سوال وجواب

سوال

ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007) کے شمارے میں ’’مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون نگاہ سے گزرا۔ اِس سلسلے میں دو سوال پیش خدمت ہیں۔ ایک یہ کہ اِس تعبیر کے استعمال کرنے کی کیا حکمت پیش آئی۔ دوسرے یہ کہ قرآن (الأحزاب: 21) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کی تشریح میں آپ نے لکھا ہے کہ اِس کا مطلب لازمی طور پر ہر صورتِ حال کے لیے عملی ماڈل کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد صرف اصولی رہنمائی ہے۔ براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ڈاکٹر عبد الرحمن، نئی دہلی)

جواب

1 - آپ نے غالباً اصل مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ آپ کو اِس قسم کا اشکال پیش نہ آتا۔ اگر آپ مضمون کو غور سے پڑھیں تو آپ پر کھل جائے گا کہ مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی کا مطلب دوسرے لفظوں میں مکی ماڈل کی آمدِ ثانی ہے۔ مذکورہ مضمون میں جس چیز کو مسیحی ماڈل کہاگیا ہے، وہ خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری طرح موجود ہے۔ مکی دور میں آپ نے خود اِسی اصول کے مطابق عمل فرمایا ہے۔ مضمون میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اِس تصور کو زیادہ ممیَّز (distinguished) کرنے کے لیے اس کو مسیحی ماڈل کا نام دے دیا گیا ہے، تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوسکے۔

جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ مشن کے دو دور ہیں— مکی دور، اور مدنی دور۔ مکی دور پُرامن دعوت کا دور ہے۔ اِس کے مقابلے میں مدنی دور کو جہاد اور قتال کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ دونوں ادوار بلا شبہہ اسلام میں مستند ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

موجودہ زمانے میں حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب جنگ وقتال کے بغیر تمام دعوتی کام انجام دئے جاسکتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ توحید کا مشن دوبارہ مکی دور کی طرف واپس آگیا ہے، یعنی پُرامن دعوتی دور کی طرف۔ یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو مذکورہ مضمون میں مسیحی ماڈل کی واپسی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ تعبیر غیر متعلق نہیں ہے۔ ہمارے علماء اور مسلمان عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ قیامت سے پہلے مسیح کی ’’آمد ثانی‘‘ ہونے والی ہے۔ جس واقعہ کو لوگ مسیح کی آمد ثانی (second coming) کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اُسی کو اِس مضمون میں مسیحی ماڈل کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی مسیح کی آمد ثانی کا مقصد گویا کہ مکی دور کی تجدید ثانی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف الفاظ کے فرق کا معاملہ ہے، ورنہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔

2 - میں نے اپنے مضمون میں کوئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ میں نے صرف قرآن کی مذکورہ آیت کی تشریح کی ہے۔ میں نے صرف اِس سوال کا جواب دیا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں کیوں اسوۂ حسنہ کا لفظ آیا ہے، قرآن میں اسوۂ کاملہ کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ جب خود قرآن میں کاملہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، تو ہم کو بہر حال اس کی کوئی توجیہہ ڈھونڈنی ہوگی۔ اور خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی دوسری توجیہہ ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں یکساں نظری اصول تو ہمیشہ موجود رہتا ہے، مگر یکساں عملی ماڈل کبھی موجود نہیں ہوتا۔اصل یہ ہے کہ اسوہ یا ماڈل ایک عملی نمونہ کا نام ہے، اور عملی نمونہ کبھی بھی غیر متغیر یا ابدی نہیں ہوتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کی نسبت سے طے ہوتا ہے، نہ کہ کسی آئڈیل نظریے کی نسبت سے۔

غور کیجئے تو خود رسول اور اصحاب رسول کے زمانے ہی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طورپر خلافت کے معاملے کو لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو نام لے کر خلیفہ نام زد نہیں کیا۔ مگر خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے اِس کے برعکس، نام لے کر خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب کو نام زد کیا۔ اس کے بعد خلیفۂ ثانی نے اِس کی پیروی نہیں کی، بلکہ انھوں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا، اور وہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے 6 افراد کا ایک بورڈ مقرر کرنا تھا۔

فقہاء کا یہ متفقہ اصول ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی احکام کا تعین کسی واحد نظری معیار کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے حالات کی رعایت سے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کامل ماڈل کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جو غیر فطری بھی ہے اور غیر عملی بھی اور نتیجۃً غیر اسلامی بھی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب’’مطالعہ سیرت‘‘ کا مقالہ ’’اسوۂ حسنہ‘‘، صفحہ 141-150)

سوال

مئی 2010 کے شمارے میں ’’دابّہ‘‘ کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اِس سے مراد وہ انسان ہے جو آخری زمانے میں حق کا اعلان کرے گا، جب کہ اِس سے پہلے الرسالہ میں آپ نے دابہ کو جدید کمیونکیشن بتایا ہے۔ ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ کس رائے کو لیا جائے، پہلی رائے کو یا دوسری رائے کو۔ براہِ کرم، اِس کنفیوژن کو دور فرمائیں (ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)

جواب

دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 27میں بتایا گیا ہے کہ دابہ کلام کرے گا (النمل: 82) جیسا کہ معلوم ہے، کمیونکیشن ایک غیر ذی روح چیز ہے۔ اس کے اندر اپنے آپ کلام کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ عالمی کمیونیکیشن کے زمانے میں ایک شخص پیدا ہوگا جو جدید کمیونکیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے آیاتِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچائے گا۔ ایسی حالت میں دابہ کے رول کو ادا کرنے کے لیے انسان اور کمیونکیشن دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں۔ گویا کہ انسان اور کمیونکیشن دونوں ایک ہی رول کے دو پہلو ہیں، یعنی اعلانِ حق کے رول کو ادا کرنے والا ایک انسان ہوگا، اور اِس کام کے لیے وہ جس ذریعے کو استعمال کرے گا، وہ جدید کمیونکیشن کا ذریعہ ہوگا، واللہ أعلم بالصواب۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom