امن، امن، امن
بیسویں صدی کے آخر تک تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ عرب سے لے کر عجم تک ہرجگہ صرف ایک آواز گونجتی تھی، اور وہ جہاد کی آواز تھی۔ کچھ مسلمان عملاً مسلح جہاد میں مشغول تھے اور کچھ مسلمان جہادی بولی بولتے تھے۔ عرب دنیا میں عرب شاعر الزرکلی (وفات:1976) کا یہ شعر گونجتا تھا:
ہات صلاح الدین ثانیۃً فینا جدّدی حِطِّین أو شبہ حطّینا
برصغیر ہند کے رہنما بھی سب کے سب اِسی قسم کی بولی بولتے تھے۔ انھوں نے مسلم مسائل کے حل کے لیے ’’فلسفۂ اِضرار‘‘ دریافت کیا۔ وہ جوش کے ساتھ یہ شعر پڑھتے تھے:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
یہی سوچ اُن مسلمانوں کی تھی جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر نام نہاد مجاہدین کی تبریر (justify) کرتے تھے کہ ظالموں کو سبق سکھانے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا:
We have to teach them a lesson
یہ صورتِ حال بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک ہر جگہ باقی رہی۔ ہر جگہ کے لکھنے اور بولنے والے مسلمان کسی نہ کسی الفاظ میں اِس طرح کی بات لکھتے تھے یا بولتے تھے۔ بیسویں صدی کا مسلم میڈیا اِس قسم کی باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ذہن صرف اُن لوگوں کا نہیں تھا جو صحافت یا اسٹیج کی سرگرمیوں میں نمایاں ہوتے ہیں، بلکہ یہی ذہن ان لوگوں کا بھی تھا جو بظاہر صحافت اور اسٹیج سے دور ہیں۔ اُن سے بھی گفتگو کیجئے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اُسی تلخی اور شکایت میں جی رہے ہیں جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں۔ گویا کہ کچھ لوگ اگر ایکٹیو جہاد (active jihad) میں سرگرم تھے، تو دوسرے لوگ پیسیو جہاد (passive jihad) میں سرگرم۔
یہ صورت حال اتفاقی نہ تھی۔ پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ تھا، مگر اُس میں دو چیز مکمل طورپر حذف تھی اور وہ ہے دعوت اور امن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہوگیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہوگئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ امن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طورپر دعوت اور امن کی اہمیت کھولی۔ 1947میں انڈیا کی آزادی کے بعد میں نے اللہ کی توفیق سے یہ کام شروع کیا۔ دسمبر 1950 میں، میں اعظم گڑھ میں تھا۔ اُس وقت وہاں سبزی منڈی ہال میں ایک نمائش (exhibition) لگائی گئی۔ میں نے مرحوم یوسف آرٹسٹ اور دوسرے ساتھیوں کی مدد سے وہاں پہلی بار اسلامی کتابوں کا ایک بک اسٹال لگایا۔ اس بک اسٹال کے اوپر لال رنگ کے روشن حروف میں ایک سائن بورڈ لگایا گیا جو اتنا بڑا تھا کہ وہ گیٹ سے دکھائی دیتا تھا۔اِس سائن بورڈ پر قرآن کی آیت: واللہ یدعو إلی دار السلام (یونس:25) کا انگریزی ترجمہ اِن الفاظ میں لکھا ہوا تھا:
And God calls to the home of peace (10:25)
اِس آیت میں بیک وقت دو باتیں کہی گئی ہیں— دعوت اور امن۔
اِس کے بعد میں اپنے طورپر دعوتی کام کرتا رہا۔ 18-19 فر وری 1955کو لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعتِ اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر میں نے اپنا ایک مقالہ پڑھا جو بعد کو تین زبانوں میں شائع ہوا— اردو، ہندی، انگریزی۔ اِس کا اردو ٹائٹل ’’نئے عہد کے دروازہ پر‘‘ تھا۔ اور ہندی میں ’’نو یُگ کے پرویش دوار پر‘‘ اور انگریزی میں اس کا ٹائٹل یہ تھا:
On the Threshold of a New Era
اللہ کی توفیق سے یہ کام بلا انقطاع جاری رہا۔ اِس مقصد کے لیے میں نے 1950 میں ادارہ اشاعتِ اسلام قائم کیا۔ اس کے بعد 1970میں اسلامک سنٹر کے نام سے نئی دہلی میں ایک دعوتی مرکز قائم کیا۔ 2001میں سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی (سی پی ایس انٹرنیشنل) کا قیام عمل میں آیا۔
بیسویں صدی کے آخر تک یہ حال تھا کہ لوگ اِس کام کو ون مین شو (one man show) کہتے تھے۔ تاہم اللہ کی توفیق سے یہ کام مسلسل جاری رہا۔ اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں سیکڑوں کتابیں تیار ہو کر ہر جگہ پھیلیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے مسلسل یہ پیغام لوگوں کے سامنے آتا رہا۔ اِسی کے ساتھ بار بار مجھے بین اقوامی کانفرنسوں میں نیز ملک کے اندر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہر جگہ میں نے اِس مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔
تاہم لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر اِس پیغام کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے تھے۔میری آواز ابتداء ً لوگوں کی نظر میں عرصے تک تقریباً اجنبی بنی رہی۔ مثال کے طورپر 1965 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کا ایک اردو جریدہ، جو اُس وقت ہندستانی مسلمانوں کے درمیان مقبول ترین جریدہ تھا، اُس نے میرے مضامین کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ’’آپ کے مضامین ہمارے جریدے میں کھپ نہیں رہے ہیں ‘‘۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مذکورہ جریدہ احتجاجی اسلوب پر نکالا گیا تھا۔ اِس کے مقابلے میں، میرے مضامین تعمیری اسلوب پر لکھئے گئے تھے۔ اِس فرق کی بنا پر میرے مضامین مذکورہ جریدے کے لیے ناقابلِ قبول بن گئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کا ہفت روزہ جریدہ ’’الدعوۃ‘‘جو قاہرہ سے نکلتا تھا اور عرب دنیا میں بے حد مقبول تھا، اُس میں میرے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس میں میرے دعوتی مشن کو نئی قادیانیت (قادیانیّۃ جدیدۃ) بتایا گیا تھا۔مذکورہ جریدہ الاخوان المسلمون کے نقطۂ نظر کا ترجمان تھا جو مسلح جہاد کے ذریعے مقاصدِ ملت کاحصول چاہتے تھے، اِس لیے اِس جریدے کو میرا نقطۂ نظر سمجھ میں نہ آیا جو پُرامن دعوت کے اصول پر قائم ہے۔ تاہم اکیسویں صدی کے آتے ہی صورتِ حال یکسر بدل گئی۔ آج تمام دنیا کے مسلمان امن کی اور دعوت کی بات کررہے ہیں، جگہ جگہ امن اور دعوت کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ مثال کے طورپر میڈرڈ (اسپین) میں جولائی 2008 کو سعودی حکومت کے تحت ’’بین اقوامی امن کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، اور دسمبر 2008میں مکہ میں ’’بین اقوامی دعوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا، وغیرہ۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ آج ساری دنیا کے مسلمانوں میں دعوت اور امن کی باتیں ہورہی ہیں۔ سیکولر مسلمان اور مذہبی مسلمان دونوں اپنے اپنے انداز میں اِسی قسم کی بات کہہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی عیسوی میں یہ نئی صورتِ حال اللہ کی توفیق سے ہمارے مشن کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی بھی بڑے واقعے کے ظہور میں کچھ معاون اسباب کام کرتے ہیں۔ یہی ہمارے مشن کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق، ہجرت کے پانچ سال پہلے اوس ا ور خزرج کے درمیان پیش آنے والی جنگِ بُعاث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے ایک مددگار واقعہ کی حیثیت رکھتی تھی (کان یوم بُعاث یوماً قدّمہ اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جنگ بُعاث میں مدینہ کے بڑے بڑے سردار ہلاک ہوگئے۔ اِس کے بعد وہاں مقاومت (resistance) کرنے والے لیڈر باقی نہ رہے۔ (فتح الباری، جلد 7، صفحہ 137، کتاب المناقب، باب مناقب الأنصار)۔
11 نومبر 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہوگیا۔ اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہِ راست طورپر اور پوری مسلم دنیا کے خلاف بالواسطہ طورپر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہوگئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اُس نے اُن تمام طاقتوں کو زیر کردیا جو امن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔ چناں چہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے ساری مسلم دنیا میں تمام زبانیں اور تمام قلم امن اور دعوت کی بات کہہ رہے ہیں۔
آخری زمانے کے جس دور امن کی پیشین گوئی حدیث میں گئی تھی، وہ دورِ امن اب پوری طرح آچکا ہے۔ اب ہماری ذمے داری یہ ہے کہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دیں، یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ میں، اسلام کا کلمہ (کلمۃ الإسلام) دنیا کے تمام چھوٹے اور بڑے گھروں میں داخل ہوجائے۔