وہ نہیں دیکھتے
وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔(الاعراف :198)
اور (اے پیغمبر) اگر تم ان (مشرکین )کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ نہیں سنیں گے ۔ اور تم کو نظرآتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں ، اور وہ (تم کو) نہیں دیکھتے ۔
اس آیت میں ضمیر غائب اہل کفر و شرک کی طرف راجع ہے اور ضمیر مخاطب کا رخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے ۔ حضرت حسن نے آیت کی تشریح اسی کے مطابق کی ہے :
قَالَ الْحَسَنُ:معنى الآية إِنْ تَدْعُوهُمْ يَعْنِي: الْمُشْرِكِينَ اِلى الاِسلامِ لَا يَسْمَعُوا أى لَا يَعْقِلُوا ذَلِكَ بِقُلُوبِهِمْ وَتَرَاهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ بِأَعْيُنِهِمْ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ بِقُلُوبِهِمْ.(التفسیر المظہری ، المجلد الثالث ، صفحہ 445)
حسن نے کہا، آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مشرکین کو اسلام کی طرف بلاؤ تو وہ نہیں سنیں گے۔ یعنی وہ اس کو دل سے نہیں سمجھتے۔ تم دیکھتے ہوکہ وہ اپنی آنکھوں سے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر وہ اپنے قلوب سے نہیں دیکھتے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے بظاہر انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اس وقت آپ کے نام کے ساتھ وہ تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں جو آج جمع ہو چکی ہیں اور جن کی وجہ سے آج ہر آدمی آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اس وقت آپ کو پہچاننے کے لیے اندرونی جو ہر کو دیکھنے والی نگاہ درکار تھی۔ چنا نچہ جن لوگوں کے پاس یہ نگاہ تھی انھوں نے اسی وقت آپ کو پہچان لیا اور آپ کے ساتھی بن گئے ، مگر جو لوگ اس قسم کی نگاہ سے محروم تھے وہ آپ کو پہچان نہ سکے اور آپ کے منکر بن گئے ۔
ایک ہے ظاہری رونقوں کی بنیاد پر کسی کو جاننا۔ دوسرا ہے ، اندرونی جو ہر کی بنیاد پر کسی کا قدر داں بننا ۔ جو لوگ صرف ظاہری چیزوں کو دیکھ سکتے ہوں وہ ایسے کسی انسان کی قدردانی نہیں کر سکتے جو باطنی حقیقتوں کا خزانہ اپنے اندر لیے ہوئے ہو۔ وہ بظاہر اسے دیکھیں گے مگر وہ اس کو پہچاننے والے نہیں بنیں گے ۔