امت کا زوال

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: عن ابی أمامۃ الباہلی، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لینتقضنّ عری الإسلام عروۃ عروۃ فکلما انتقضت عروۃ تشبّث الناس بالتی تلیہا (مسند احمد، رقم الحدیث: 21583) یعنی حضرت ابوامامہ الباہلی کہتے ہیں کہ ضرور ایسا ہوگا کہ اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹ جائیں، جب کوئی کڑی (عُروۃ) ٹوٹے گی تو اس کے بعد جو چیز آئے گی، لوگ اس پر قائم ہوجائیں گے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی میں دراصل زوال کے عمومی قانون کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری امتوں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آجائے گا۔ اس کے بعد وہ اسلام کی خصوصیات کو ایک ایک کرکے چھوڑتے جائیں گے۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ پھر بھی موجود رہیں گے، لیکن اسلام کی اصل خصوصیات ان میں باقی نہ رہیں گی، اسلام کی اصل تعلیمات کے نام پر وہ بطور خود اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کرلیں گے اور اس خود ساختہ مذہب پر قائم ہو کر وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم اسلام پر قائم ہیں۔ یہاں مختصر طورپر اس معاملہ کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

1 - باہمی قتال

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اسلام کا پہلا عروہ جو ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر کی سخت ممانعت کے باوجود ان کے درمیان آپس کی جنگ شروع ہوگئی، اس کا آغاز تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ میں ہوا، اس وقت مسلم امت میں صحابہ کی تعداد کم اور غیر صحابہ کی تعداد زیادہ ہوچکی تھی، ان لوگوں نے ایک سیاسی شکایت کو لے کر حضرت عثمان کے خلاف قاتلانہ حملہ کیا، اس وقت حضرت عثمان نے یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ وہ پیغمبر اسلام کی وصیت کے مطابق، آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (کن کخیر ابنی آدم) بن گئے۔ اس طرح سے یہ ہوا کہ یہ معاملہ دوطرفہ قتال تک نہیں پہنچا، بلکہ وہ یک طرفہ کارروائی پر ختم ہوگیا۔

تاہم حضرت عثمان کی یہ تدبیر وقتی ثابت ہوئی، اس کے بعد علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں باہمی قتال مزید شدت کے ساتھ ابھرا۔ وہ صرف اس وقت رُکا جب کہ دونوں فریق میں سے ایک کا خاتمہ ہوگیا۔

2 - حکمراں کے خلاف خروج

اسلام کا دوسرا عروہ جو بعد کی تاریخ میں ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تاکید کے باوجود، مصلحین نے اپنے زمانہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کاآغاز کردیا، یہ خروج حسین ابن علی سے شروع ہوا، اور پھر وہ پوری تاریخ میں مختلف شکلوں میں جاری رہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت صراحت کے ساتھ اپنی امت کو یہ حکم دیا تھا کہ لوگ مسلم حکمرانوں کے خلاف ہر گز خروج (مسلح بغاوت) نہ کرنا، تم اپنی کوششیں غیر سیاسی دائرہ تک محدود رکھنا، اور کسی بھی شکایت کو لے کر حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرنا، مگر امت کے رہنماؤں نے مسلسل طورپر اس کی خلاف ورزی کی۔ بدقسمتی سے یہ خلاف ورزی اب تک جاری ہے۔

3 - فقہی اختلافات

اسلام کے عروۃ کے ٹوٹنے کا تیسرا واقعہ غالباً وہ تھا جو کہ فقہی اختلافات کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ سلم نے واضح طورپر فرمایا تھا کہ: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم ( جامع بیان العلم وفضلہ 2/90) اس کا مطلب یہ تھا کہ دینی معاملات، خاص طور پر عبادات کے معاملہ میں اصحابِ رسول کے درمیان فروق (differences) پائے جائیں گے، یہ فروق فطری ہوں گے اور بر بنائے توسع ہوں گے، تو تم لوگوں کو آزاد چھوڑ دینا کہ وہ جس صحابی کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیں کریں، مگر دور عباسی کے فقہاء نے اس تعدد کو نادرست سمجھا، اور غیر ضروری طورپر اس کو ایک بنانے کی کوشش کی۔ یہ توحّد عملاً ناممکن تھا، چناں چہ توحّد کی کوشش کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ متعدد فقہی اسکول قائم ہوگئے۔ فقہی مسائل میں اسی منحرفانہ طریقہ کا یہ نتیجہ ہے کہ امت متفرق فرقوں میں بٹ گئی اور امت کی سطح پر اتحاد بظاہر ایک ناممکن چیز بن گیا۔

4 - دعوت کا باب حذف

پیغمبر اسلام کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ داعی اور مبلغ تھے، آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر کا نمونہ تھی، لیکن بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو مسلمان مختلف اسباب سے دعوت کا سبق بھول چکے تھے۔ چناں چہ تدوینِ علوم کے زمانہ میں اسلام کا چوتھاعروہ یعنی دعوت مکمل طورپر حذف ہوگیا۔ اس زمانہ میں حدیث کی جو کتابیں مدوّن کی گئیں، وہ دعوت کے ابواب سے خالی تھیں ۔ اسی طرح اسلامی فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی دعوت وتبلیغ کا باب موجود نہ تھا۔ اسی طرح قرآن کی جو تفسیریں عربی زبان میں لکھی گئیں، وہ سب کی سب غیر دعوتی اسلوب پر لکھی گئیں۔ اسی طرح اسلام کی جو تاریخ لکھی گئی، وہ بھی سیاسی پیٹرن پر تھیں نہ کہ دعوتی پیٹرن پر۔ یہی تقر یباً اس پورے کلا سیکل لٹریچر کامعاملہ ہے جو بعد کے زمانہ میں عربی زبان میں مرتب کیا گیا۔

