ذکر اور دعاء

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان؛ صحیح مسلم، أبو داؤد، ابن ماجہ: کتاب الطہارۃ؛ الترمذی، کتاب الدعوات) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ کا ذکرکرتے تھے۔

اِس روایت کو اکثر مجدثین نے ابوابِ طہارت کے تحت نقل کیا ہے۔ مگر اِس روایت کا مسائلِ عبادت سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسی طرح کچھ لوگوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ باربار آدمی کی زبان سے بسم اللہ، الحمد للہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ اور اِسی طرح کے دوسرے مقرر کلمات نکلتے رہیں، مگر یہ شرح بھی اِس حدیث کی حقیقی معنویت کو بیان نہیں کرتی۔

اصل یہ ہے کہ ذکر اور دعا صاحبِ معرفت انسان کے تخلیقی کلمات ہیں۔ انسان کی زندگی میں بار بار مختلف قسم کے مواقع یا اَحیان (occasions) پیش آتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر سوچنے کی اور توسّم کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ پالے گا کہ اِن مواقع پر خدا کی یاد کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہے۔آدمی اِن مواقع کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر اُن کو اعلیٰ درجے کی کیفیتِ ذکر اور کیفیتِ دعا میں تبدیل کرسکتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہی بات پائی تھی۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا اللہ سے دعا فرماتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ذکر اور دعا کچھ یاد کئے ہوئے الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، ذکر اور دعا یہ ہے کہ مختلف مواقع اور مختلف حالات آدمی کے لیے اللہ کو یاد دلانے والے (reminder) بن جائیں، ہر واقعے اور ہر تجربے کو وہ اللہ سے رلیٹ (relate) کرکے دیکھ سکے، ہر تجربے میں اس کو خدا کی خدائی کا کوئی پہلو نظر آجائے۔ اِس طرح کے شعوری احساس کے تحت جو الفاظ آدمی کی زبان پر جاری ہوجائیں، اُنھیں کا نام ذکر اور دعا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom