ایمانی کردار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے کی بات ہے ۔ لوگ نماز کے لیے مسجد میں اکٹھا تھے۔جماعت کا وقت ہو گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیماری کی شدت کی وجہ سے حجرہ سے باہر تشریف نہ لا سکے ۔ اس وقت حضرت ابو بکر بھی مسجد میں موجود نہ تھے ۔ چنانچہ عبداللہ بن زمعہ اور دوسرے لوگوں نے اصرار کر کے حضرت عمر کو امامت کے لیے آگے کر دیا۔
حضرت عمر نہایت بلند آواز تھے۔ جب انھوں نے "اللہ اکبر" کہہ کر نماز شروع کی تو ان کی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ تک پہنچ گئی۔ آپ نے سن کر فرمایا : ابو بکر کہاں ہیں۔ اللہ اور مسلمان اس پر راضی نہیں، (این ابوبكر، یأبی الله ذلك والمسلمون ) اس کے بعد آپ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابو بکر بلائے گئے ، اور حضرت عمر کے بجائے انھوں نے نماز پڑھائی۔
جس وقت یہ واقعہ ہوا ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے حجرہ میں تھے۔ چونکہ اسی امامت نماز پر آئندہ خلافت حکومت کا فیصلہ ہونے والا تھا ، اس لیے حضرت عمر یہ سوچ سکتے تھے کہ ان کو خدا نخواستہ کسی" سازش "کے تحت امامت کے مقام سے ہٹایا گیا ہے ، اور اس سازش کا اصل دماغ عائشہ ہیں جو حضرت ابو بکر کی صاحبزادی ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بنانے کے لیے یہ ڈرامہ کروایا ہے۔
مگر حضرت عمر کا خوفِ خدا اس میں مانع تھا کہ وہ اس قسم کی بدگمانی کو اپنے دل میں جگہ دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ عمر نے ابو بکر پر کسی قسم کا الزام نہیں لگایا ( كان عمر غير متّهم على أبى بكر ، سیرة النبی لابن ہشام، الجزء الرابع ، صفحہ 332)
کسی گروہ کو متحد رکھنے اور اس کی اجتماعی زندگی کو مستحکم بنیاد پرقائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے افراد کے اندر ایک دوسرے کے بارےمیں حسنِ ظن پایا جاتا ہو۔ مضبوط اجتماعیت کے لیے حسنِ ظن اتناہی ضروری ہے جتنا مضبوط تعمیر کے لیے سمنٹ ۔ دور ِاوّل کے مسلمان اپنی اسی خصوصیت کی بنیاد پر کامل اتحاد کا نمونہ تھے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اس خصوصیت کو کھو دیا ہے ، اسی لیے وہ اجتماعیت اور اتحاد کو بھی کھوئے ہوئے ہیں۔