وہ آنے والا

تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی اِس کے اشارات موجود ہیں، مثلاً خروجِ دابّہ وغیرہ، اورحدیث میں اِس کو صراحتاً بتایا گیا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں اِس سلسلے میں تین لفظ استعمال کئے گئے ہیں— رجلِ مومن، مہدی، مسیح۔

بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔یہ طریقہ قرآنی اسلوب کے عین مطابق ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کئی لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً عبد (17:1)، محمد(33:40)، احمد(61:6)، وغیرہ۔ اِس سلسلے میں غوروفکر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اِس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہوگی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا، اور یہ اللہ کی خصوصی رحمت کی بنا پر ہوگا۔اِس آنے والے شخص کو اگر بذریعہ وحی بتایا دیا جائے کہ تمھیں وہ شخص ہو، تو اُس پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اعلان کرکے لوگوں کو اپنے بارے میں بتائے۔ مگر اِس قسم کا مبنی بر وحی اعلان بے حد سنگین ہوتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس قسم کے اعلان کے بعد اس کو سننے والے ایک بے حد نازک امتحان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کی نجات کا انحصار اِس پرہوجاتا ہے کہ وہ کھلے طورپر اس کا اقرار کریں۔ اگر وہ اقرار نہ کریں، تو شدید اندیشہ ہے کہ وہ غیر ناجی قرار پائیں گے۔ اِسی لیے آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز نہیں کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہوگی، اور وہ اس کا استثنائی رول (exceptional role) ہے۔ لوگوں سے یہ مطلوب ہوگا کہ وہ اعلان کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہ رول کو دیکھ کر بطور خود آنے والے کو پہچانیں اور اس کا ساتھ دیں۔ جو لوگ اِس بصیرت کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ تاریخ کے اِس آخری امتحان میں بلاشبہہ ناکام قرار پائیں گے۔

جیسا کہ عرض کیاگیا، حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں—رجلِ مومن، مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے، اور وہ ہے دجال کو قتل کرنا۔ اِس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے، ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کئے جاتے۔

دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اِس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے، نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اِس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے، وہ ’’حجیج‘‘ ہے۔ حجیج کا مطلب ہے—حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا:

One who overcomes in the argument.

دجال کے لفظی معنیٰ ہیں—بہت زیادہ فریب دینے والا(great deceiver)۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال پرفریب نظریات کے ذریعے لوگوں کو مسحور کرے گا، وہ باطل کو خوش نما بنا کر پیش کرے گا۔ یہ دراصل اُسی چیز کی ایک مبالغہ آمیز صورت ہوگی جس کو شیطان کے حوالے سے قرآن میں تزئین (15:39) کہاگیا ہے۔ اِس قسم کا فتنہ کبھی ایک شخص کی گردن کاٹنے سے ختم نہیں ہوتا۔ وہ اُسی وقت ختم ہوسکتا ہے، جب کہ استدلال کے ذریعے اس کو نظریاتی سطح پر پوری طرح باطل ثابت کردیا جائے۔

دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ اس لیے استدلال کی سطح پر اس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہوگا۔ اِسی بات کو صحیح مسلم (کتاب الفتن) کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ اِس حدیث میں واضح طورپر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی (witness) ہے، یعنی دلائلِ ربانی کے ذریعے دلائلِ شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔

’’عظیم ترین شہادت‘‘ کے لفظ میں ایک اہم حقیقت کا اشارہ موجود ہے، وہ یہ کہ آنے والے کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ اپنے رول کے اعتبار سے ایک استثنا (exception) ہوگا۔ وہ ایک ایسا رول انجام دے گاجو پورے زمانے کے اعتبار سے ایک استثنائی رول ہوگا، اور یہی استثنا اس کی پہچان ہوگی۔ رجلِ مومن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہوگی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طورپر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رأفت اور رحمت (57:27) بالفاظ دیگر امن (peace) کے اصول کا کامل معنوں میں اظہار کرے گا۔

آنے والے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایات آئی ہیں۔ اِن میں سے اکثر روایتیں تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ قدیم زمانے میں اِسی اسلوب کا عام رواج تھا۔ چناں چہ خاتم النبیین (محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب) کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بائبل میں آئی ہیں، وہ بھی تمثیل کی زبان میں ہیں۔ یہی اسلوب دور آخر میں ظاہر ہونے والے کے لیے حدیث کی کتابوں میں اختیار کیا گیا ہے۔

اِس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قیامت سے پہلے موجودہ دنیا میں جو واقعات پیش آنے والے ہیں، وہ پر اسرار انداز میں پیش نہیں آئیں گے، بلکہ وہ معلوم اسباب کی صورت میں پیش آئیں گے۔ امتحان کی اِس دنیا میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، یہ سنت کبھی کسی کے لیے ختم ہونے والی نہیں۔

معاصر اہلِ ایمان کی ذمے داری

حدیث میں، آنے والے کی نسبت سے، یہ الفاظ آئے ہیں: وجب علیٰ کلّ مؤمن نصرہ وإجابتہ (أبوداؤد، کتاب المہدی) یعنی ہر مومن پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کا ساتھ دے۔ اِس حدیث رسول سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا جب آئے گا تو اُس وقت معاصر (contemporary)اہلِ ایمان کی ذمے داری کیا ہوگی۔ وہ ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ اس کو پہچانیں اور اس کے مشن میں بھر پور طور پر اس کا ساتھ دیں۔

واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن اِن روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ یہ کہاگیا ہے کہ اس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اس کا اعتراف کریں۔ اِس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے کا رول اگر چہ اپنے زمانے کے اعتبار سے عملاً وہی رول ہوگا جو پیغمبر کا رول ہوتا ہے، لیکن یہ مشابہت بااعتبار رول ہوگی، نہ کہ باعتبار اعلان۔

جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے، اُن کی ذمے داری یہ نہیں ہوگی کہ وہ شخصی تعیین کے ساتھ اپنے اعتراف کا اعلان کریں۔ شخصی تعیین کے ساتھ اعتراف صرف پیغمبر کے لیے مخصوص ہے، غیر پیغمبر کے لیے اِس قسم کا شخصی اعتراف درست نہیں۔ البتہ معاصرین کی یہ لازمی ذمے داری ہوگی کہ وہ آنے والے کو پہچانیں، وہ اس کے لیے دعائیں کریں، اور عملی اعتبار سے وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا اقترب الزمان لم تکد رؤیا المؤمن تکذب (صحیح البخاری، کتاب التعبیر) یعنی جب قیامت قریب آجائے گی، تو اُس وقت جو مومن ہوگا، وہ سچا خواب دیکھنے لگے گا۔

اِس حدیث رسول پرغور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اِس کا تعلق اُس شخص سے ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا۔ چوں کہ اِس شخص کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا کہ جبریل آکر اس کو بتائیں کہ تمھیں آنے والے شخص ہو، اور نہ معاصرین پر یہ فرض ہوگا کہ وہ اعلان کے ساتھ اس کا اقرار کریں۔ آنے والے شخص کی واحد پہچان اس کااستثنائی رول ہوگا۔ اِسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے اُس کے لیے ایک اضافی مدد (additional support) کا انتظام کرے گا۔ یہ انتظام سچے خواب کی صورت میں ہوگا۔ آنے والے کے معاصرین کثرت سے ایسے خواب دیکھیں گے جو اُس کو یقین دلائیں گے کہ آنے والا شخص وہی ہے جس کو انھوں نے خواب میں دیکھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom