مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی
کیا مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے، یہ سوال گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے، پولٹکل تیاری ضروری ہوتی ہے۔ پولٹکل تیاری سے پہلے، پولٹکل پارٹی بنانا ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص نے پروفیشنل ٹریننگ نہ لی ہو، اِس کے باوجود وہ جاب مارکیٹ میں چھلانگ لگا دے۔
مسلمانوں کے نام نہاد رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے کی مدت میں وہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی تربیت نہیں کرتے، البتہ جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو وہ فوراً اسٹیج کی تقریروں کے ذریعہ یہ اعلان کرنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ترجیح (political priority) کو جانیں۔ پولٹکل پارٹی بنانا یقینی طورپر موجودہ حالت میں مسلمانوں کی سیاسی ترجیح نہیں۔
اِس معاملے میں سب سے پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ 1947 سے پہلے اور 1947 کے بعد مسلمانوں کی کئی سیاسی پارٹیاں بنائی گئیں، مگر جلسہ جلوس کی دھوم کے باوجود اُن کا کوئی مثبت نتیجہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔ مثال کے طورپر 1964 میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بنائی گئی۔ وہ کم از کم جزئی معنی میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِس کے بعد1968میں آل انڈیا مسلم مجلس بنائی گئی جو کہ پورے معنوں میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِن دونوں جماعتوں نے پالٹکس میں عملی حصہ لیا، مگرجہاں تک مثبت نتیجے کا تعلق ہے، اس کا کچھ بھی فائدہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔
اصل یہ ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے ہمیشہ اس کے موافق پولٹکل بنیاد (political base) درکار ہوتی ہے۔ بنیاد کے بغیر عمارت نہیں، اِسی طرح پولٹکل بنیاد کے بغیر پولٹکل پارٹی بھی نہیں۔ پولٹکل بنیاد کیا ہے، اس کو یہاں مختصر طور پر بیان کیاجاتا ہے۔
1 - پولٹکل بنیاد (political base) کے معاملے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ملت کے افراد کے اندر سیاسی شعور موجود ہو۔ کہاجاتا ہے کہ— سیاست ممکنات کا کھیل ہے:
Politics is the art of the possible.
اِس کے مطابق، ملت کے افراد سیاسی اعتبار سے اتنا زیادہ باشعور ہوں کہ وہ جانیں کہ سیاسی تدبیروں سے کیاچیز قابل حصول ہوتی ہے اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کے بارے میں مسلسل تجربات کے مطابق، یقینی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے عوام اور خواص دونوں سیاسی شعور سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ مسلم خواص، سیاست کے اعتبار سے صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اسٹیج سے جذباتی تقریریں کریں۔ اور مسلم عوام صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اِس قسم کی تقریروں پر تالیاں بجائیں۔ حقیقت پسندانہ سیاست سے مسلم خواص بھی بے خبر ہیں اور مسلم عوام بھی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی بنانے کا فائدہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ میڈیا میں کچھ وقتی چرچا ہو اور کچھ غیر قائد قسم کے مسلمانوں کو مسلم قائدین کا ٹائٹل مل جائے۔ موجودہ حالت میں اِس سے زیادہ کسی اور فائدے کی امید رکھنا، فرضی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
2 - اِس سلسلے میں دوسری اہم چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے کامل اتحاد پایا جاتاہو۔موجودہ حالت میں یہ اتحاد بالکل مفقود ہے۔ اِس کی ایک سنگین مثال یہ ہے کہ موجودہ ہندستان کے کئی حلقۂ انتخاب میں مسلمان تقریباً اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہر الیکشن میں یہ دیکھا جاتاہے کہ اِن حلقوں میں بہت کم کوئی مسلم نمائندہ کامیاب ہو کر آتا ہے۔ اِس کی سادہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ اِن حلقوں میں کئی مسلمان امیدوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔ ایسے کسی حلقے میں اگر صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا ہوتو اس کی جیت یقینی ہے، لیکن جب کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں توووٹ بٹ جانے کی وجہ سے سب کے سب ہار جاتے ہیں، اور کسی ایسی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے جس کو مسلمانوں نے بطور خود اپنا دشمن قرار دے رکھا تھا۔ سروے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ پارلیامنٹ کے تقریباً ایک سو حلقوں میں مسلمان الیکشن میں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن اپنی اِسی سیاسی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس موقع (opportunity) سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور پارلیامنٹ میں ان کی تعداد ہمیشہ واقعی تعداد سے بہت کم رہتی ہے۔
3 - صحافت کو سیاست کا چوتھا ستون (fourth estate) بتایا جاتا ہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ چوتھا ستون عملاً موجود ہی نہیں۔ مسلمانوں کے جو اخبارات ہیں، ان کی اشاعت اتنی زیادہ محدود ہوتی ہے کہ وہ مسلّمہ صحافتی معیار کے مطابق، قابل ذکر ہی نہیں۔ جب کہ مشہور مقولہ ہے کہ— جس قوم کی صحافت نہیں، اُس قوم کی سیاست بھی نہیں۔
اِس صحافتی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کوئی اخبار محض اپنی قیمت ِ فروخت پر نہیں چل سکتا، وہ صنعتی اشتہارات کے ذریعے چلتا ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اُن کے پاس اعلیٰ صنعت موجود نہیں۔ اِس لیے اُن کے پاس وہ بڑے تجارتی ادارے بھی موجود نہیں جو قیمتی اشتہارت کے ذریعے اخبارات کو فیڈ (feed) کرسکتے ہوں۔ مسلمانوں کی اِسی کمزوری کی بنا پر اُن کے اخبارات زرد صحافت (yellow journalism) کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ اُن کا انحصار زیادہ تر قیمتِ فروخت پر ہوتا ہے، اِس لیے وہ سنسنی خیز خبریں چھاپتے ہیں، تاکہ وہ صنعتی اشتہارات کی اِس کمی کو پورا کرسکیں۔
4 - مسلمان جب بھی علاحدہ پولٹکل پارٹی کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف اپنی کمیونٹی کے محدود مسائل کے ذہن کی بنا پر کرتے ہیں۔ مثلاً فرقہ وارانہ فساد، ملازمتوں میں امتیاز، وغیرہ۔جمہوریت کے دور میں اس قسم کے محدود موضوعات کو لے کر کوئی کامیاب سیاسی پارٹی نہیں بنائی جاسکتی۔ کامیاب سیاسی پارٹی صرف وہ گروہ بنا سکتا ہے جس کے اندر قومی سوچ (national thinking) ہو، جو پورے ملک کے مسائل کو لے کر سوچ سکتا ہو۔ جمہوریت کے زمانے میں کمیونٹی کے مسائل بھی صرف وسیع تر قومی تناظر میں رکھ کر حل کئے جاسکتے ہیں، اِس کے بغیر نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمان جس چیز کو سیاست سمجھتے ہیں، وہ صرف گھیٹو سیاست (ghetto politics) کا ایک خود ساختہ ایڈیشن ہے۔ اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ہر روز مسلمانوں کے جلسے جگہ جگہ ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ جلسے ہمیشہ کمیونٹی کے اِشو کو لے کر ہوتے ہیں، نہ کہ ملکی اشو کو لے کر۔ اِس قسم کا ذہن رکھنے والے لوگ سیاسی پارٹی بنانے کے لیے قطعاً نااہل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں مسلمانوں کے درمیان بار بار اِس طرح کی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن عملاً وہ سب کی سب ناکام ہو کر رہ گئیں۔
5 - سیاسی پارٹی بنانا کوئی سادہ بات نہیں۔ عملی اعتبار سے یہ سیاست کے دنگل میں چھلانگ لگانے کے ہم معنیٰ ہے۔ سیاسی پارٹی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک ایسے میدانِ مقابلہ میں داخل ہوگئے، جہاں ہر قدم پر ایک سیاسی حریف کھڑا ہوا ہے، ہر قدم پر ایک ایسا موقع پرست لیڈر موجود ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کی ہار میں اُس کی جیت کا راز چھپا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں نہ پہلے ایسا کوئی دانش مند لیڈر موجود تھا اور نہ اب کوئی ایسا دانش مند لیڈر موجود ہے جو اِس راز کو سمجھ سکے۔ ہمارے تمام لیڈر صرف دوسروں کے خلاف شکایت کی زبان بولنا جانتے ہیں، حالاں کہ کامیاب سیاسی لیڈر وہ ہے جو شکایتوں کے جنگل میں اپنا راستہ نکالنے کا فن جانتا ہو۔
مسلمانوں کے درمیان اِس قسم کے لیڈر کا فقدان ہے، اور اگر ایسا کوئی لیڈر موجود ہو تو یقینی طورپر وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ مختلف اسباب سے، موجودہ زمانے کے مسلمان اتنازیادہ جذباتی ہوچکے ہیں کہ وہ کسی حقیقت پسند لیڈر کی بات نہ سمجھیں گے اور نہ وہ اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایسی حالت میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر جدید معیار پر سیاسی شعور پیدا کیا جائے۔ سیاسی شعور سے پہلے سیاسی اقدام کرنا، سیاسی خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