ابتغاء رضوان اللہ
اسلام کے مطابق، مقبول عمل وہ ہے جو خالص رضوان اللہ (الحدید: 27) اور مرضات اللہ (البقرۃ:265) کے لیے انجام دیا جائے۔ جس عمل میں رضوان الٰہی یا مرضات الٰہی کی اسپرٹ شامل نہ ہو، وہ آخرت کے اعتبار سے مقبول عمل نہیں، خواہ بظاہر لوگوں کو وہ ایک شان دار کام دکھائی دیتا ہو۔
اللہ کی رضا (goodwill) کے لیے کام کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب آپ کوئی کام کریں تو آپ اپنے منہ سے یہ الفاظ بول دیں کہ— میں اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔ یہ رضاء الٰہی کی تصغیر ہے۔ رضائِ الٰہی یا رضوانِ الٰہی ایک گہری اسپرٹ کا نام ہے۔ یہ اسپرٹ لمبے عمل کے نتیجے میں کسی کے اندر پیدا ہوتی ہے اور جو شخص اِس زندہ اسپرٹ کے تحت کام کرے، اُس کا عمل رضائِ الٰہی کے مطابق کیا جانے والاعمل ہے۔ جو کام اِس اسپرٹ سے خالی ہو، وہ گویا کہ پلاسٹک کا پھول ہے۔ پلاسٹک کا پھول دیکھنے میں بظاہر پھول نظر آتا ہے، لیکن اس کو کبھی حقیقی پھول کا درجہ نہیں ملتا۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک بندۂ خداکے اندر تلاش کا جذبہ (seeking spirit) پیدا ہوتا ہے تو وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سچائی کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، وہ خدا کی کتاب کو پڑھتا ہے، حدیثِ رسول کا مطالعہ کرتا ہے، تخلیقاتِ خدا وندی میں غور وفکر کرتا ہے، وہ ہر قسم کے تعصبات سے خالی ہو کر یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ سچائی کیا ہے۔ آخر کار اس کے اوپر سچائی پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہی دریافت وہ مقام ہے جہاں سے رضائے الٰہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
اِس دریافت کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ بدل جاتی ہے۔ وہ اپنے رات دن کے لمحات میں اِسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ آخر کار، اس کی زندگی کا ایک فوکس (focus) بن جاتا ہے۔ یہ فوکس اللہ کی رضا ہوتی ہے۔ وہ دل وجان سے یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ وہ اپنے رب کی رحمتوں کا مستحق بنے۔ قیامت کے دن و ہ عرشِ الٰہی کے سائے میں جگہ پائے۔ جو کام اِس اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے، وہی رضائِ الٰہی کے مطابق، کیا جانے والا کام ہے۔