایسی انگریزی زبان نہیں ملی ۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے کیوں کر ایسی کتاب تیار کی۔ میں نے وہ کتاب ان کے حوالے کر دی ۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ علمی ذوق رکھتے ہیں اور کثرت سے مطالعہ کرتےرہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک اور کتاب انھیں دیدی جو" پرافٹ آف ریولیوشن "کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
"بغیر دیکھے میں جانتا ہوں آپ کو آپ کی کتابوں سے" یہ کہتے ہوئے ایک صاحب مجھ سے ملے۔ ان کے صاف اردو لہجہ پر مجھے تعجب ہوا۔ یہ جناب ابراہیم شہاب تھے جو مالدیپ کی اسمبلی میں اسپیکر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے جامعہ ملیہ (دہلی) میں اس وقت تعلیم حاصل کی ہے جب کہ جامعہ قرول باغ میں تھی ، پھر انھیں کے زمانے میں وہ اوکھلا منتقل ہو گئی۔
ملاقاتوں کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں بہت سے مرد اور عورتیں ہیں جو الرسالہ سے واقف ہیں یا اسلامی مرکز کی اردو یا عربی یا انگریزی کتا بیں پڑھی ہیں۔ ایک خاتون جو ایک مقامی اخبار سے منسلک ہیں ، انھوں نے بتایا کہ ہم نے الرسالہ کے کئی مضامین دو یہی زبان میں ترجمہ کر کے مقامی اخبارمیں شائع کئے ہیں ۔( مالدیپ کی مقامی زبان کا نام دو یہی ہے)
جناب عبد اللطیف صاحب کا تعلق ایجوکیشن منسٹری سے ہے ۔ انھوں نے بتا یا کہ مالدیپ میں بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے آپ کی کتا بیں (عربی یا انگریزی) پڑھی ہیں۔ ہم لوگ دینی علمی موضوعات میں آپ ہی کے افکار کا حوالہ دیتے ہیں، کیوں کہ وہ سائنٹفک انداز میں ہوتے ہیں۔ ان کو میں نےالرسالہ انگریزی (نومبر، دسمبر 1987) ایک ایک عدد دیا ۔ جناب عبد الحمید عبد الوہاب (ہائیکورٹ) کا خط مجھے دہلی میں ملا تھا، انھوں نے دو کتابوں کی فرمائش کی تھی۔ یہ کتا بیں میں اپنے ساتھ لایا تھا اور یہاں ان کے حوالہ کر دیا۔ یہ کتا بیں تھیں : خاتون اسلام اور گاڈا رائزز۔
ایک صاحب کناڈا سے آئے تھے۔ وہ کناڈا ہی میں پیدا ہوئے ، ان کی مادری زبان انگلش ہے۔ انھوں نے اعلیٰ مرحلہ تک کناڈا ہی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کو میں نے انگریزی الرسالہ دیکھنے کے لیے دیا۔ انھوں نے اسی دن سب پڑھ ڈالا۔ انھوں نے خاص طور پر" چھوٹے چھوٹے با معنیٰ مضامین " کو پسند کیا۔ میں نے الرسالہ کی زبان کے بارے میں ان کی رائے پوچھی ۔ انھوں نے کہا:
The articles were not written as translations from Urdu or Arabic into English, but as from English to English.
Haroon Salamat, P.O. Box 66
Station U, Toronto, ONT, Canada M8Z ITO
7 دسمبر 1987 کی شام کا کھانا ایک اور جزیرے پر رکھا گیا تھا۔ اس کو یہاں کی زبان میں کو رمبا گاؤں (Kurumba village) کہا جاتا ہے ۔ کانفرنس کے تمام شرکاء بڑی موٹر بوٹ کے ذریعہ مالے سے کور مبالے جائے گئے۔ اس جزیرہ پر سیاحوں کے لیے بہت بڑا ہوٹل بنایا گیا ہے ۔ اسی ہوٹل میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
جزیرہ مالے سے جزیرہ کو رمبا تک 20 منٹ کا راستہ ہے ۔ اس وقت سمندر میں کسی قدر تموج تھا، اس لیے موٹر بوٹ معمول سے زیادہ ہلنے لگی ۔ اس قسم کا تموج مہلک نہیں ، تاہم وہ انسان کے عجز کے مقابلہ میں سمندر کی طاقت کا تجربہ کرا تا ہے ۔ میں نے کہا کہ خدایا ، جس طرح آپ اتھاہ سمندر میں غرقابی سے بچاتے ہوئے میرا سفر طے کرا رہے ہیں ، اسی طرح معاندین کی سازشوں سے محفوظ رکھ کر اس مشن کوجاری رکھئے، جس کے لیے اٹھنے کی آپ نے اس عاجز اور حقیر بندے کو توفیق عطا فرمائی ہے۔
ایک روز کھانے کی میز پر میرے سامنے نئے حلیہ کے ایک آدمی تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ جاپانی ہیں۔ ان کا نام شوگو کٹا کور اہے۔ مالدیپ میں آجکل جاپان کی امداد کے تحت ٹیلیفون لگائے جارہے ہیں ، اس میں وہ بطور کنسلٹنٹ یہاں آئے ہیں۔ وہ ٹوکیو کے مضافات میں 17 جنوری 1930 کوپیدا ہوئے ۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے وقت مڈل اسکول کے طالب علم تھے۔
ان سے انگریزی میں گفتگو ہوئی ۔ میں نے کہا کہ جاپانیوں کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ عجیب چیز ان کی تبدیلی کی صلاحیت معلوم ہوتی ہے ۔ یہی ان کی ترقی کا راز ہے ۔ دوسری جنگ عظیم تک وہ بالکل جنگ جو قوم تھے ۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر اچانک وہ پر امن قوم بن کر تعلیم اور سائنس کے میدان میں سرگرم ہو گئے۔ جاپانیوں کی اس صلاحیت کا سر چشمہ کیا ہے۔
انھوں نے اس کا سبب جا پانی جغرافیہ کو قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ جاپان میں سال میں چار موسم ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں بار بار اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے۔ جاپان میں کثرت سے زلزلے اور طوفان آتے ہیں اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ہر وقت نئی صورت سے مطابقت کرنے کے لیے تیار ر ہیں۔ اسی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ جاپانی لوگ نئی باتوں کو جاننے کے لیے بے حد متجسس رہتے ہیں :
Japanese are very curious to know new things, new ideas
جاپانی قوم کی اس صلاحیت کا نتیجہ تھا کہ جنگ عظیم کی بربادی کے بعد ان کے اندر شدت سے نئی سوچ ابھری۔ انھوں نے سابقہ روش کو ترک کر کے نئے حالات کے مطابق دوسری روش اختیار کر لی۔ میں نےسوچا کہ یہ فرق بھی کتنا عجیب ہے۔ ایک قوم کے لیے اس کے "زلز لے" ترقی کا زینہ بن جاتے ہیں ، اور دوسری قوم کے "زلزلے"اس کو صرف فریاد و ماتم کی غذا دے رہے ہیں۔
مسٹر شو گو کٹا کور اسے دوسری بار 10 دسمبر کو ملاقات ہوئی تو میں نے خدا اور مذہب کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ۔ انھوں نے اپنا کارڈ دیا جس میں ان کا حسبِ ذیل پتہ لکھا ہوا تھا:
Shogo Katakura, 33, Udagawa-Cho, Shibuya-Ku
Tokyo 150, Japan. Phone 81-3-4622221
وہ پیدائشی طور پر بدھسٹ ہیں ۔ مگر خدا اور مذہب کے بارےمیں زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ زندگی بعد موت کے بارے میں مشتبہ ہیں ۔ میں نے کہا کہ ایک برطانی مصنف نے لکھا ہے کہ جاپان کی جدید نسل کے اندر میٹریلزم سے بے اعتمادی پیدا ہورہی ہے ، وہ کہہ رہے ہیں ہمارا کلچر تو صرف مرچنٹ کلچر ہے، زندگی کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ دوسری جنگ کے بعد جاپان میں زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی۔ کھانا اور کپڑا جیسا ضروری سامان بھی بہت کم ملتا تھا۔ چنانچہ جاپانیوں میں شدت سے کمانے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اب موجودہ جاپانی کے پاس سب کچھ با فراط موجود ہے تو اس کو احساس ہورہا ہے کہ صرف مادی ساز و سامان کافی نہیں۔ چنانچہ جاپان میں ایسے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ اور مادیت سے آگے کسی اور چیز کی تلاش کر رہے ہیں۔
جاپان کے لوگوں کو اسلام سے متعارف کیا جائے تو وہاں بہت تیزی سے اسلام پھیل سکتا ہے۔ مگر یہ کام صرف جاپانی زبان میں ممکن ہے کیوں کہ جاپان میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو جاپانی کے سوا کوئی اور زبان بخوبی جانتے ہوں ۔
ایک صاحب سے گفتگو کے دوران یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما اٹھے ، ان کے ساتھ اتنے زیادہ لوگ جمع ہوگئے جو کبھی کسی پیغمبر کے ساتھ بھی جمع نہیں ہوئے تھے ، حتیٰ کہ پیغمبر اسلام کےساتھ بھی نہیں۔ اس کا سبب کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ پیغمبر کی دعوت ہمیشہ داخل رخی ہوتی ہے اور موجودہ زمانے کےرہنماؤں کی دعوت خارج رخی تھی۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دونوں کے پیروں کی تعداد میں اتنا زیادہ فرق پیدا کر دیا ۔ اگر آپ ایسی تحریک اٹھائیں جس کی زد آدمی کی اپنی ذات پر پڑتی ہو، جو خود اپنے اندر تبدیلی کا تقاضا کرتی ہو تو آپ کو بہت کم ساتھ دینے والے ملیں گے، کیوں کہ احتساب خویش انسان کے لیے سب سے زیادہ مشکل چیز ہے ۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسی تحریک اٹھائیں جس کی زد دوسروں کے اوپر پڑتی ہو ، جس میں دوسروں کے خلاف جھنڈا اٹھانے کا موقع ملتا ہو تو آپ کے ساتھ بھیڑ کی بھیڑ جمع ہو جائے گی ۔ کیوں کہ احتساب غیر انسان کی محبوب ترین چیز ہے۔
دكتور حسن القوتلی (پیدائش 1931) لبنان سے آئے تھے ۔ کھانے کی میز پر ایک بار ان کا ساتھ ہو گیا ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں کے درمیان ایک مسئلہ پر کئی دن تک بحث ہوتی رہی۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ قرآن خدا کا مکمل کلام ہے یا جزئی کلام ۔ اس سوال کی بنیا د یہ تھی کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اگر تمام سمند درسیا ہی بنا دئے جائیں اور خدا کے کلمات لکھے جائیں تو سمندرختم ہو جائیں گے ، مگر خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے (الکہف: 109) گویا خدا کے کلمات غیر محدود ہیں جبکہ قرآن محدود کتاب ہے۔ اسی طرح قرآن میں ہے کہ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (40:60) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا کلام جاری ہے ، وہ ختم نہیں ہوا ۔
میں نے پوچھا کہ پھر آپ لوگوں نے کس رائے پر اتفاق کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ :إن كلام الله فى القرآن هو كلام الله بالمجمل ، أما كلامه بالتفصيل فهو موجود في الكون (قرآن میں اللہ کا کلام مجمل ہے ، اس کا تفصیلی کلام کا ئنات میں موجودہے)
اسی نشست میں ان سے لبنان کے حالات پر گفتگو ہوئی تو وہ فور اًلبنانی عیسائیوں کی شکایت کرنے لگے ۔ انھوں نے کہا کہ عیسائی ہم پر مسلسل ظلم کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو ہر قسم کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ قرآن کے بارے میں ایک غیر متعلق بحث میں آپ اور آپ کے ساتھیوں نے کئی دن صرف کر دیے ۔ مگر عیسائی مسئلہ کا جواب آپ نے قرآن میں تلاش نہیں کیا۔ حالانکہ وہ براہ راست آپ سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر میں نے آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، یہاں ہر آدمی کو آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر یہاں ہر ایک اپنے امکان کے بقدر استغلال میں لگا رہتاہے۔ لبنان کےعیسائی علم اور ثقافت کے میدان میں مسلمانوں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا استغلال کر رہے ہیں۔ اس کا حل شکایت اور فریاد نہیں۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترقی کے راستوں میں آگےبڑھایا جائے ۔ اس کے بعد یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
10 دسمبر کی شام کو مالدیپ کے صدر مامون عبد القیوم سے اجتماعی ملاقات ہوئی۔ وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانیں روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ وہ مطالعہ کا ذوق رکھتے ہیں اور انھوں نے میری عربی کتا بیں قاہرہ میں تعلیم کے زمانے میں پڑھی ہیں۔ مالدیپ کے وزیروں اور اعلیٰ عہدیداروں میں اکثر لوگ انگریزی کے ساتھ عربی زبان بھی بخوبی جانتے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا : "مالدیپ موجودہ زمانے میں واحدمسلم ملک ہے جہاں مولویوں کی حکومت ہے"۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات صرف جزئی طور پر صحیح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کا ہر مسلم حکمراں خواہ وہ بظاہر بے ریش ہو ، اندر سے وہ "مولوی " ہی تھا۔ مگر مسلم قائدین کی جھوٹی مخالفانہ سیاست نے ہر مولوی حکمراں کو مسٹر حکمراں بنا دیا۔
