تھرڈ آپشن سے بے خبر
طرزِ فکر کی ایک قسم وہ ہے جس کو ثُنائی طرزِ فکر (dichotomous thinking)کہا جاتا ہے، یعنی صرف دو کے درمیان سوچنا۔ مثلاً سیا ہ اور سفید (black & white) کے درمیان سوچنا۔ یہ طرزِ فکر انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ آدمی پہلے ایک انتہا کو لے کر سوچتا ہے اور جب وہ اُس سے غیرمطمئن ہوتا ہے تو اس کے بعد وہ دوسری انتہا کی طرف چلا جاتا ہے۔ مگر یہ طرز فکر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ دو کے درمیان ایک تیسرا آپشن (third option) بھی موجود ہوتا ہے اور اکثرحالات میں اِسی طرح کا آپشن درست ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے بار بار یہ غلطی کی ہے۔ مثلاً نو آبادیاتی زمانے میں کچھ مسلمان انگریزوں کے دشمن ہوگئے اور وہ انگریز کی ہر بات کو غلط سمجھنے لگے۔ اس کے برعکس، کچھ اور لوگ انگریز کے زبردست مقلد بن گئے اور انگریزی کلچر اختیار کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ ثنائی طرز فکر تھا، حالاں کہ اُن کے لیے ایک تیسرا آپشن بھی موجود تھا۔ وہ یہ کہ وہ انگریز کو مدعو سمجھیں اور اُن کو پرامن انداز میں اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
یہی معاملہ خواتین کا ہے۔ خواتین کے معاملے میں مسلمانوں کا مذہبی طبقہ صرف دو صورتوں کو جانتا ہے۔ یا تو اُنھیں روایتی خول میں بند رکھنا یا فیشن کی دنیا میں آزاد چھوڑدینا۔ مگر یہاں ایک تھرڈ آپشن بھی موجود ہے، وہ یہ کہ عورت اپنی نسوانیت کو باقی رکھتے ہوئے تعمیر ِ انسانیت کے مشن میں اپنا حصہ ادا کرے۔ اِس تعمیری رول کو ادا کرنے کے لیے چند چیز یں ضروری ہیں—اچھی تعلیم، شعوری ارتقاء، حالاتِ زمانہ کے مطابق ان کی تربیت، اپنے حدود کو جانتے ہوئے اجتماعی کام میں حصہ لینا، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے جس طرح مرد کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے، اُسی طرح اس نے عورت کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں اپنے اپنے رول کو جانیں اور فطری حدود کے اندر رہتے ہوئے اُس کارِ خاص کو انجام دیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب’’عورت معمارِ انسانیت‘‘)