ایک قانونِ فطرت
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت میں امتِ محمدی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں وہ زوال کا شکار ہوگی۔ اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: لتتبعنّ سنن من کان قبلکم، شبراً شبراً وذراعاً ذراعاً، حتی لو دخلوا جُحر ضبّ تبعتموہم(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام) یعنی تم ضرور پچھلی امتوں (یہود ونصاری) کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔
یہ حدیث سادہ طور پر صرف ایک پراسرار پیشین گوئی نہیں ہے، بلکہ اُس میں ایک قانونِ فطرت کا اظہار کیاگیا ہے۔یہ قانونِ فطرت وہی ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ جس طرح افراد کا جسمانی ڈی جنریشن (physical degeneration) ہوتا ہے، اُسی طرح قوموں کا روحانی ڈی جنریشن (spiritual degeneration) لازمی طورپر ہوتا ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثناء نہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہود ونصاری کے اندر بعد کے زمانے میں جو ڈی جنریشن (زوال) آیا تھا، وہ سب موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے اندر پوری طرح آچکا ہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں۔ مثلاً امت مسلمہ کے لیے قرآن میں خیر امت (آل عمران:110) کا لفظ آیا ہے۔ اس کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے ٹائٹل آف آنر (title of honor) کا درجہ دے دیا، حالاں کہ وہ اُن کے لیے صرف ٹائٹل آف ڈیوٹی (title of duty) تھا۔ اِسی طرح ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے معرفت (المائدۃ:83) کے ہم معنیٰ تھا، مگر موجودہ زمانے میں اس کو کلمہ گوئی کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ اِسی طرح نماز اپنی حقیقت کے اعتبار سے خاشعانہ عبادت (المؤمنون: 2) کے ہم معنی تھی، لیکن موجودہ زمانے میں اس کو صرف اعضاء وجوارح کے ذریعے ادا کی جانے والی ایک رسمی عبادت کے ہم معنیٰ بنا دیا گیا ہے۔ قر آن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب تدبر (ص: 29) کے طورپر نازل کیا تھا، لیکن موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اس کی حیثیت صرف کتاب تلاوت بن کر رہ گئی ہے، وغیرہ۔