استاذ محمود احمد کفتا ر و (40 سال ) دمشق سے آئے تھے ۔ وہ وہاں مفید دینی کام کر رہے ہیں۔ دوسرے بہت سےمسلم نوجوانوں کی طرح ان کا انجام بھی یہ ہوسکتا تھا کہ جہاد کے نام پرحکمرانوں سے بے معنیٰ جنگ کریں اور پھر ناکام ہو کر دنیا کو یہ خبر دیں کہ یہ حکمراں اسلام اور اسلامی تحریکوں کے دشمن ہیں۔ مگران کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ایسا باپ ملا جو واقعی معنوں میں حکیم تھا۔ اس نے ان کو صحیح ترین مشورہ دیا۔ اور سعادت مند بیٹے نے اس مشورہ کو قبول کر لیا۔
دكتور الشيخ احمد كفتارو (المفتى العام للسورية ، رئيس المجلس الإفتاء الأعلیٰ )نے اپنے لائق بیٹے کو بتایا کہ کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے لازمی طور پر حکمت درکار ہوتی ہے۔ حکمت کے بغیر نہ دین کا کوئی کام کیا جاسکتا اور نہ دنیا کا۔ حکمت کیا ہے ، حکمت یہ ہے کہ مطلوب کام مطلوب وقت پر اور مطلوب شکل میں کیا جائے (الحكمة : فعل ما ينبغي ، في الوقت الذى ينبغي ، وعلى الشكل الذي ينبغي)
شیخ کفتار و کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے لازم ہے کہ ہمارا بنیادی کام دعوت کے میدان میں ہو ۔ ہم سیاسی لوگوں سے جھگڑا نہ کریں تاکہ دعوت اسلامی کے مواقع ضائع نہ ہو جائیں ( يجب أن يكون عملنا الأساسي فى ميدان الدعوة ولا نتناحر مع السياسين حتى لا تضيع على الدعوة الاسلامية الفرص)
شیخ کفتارو کے صاحبزادہ محمود احمد کفتارو کی زبان سے میں نے یہ باتیں سنیں تو میں نے کہا کہ بلاشبہ یہی حکیمانہ طریقہ ہے اور اسی کا نام اسلام ہے ۔ اس کے سوا جو کچھ آج اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے وہ محض بے معنیٰ لیڈری ہے جس کی کوئی قیمت نہ دین کے اعتبار سے ہے اور نہ دنیا کے اعتبار سے۔
ایک صاحب نے اپنی پر جوش تقریر میں کہا کہ غیر تنظیموں اور غیرمسلم حکومتوں میں ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ سب کے سب اسلام کے دشمن ہیں۔
All are enemies of Islam
میں نے کہا کہ آپ کا فرمانا ہے کہ سب اسلام دشمن ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ سب اسلام دوست ہیں ۔ آپ کی مشکل یہ ہے کہ آپ معاملہ کو اس کے ظاہری پہلو (Face value) پر دیکھ رہے ہیں۔ اور میں معاملہ کو اس کی حقیقت کے اعتبار سے دیکھ رہا ہوں ۔ یہ وہی فرق ہے جو خود پیغمبر کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ اس وقت عرب کے بیشتر لوگ پیغمبر کے سخت ترین مخالف بنے ہوئے تھے ۔ بظا ہرا یسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کے سب اسلام کے دشمن ہیں ۔ مگر بعد کو لوگوں نے دیکھا کہ حالات بدلے اور انھیں لوگوں نے اسلام کی صف میں شامل ہو کر سلام کی تاریخ بنائی۔ یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے ، بشرط یہ کہ ہم پیغمبر اسلام والے طریقہ پر چلنے کے لیے تیار ہوں۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑے جوش سے کہا : میں قرآن کو مانتا ہوں مگر میں حدیث کو نہیں مانتا۔ میں نے پوچھا کیوں ۔ انھوں نے کہا کہ حدیث میں ایسی ایسی باتیں ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں۔ میں نے کہا کوئی مثال دیجئے۔ انھوں نے مثال میں وہ حدیث پیش کی جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا کہ جاؤ لوگوں کو خوش خبری دے دو کہ جو شخص لا الٰہ الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی دے وہ جنت میں جائے گا۔ حضرت عمر راستہ میں مل گئے ۔ جب انھوں نے دیکھا کہ حضرت ابو ہریرہ اس طرح کہہ رہے ہیں تو ان کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا کہ ایسا مت کیجئے ، ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں گے (إذاً یتّکلوا ) آپ نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کر لیا۔
میں نے کہا کہ یہ حدیث انتہائی یا معنیٰ ہے ۔ اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ باعتبار حقیقت تھی۔ مگر حضرت عمر کو اندیشہ ہوا کہ لوگ اس کو باعتبار الفاظ لے لیں گے اور محض تلفظ ِکلمہ کو جنت کا زینہ سمجھنے لگیں گے ۔ حالانکہ اصل چیز حقیقتِ کلمہ ہے نہ کہ تلفظِ کلمہ ۔ یہ عین وہی بات ہے جو خود قرآن میں ساتویں پارے کے شروع میں بیان ہوتی ہے۔
10 دسمبر کو دن کا کھانا حکومت مالدیپ کی طرف سے جزیرہ بانڈوس (Bandos) پر تھا۔ دو موٹر بوٹ کے ذریعہ کا نفرنس کے شرکاء جزیرہ پر پہنچائے گئے۔ یہ سفر دن میں ہوا ۔ اس لیے جسمانی سفر کے ساتھ روحانی سفر کی منازل بھی خدا کی توفیق سے طے ہوتی رہیں۔
مالدیپ کی اقتصادیات کا انحصار ، مچھلی کے بعد "ٹورسٹ انڈسٹری " پر ہے ۔ اس لیے یہاں کی ہر چیز سیاحت رخی انداز میں بنائی گئی ہے۔ بانڈوس جزیرہ پر بھی سیاحوں کے ذوق کےمطابق ایک ہوٹل بنایا گیا ہے۔ اسی ہوٹل میں دو پہر کا کھانا کھایا گیا۔
کھانے سے فراغت کے بعد سمندر کے کنارے میں ایک "چھتری" کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے سامنے ساحل تھا اور ساحل پر مغربی مرد اور عورتیں نیم برہنہ حالت میں تفریح میں مشغول تھے۔ میں نے سوچا کہ مغربی تقسیم کے مطابق سامان حیات کے تین درجے ہیں : ضرورت ، راحت ، تعیش۔ جدید انقلاب نے مغربی انسان کو موقع دیا کہ وہ ایک کے بعد ایک ان تینوں مراحل سے گزر سکے ۔ مگر تعیش کے اعلیٰ مرحلہ پر پہنچنے کے بعد بھی اس کو تسکین نہیں ملی۔ چنانچہ اب مغربی انسان اباحیت کا تجربہ کر رہا ۔ یہ اس کی زندگی کا آخری مرحلہ ہے، اس کے بعد کوئی اور مرحلہ نہیں۔ اس کے بعد جو مرحلہ ہے وہ صرف مایوسی کا مرحلہ ہے۔ مغربی زندگی میں اس مرحلہ کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس طرح اب وہ آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان کو خدا کے سچے دین کا پیغام پہنچایا جائے اوروہ اس کو اپنے اندرونی اضطراب کا جواب پا کر اسے قبول کرلے۔
11 دسمبر کو جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز اسلامک سنٹر کی مسجد میں ادا کی ۔ یہ سنٹر غالباً مالدیپ کی سب سے زیادہ شاندار عمارت ہے۔ کم از کم صدر مالدیپ کی قیام گاہ سے یقینی طور پر زیادہ شاندار۔ نماز سے فراغت کے بعد جب باہر آئے تو امام کے خطبہ کی فوٹو کا پیاں لوگوں کو تقسیم کی جارہی تھیں ۔ امام اپنا خطبہ عربی اور مالد یپی میں پہلے سے لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی فوٹو کاپی تیارکر لی جاتی ہے اور اس کو نماز کے بعد تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایسا ہر جمعہ کو کیا جاتا ہے۔
پہلے دن جب میں مالدیپ میں داخل ہوا تو یہاں کی دنیا مجھ کو بہت پُرکشش معلوم ہوئی تھی۔ اتھاہ سمندر کے درمیان جگہ جگہ ابھری ہوئی خشکی اور اس کے اوپر ہرے بھرے درخت ، سمندر میں ہر طرف دوڑتی ہوئی کشتیاں، چاروں طرف کھلی ہوئی فضا اور کھلا آسمان ، اس طرح کے مختلف مناظر جو یہاں افراط کے ساتھ موجود ہیں وہ کچھ دیر کے لیے آدمی کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں مگر چند ہی دن کے بعد وہ کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جس کو آجکل کی زبان میں بور ڈم Boredom کہا جاتا ہے۔ چنانچہ 12 دسمبر 1987 کو جب میں مالدیپ سے روانہ ہوا تو تمام ابتدائی کشش ختم ہو چکی تھی۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے لامحدود دنیا چا ہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ محدود دنیا اس کے لیے مستقل خوشی کا سبب نہیں بنتی۔ ابدی مسرت صرف ان انسانوں کے لیےمقدر ہے جن کو اللہ اپنی رحمت خاص سے آخرت کی ابدی جنتوں میں داخل کر دے۔
اس سفر کا ایک عجیب واقعہ وہ ہے جو واپسی میں تریو ندرم انٹرنیشنل ایر پورٹ پر گزرا۔ دہلی کا جہاز لینے کے لیے دوبارہ مجھے یہاں اترنا تھا۔ ایمگریشن سے فارغ ہو کر اندر داخل ہوا تو کسٹم کا ونٹر سامنے تھا جہاں لوگوں کے بکس اور بنڈل کھول کھول کر دیکھے جا رہے تھے۔ چونکہ میرے پاس کوئی کسٹم والی چیز نہیں تھی، میں نے چاہا کہ میں سیدھا گیٹ پر چلا جاؤں ۔ مگر پولیس کے آدمی نے مجھے روک دیا اور کہا کہ پیچھے جاکر لائن میں کھڑے ہو جائیے۔ یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کیوں کہ میں سب سے پیچھے تھا اور لمبی لائن میں مجھے گھنٹوں تک کھڑارہ کر انتظار کرنا پڑتا ۔ اتنے میں کسٹم کے ایک آدمی نے شاید میرا "مولویانہ" حلیہ دیکھ کر خود ہی مجھ کو بلایا ۔ اس نے پوچھا کہاں سے آرہے ہیں۔ میں نے کہا کہ مالدیپ سے کس لیے گئے تھے۔ میں نے دوبارہ کہا اسلامی کا نفرنس میں شرکت کے لیے ۔اس نے چک کئے بغیر کہا کہ جائیے۔
دوسرا شدید تر مر حلہ یہ تھا کہ میری دہلی کی فلائٹ اگلے دن تھی ۔ چنانچہ مجھے تقریباً 24 گھنٹے تریو ندرم میں رکنا تھا، راستہ میں میں نے بعض مسافروں سے پوچھا کہ کیا یہاں انڈین ایر لائنز کی طرف سے ٹرانزٹ پسنجر کو ٹھہرانے کا انتظام ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں باہر نکل کر لاونج میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ رات کے وقت اس نامعلوم جگہ پر کہاں جاؤں ۔ اتنے میں ایک پتلون پوش ادھیڑ عمر کے آدمی آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ایک ٹرانزٹ پسنجر ہوں ۔۔۔۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے کہا : اپنا بیگ اٹھا لیجئے اور میرے ساتھ آیئے۔ وہ مجھ کو ایر پورٹ کے ایک افسر کے پاس لے گئے اور اس کو میرا معاملہ بتایا :
K.V. Thimothy, Station Duty Officer
Air Customs, International Airport, Trivandrum.
مذکورہ افسر نے کہا کہ یہ میری ڈیوٹی تو نہیں ہے۔ مگر میں ہوٹل لوسیا کانٹی نینٹل (Luciya Continental) کو ٹیلی فون کر کے پتہ کرتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے فورا ً ہی ہوٹل کے منیجر سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر مجھ سے کہا کہ آپ وہاں چلے جائیں ۔ آپ کا کمرہ ، کھانا ،ٹیکسی کا کرایہ سب انڈین ائیر لائنز کے ذمہ ہو گا۔ مزید انھوں نے پولیس کے ایک آدمی کو میرے ساتھ کر دیا اور اس سے کہا کہ ان کو لے جا کر ٹیکسی پر بٹھاؤ اور ٹیکسی کا نمبر نوٹ کرلو۔ اس میں اتنا اور اضافہ کر لیجئے کہ مذکورہ افسر نے نہ میرا پاسپورٹ مانگا اور نہ میرا ٹکٹ دیکھا۔ اس نے صرف میرے زبانی بیان پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پوری کارروائی کی۔
میں نے سوچا کہ جس ملک میں اتنے شریف انسان بستے ہوں ، وہاں چند استثنائی واقعات کو لے کر سارے ملک میں ہندومسلم مسئلہ کھڑا کر ناکتنا بڑا جرم ہے۔ اور افسوس کہ اس ملک کی مسلم قیادت اسی مجرمانہ کام میں پچھلے پچاس برس سے مبتلا ہے۔ اس کو نہ قرآن کی آیتیں اس بے معنی کام سے روکنے والی ثابت ہو رہی ہیں اور نہ مسلمانوں کے حق میں اس پالیسی کے اندوہناک نتائج ۔
ہوٹل لوسیا کانٹی نینٹل کا کمرہ نمبر 316 ہے۔ میں رات کے وقت سویا ہوا ہوں۔ نیند کھلتی ہےتو میں وقت جاننا چاہتا ہوں۔ اپنی گھڑی کے بارے میں مجھے کچھ شبہ ہوتا ہے۔ میں ٹیلیفون کا ریسیور اٹھا تا ہوں ۔ اس کے بعد میرے اور ریسپشن کے آدمی کے درمیان مختصر گفتگو ہوتی ہے جو حسبِ ذیل ہے :
Good Morning, Sir
Good Morning, Time please.
Three, thirty
Thank you
یہ ایک سادہ سی بات ہے جو ہر ایک کے ساتھ پیش آتی ہے ۔ مگر جب 13 دسمبر کی رات کو اس اجنبی جگہ پر میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا تو اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کہ وہ اس آیت کی عملی تفسیر ہو : وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (البقرہ :186) اس دنیا کے محسوس واقعات غیر محسوس حقیقتوں کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ مگر اس کو وہی شخص جان سکتا ہے جو اس پر کان لگائے اور خالی الذہن ہو کر اس کو سننے کے لیے تیار ہو ۔
لوسیا ہوٹل میں گیڈ ینس (Gideon’s) کی بائبل رکھی ہوئی تھی ۔ یہ با ئبل تمام دنیا کے ہوٹلوں میں مفت رکھی جاتی ہے ۔ بائبل کے اس نسخہ میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی چھپا ہوا تھا کہ اگر آپ اس علاقہ میں گیڈ ینس سے ربط قائم کرنا چاہتے ہیں تو براہ کرم مقامی ٹیلیفون ڈائرکٹری سے معلوم کیجئے:
If you desire to contact Gideon’s in this area, please consult the local telephone directory.
موجودہ زمانے میں بے شمار نئے امکانات پیدا ہوئے ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے شہروں میں جدید طرز کے ہوٹل بنے ہوتے ہیں جن میں بے شمار انسانی قافلے ٹھرتے ہیں۔ ہر جگہ ٹیلی فون کا نظام قائم ہے اور ڈائرکٹریاں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ ان ذرائع نے کسی فکر کی اشاعت کا زبردست نیا امکان پیدا کر دیا تھا ۔ مگر ہمارے رہنماؤں نے بے معنیٰ لڑائیوں میں پورا ایک دور ضائع کر دیا ۔ جدید ذرائع میں سے کسی ذریعہ کو بھی وہ دین خداوندی کی اشاعت کے لیے استعمال نہ کر سکے ۔
بائبل کے اس نسخہ کے شروع میں درج تھا کہ بائبل (3:16John) میں ایک جملہ ہے جس کوگیارہ سو سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ مذکورہ نسخہ میں چند درجن زبانوں کے ترجمے نقل کیے گئے تھے ۔ اس کا عربی ترجمہ ان الفاظ میں درج کیا گیا تھا :
أَنَّهُ هكَذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَالَمَ حَتَّى بَذَلَ ابْنَهُ الْوَحِيدَ، لِكَيْ لاَ يَهْلِكَ كُلُّ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ، بَلْ تَكُونُ لَهُ الْحَيَاةُ الأَبَدِيَّةُ." (يوحنا 3: 16).
ابنیت مسیح کا یہ عقیدہ چرچ کے مطابق ، مسیحی مذہب کا اہم ترین عقیدہ ہے ۔ بلکہ اسی عقیدہ پر موجودہ مسیحیت قائم ہے۔ مگر چرچ کے نزدیک وہ جتنا اہم ہے، عام انسان کو وہ اتنا ہی زیادہ غیر اہم معلوم ہوتا ہے ۔ اس کا ایک مظاہرہ خود بائبل کے اس نسخہ میں موجود تھا۔ جو لوسیا ہو ٹل میں رکھا ہوا تھا ۔ اس کو میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس کے آخری صفحہ پر ایک جملہ درج تھا ۔ یہ کسی مسافر کا تاثر تھا جو اس نے "مقدس کتاب" کے آخر میں ثبت کیا تھا ۔ اگر چہ وہاں مسافر کا نام نہیں تھا۔تاہم اس کا فقرہ بہت با معنیٰ تھا۔ اس نے اپنے قلم سے لکھا تھا :
Man is only a personality. Nothing beyond that.
یعنی آدمی صرف ایک شخصیت ہے، اس کے آگے اور کچھ نہیں۔ موجودہ مسیحی مذہب کی بنیاد الوہیتِ مسیح کے عقیدہ پر قائم ہے مگر انسان کی عقل میں کسی طرح یہ بات نہیں آتی کہ ایک شخص جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہواوہ خدا یا خدا کا بیٹا تھا –––– اگر آپ مسیحیت کو مانیں تو آپ کو عقل سے دست بردار ہوناپڑتا ہے اور اگر عقل کو مانیں تو مسیحیت سے ۔
تریو ندرم سے واپسی میں ایر پورٹ پر اٹلی کے ایک سیاح سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام اسٹفانو گرافینی (Stefano Garaffini) بتایا۔ وہ اٹلی کے شہر فرینز (Firenze) کے رہنے والے ہیں۔ چھٹی میں اپنی بیوی کے ساتھ سیاحت کے لیے نکلے ہیں۔ ابتدائی تعارف کے بعد میں ان سے اس طرح کے سوالات کرتا رہا : کیا آپ خدا کو مانتے ہیں، کیا آپ مذہب میں عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ان سے گفتگو کے بعد خیال آیا کہ ہمارے پاس ایک چھپا ہوا دو ورقہ ہونا چاہیے ۔ جو اس طرح کے لوگوں کو فوری مطالعہ کے لیے دیا جاسکے ۔ اس میں مختصر اور واضح انداز میں اسلام کا تعارف کیا گیا ہو۔ ان شاء اللہ مرکز کی طرف سے اس قسم کا دو ورقہ چھاپنے کی کوشش کی جائے گی۔
13 دسمبر کو تر یو ندرم ایئر پورٹ پر تین ہندو نوجوانوں سے ملاقات ہوئی ۔ ان کے "لیڈر" سنجیو بھار گو اتھے جو نئی دہلی میں انڈین ایر لائنز کالونی میں رہتے ہیں۔ ان سے بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔ یہ لوگ مکمل طور پر ہندؤوں کی نئی نسل کے نمائندہ تھے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ میرے نزدیک یہ تھا کہ ہندو نوجوانوں کا بگاڑ محض وقتی ہے نہ کہ دائمی اور ابدی ۔ سنجیو بھار گوانے کہا کہ ایک سادہ مثال لیجئے۔ ایک شخص بس میں سفر کر رہا ہے۔ اس کے پاس ایک روپیہ کا پھٹا ہوا نوٹ ہے۔ اگر وہ اس نوٹ کو فولڈ کر کے بس کنڈکٹر کو دے تو وہ اس کو لے لے گا۔ اور اگر وہ اسی نوٹ کو دکھا کر دے تو کنڈکٹر کبھی بھی نہیں لے گا اور اس کو بس سے اتار دے گا۔ یہ تجربات ہیں جو جدید نسل کو بگاڑرہے ہیں ۔
سنجیو بھا ر گوا نے کہا کہ میری ایج کے ہر آدمی کا نیچر یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط کو غلط سمجھتا ہے اور اس سے لڑنا چاہتا ہے ۔ مگر جیسے جیسے اس کا تجربہ بڑھتا ہے ، وہ دیکھتا ہے کہ غلط کو غلط بتانے میں وہ خود غلط ہورہا ہے تو اب اس میں ایک تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔ نیچر کی سطح پر درست ہونے کے باوجود او پر کی سطح پر وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے ۔ ان کی تقسیم کے مطابق ، جدید بھارتی نوجوان کے تین دورہیں –––– نیچر ، فرسٹریشن ، چینج۔
جدید ہندستانی نوجوان کی جارحیت جس کے خلاف ہمارے لیڈر فریاد کرتے رہتے ہیں ، وہ محض اوپری بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ اپنے اندر اب بھی وہ وہی فطرت لیے ہوئے ہے جو خدا نے ہر ایک کے اندر پیدا کی ہے۔ اگر ہم حکمت اور اخلاق کے ذریعہ اس کی اندرونی ونی فطرت کو جگا سکیں تو یہاں بھی وہی واقعہ ظہور میں آئے گا جس کو قرآن نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ۔۔۔۔ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰم السجدة :34)
واپسی کے بعد کا نفرنس کے شرکاء میں سے ایک صاحب سے دہلی میں ملاقات ہوئی ۔ یہ ڈاکٹر عبد الحکیم طبیبی ہیں۔ وہ افغانی ہیں اور آجکل سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں۔ وہ سید جمال الدین افغانی سے بہت متاثر ہیں اور ان کے تاریخی ماہنامہ العروة الوثقی کو اسی نام سے عربی اور انگریزی میں جنیوا سےنکال رہے ہیں۔
کا نفرنس کے بعد وہ ایک ضرورت کے تحت دہلی آئے اور ہمارے مرکز اور ہمارے کام کو بھی یہاں آکر دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ یہاں جو کام کر رہے ہیں وہ اتنا اہم ہے کہ اس کے مقابلہ میں کسی" انٹرنیشنل کانفرنس "میں شرکت کی کوئی اہمیت نہیں۔
میں نے کہا کہ مجھے اس قسم کی کانفرنسوں میں شرکت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بعض اوقات وہ مجھے اوقات کا کم تر مصرف معلوم ہوتی ہیں۔ تاہم ایک فائدہ ہے جس کی وجہ سے میں ان کا نفرنسوں میں جاتا ہوں۔ اور وہ تجربہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ممالک کا سفر اور بین اقوامی کا نفرنسوں میں شرکت سے جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ دفتر میں یالا ئبریری میں بیٹھ کر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر میں بیرونی ممالک کا سفر کرتا ہوں ۔ میرے یہ تجربات "سفرنامہ" کی صورت میں الرسالہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر وہ اردو زبان میں ہوتے ہیں ، اس لیے آپ جیسے لوگ ان کو پڑھ نہیں سکتے۔ تاہم اب انگریزی الرسالہ میں بھی سفرناموں کا خلاصہ شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