فتح، فتحِ مبین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اِس فتح کے لیے قرآن میں صرف فتح (النصر:1) کا لفظ آیا ہے۔ دوسری طرف 6 ہجری میں مخالفین کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر ایک امن معاہدہ ہوا۔ اِس کے لیے قرآن میں فتحِ مبین (الفتح:1) کا لفظ آیا ہے۔ اِن دونوں کے درمیان تقابل (comparison)سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
سورہ النصر میں جس فتح کا ذکر ہے، وہ جدید اصطلاح کے مطابق، ایک سیاسی فتح تھی۔ اِس کے برعکس، سورہ الفتح میں جس واقعے کو فتحِ مبین کہاگیا ہے، وہ کوئی سیاسی فتح نہ تھی۔ اِس موقع پر جو واقعہ پیش آیا، وہ صرف یہ تھا کہ فریقین کے درمیان حالتِ جنگ کو ختم کرکے حالت امن کو قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ گویا کہ یہ ایک جنگ بندی (cease fire) کا معاہدہ تھا، جو سیاسی حقوق کی دست برداری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
اِس سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق، امن کا قیام زیادہ بڑی چیز ہے۔ سیاسی فتح اگر صرف فتح ہے تو امن کا قیام فتحِ عظیم۔ دونوں کے درمیان یہ فرق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی فتح کسی کو صرف انتظامی بالادستی عطا کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، امن کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مواقعِ کار کھل جاتے ہیں، اور مواقع کار کا کھلنا، ہر قسم کے امکانات کا کھل جانا ہے۔
فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتّاب بن اَسید (وفات:610 ھ) کو مکہ میں بطور عامل مقرر کیا۔ اِس کے مقابلے میں، حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدۂ امن ہوا، اس کے بعد جو مواقع کار کھلے، ان مواقع کو رسول اور اصحابِ رسول نے دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چند سال کے اندر سارا عرب اسلامائز ہوگیا۔ اِس واقعے سے ایک عظیم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ سیاسی غلبہ صرف ایک محدود غلبہ ہے۔ اس کے مقابلے میں، مواقع کار کا کھلنا، ایک لامحدود غلبہ کے ہم معنیٰ ہے۔