5 - تدبر کے بجائے مراقبہ

اسلام کا پانچواں عروہ جو بعد کے زمانہ میں ٹوٹا، وہ تفکر وتدبر تھا۔ یہ کام زیادہ تر مسلم صوفیاء کے ذریعہ انجام پایا۔ اصل اسلام میں تزکیہ اور روحانیت کی بنیاد تمام تر تفکر وتدبر پر قائم تھی، لیکن صوفیاء نے دوسروں کی تقلید (مضاہاۃ) میں یہ کیا کہ مراقبہ (meditation) پر اسلامی روحانیت کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ بنیاد تھی۔ اس کا عظیم نقصان یہ ہوا کہ اہلِ اسلام اُس معرفت سے محروم ہوگئے جو اصحابِ رسول کا امتیازی وصف تھا۔ معرفت بلاشبہہ مؤمن کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ معرفت کا حصول تدبر سے ہوتاہے جس کا ذریعہ عقلی غور وفکر ہے، مگر صوفیاء نے عقلی غور وفکر کو حذف کرکے قلب پر توجہ کو معرفت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا، جب کہ قلب میں سرے سے معرفت کا سامان موجود ہی نہ تھا۔ اس طرح بعد کے زمانہ میں پوری امت اعلیٰ معرفت سے محروم ہوکر رہ گئی۔

6 - غیر ریاستی جہاد

اسلام میں اس قسم کے نقصان کی چھٹی مثال وہ ہے جو انیسویں صدی میں تو آبادیاتی دور میں سامنے آئی۔ یہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلح جنگ کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے خلاف جنگ، فرانس کے خلاف جنگ، اسرائیل کے خلاف جنگ وغیرہ، یہ تمام جنگیں اسلام کے ایک عروۃ کو توڑنے کے ہم معنی تھیں، وہ یہ کہ جہاد (بمعنی قتال) صرف باقاعدہ قائم شدہ اسٹیٹ کا کام تھا، وہ عوام کی ذمہ داری نہیں (الرّحیل للإمام)۔ لیکن موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے عام طور پر اسلام کے اس عروۃ کو توڑنے میں حصہ لیا، کچھ لوگوں نے قولی اعتبار سے اور کچھ لوگوں نے عملی اعتبار سے۔ پچھلے تقریباً دو سو سال سے مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ مسلح جہاد میں مشغول ہیں۔ مگر یہ جہادزیادہ تر آزاد مسلم تنظیمیں (NGOs) کررہی ہیں، نہ کہ باقاعدہ طورپر قائم شدہ مسلم حکومتیں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم تنظیموں کو صرف پُر امن دائرہ میں کام کرنے کا حق ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر ان کو ہر گز یہ اجازت نہیں کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، مگر تحلیلِ حرام کا یہ کام موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ہوا، اور تادمِ تحریر (20 اپریل 2010) وہ بدستور جاری ہے۔ اسلام کے اس عروہ کو توڑنے کا جو نقصان اہلِ اسلام کو پہنچا ہے، وہ بلاشبہہ تمام دوسرے نقصانوں سے زیادہ بڑے نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔

7 - انسان کو دشمن قرار دینا

اسلام کی تعلیم کے مطابق، تمام انسان صرف انسان ہیں، تمام دنیا دار الانسان کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو یکساں طورپر بھائی اور بہن سمجھیں، وہ تمام انسانوں کے لئے یکساں طورپر خیر خواہ بنیں، وہ تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام، مثبت انداز ہیں پہنچائیں۔ لیکن بعد کے دور میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عروہ کو توڑ دیا۔ عباسی دور کے فقہاء نے دنیا کو بطور خود دار الحرب اور دار الکفر اور دارالاسلام میں بانٹ دیا، حالاں کہ اس درجہ بندی کا کوئی ماخذ قرآن اور سنت میں موجود نہ تھا۔ یہ غلطی آج تک مزید اضافہ کے ساتھ جاری ہے، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے تمام دنیا عملاً کو دارالانسان کے بجائے دارِ اعداء بنا رکھا ہے۔ وہ خود ساختہ عذر لے کر انسان سے نفرت کرنے لگے، حالاں کہ انسان سے نفرت کرنا اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔

8 - مبنی بر نظام تشریح

اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق، اسلام کا نشانہ فرد (individual) ہے۔ فرد کی سوچ کو بدلنا، فرد کو ربّانی انسان بنانا، فرد کا تزکیہ کرنا۔ مگر بعد کے زمانہ میں اسلام کا یہ عروہ بھی توڑ دیا گیا۔ اب اجتماعی نظام کو بنیاد بنا کر اسلام کی تشریح وتعبیر کی جانے لگی، یہ بلاشبہہ اسلام میں ایک انحراف تھا۔ جب آپ فرد کے اندر فکری تبدیلی لانے کو اپنا نشانہ بنائیں تو اس سے کوئی برائی نہیں پیدا ہوتی، لیکن جب آپ اجتماعی نظام یا سسٹم (system) کے بدلنے کو اپنا نشانہ بنائیں تو فوراً یہ ہوتا ہے کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، اور اس کے فطری نتیجہ کے طور پر طبقاتی جنگ (class war) شروع ہوجاتی ہے۔ ایک طرف حاکم طبقہ ہوتا ہے اور دوسری طرف غیر حاکم طبقہ۔ غیر حاکم طبقہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور حاکم طبقہ اقتدار کو اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح ایک ایسی تباہ کن جنگ چھڑ جاتی ہے جو صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب کہ دونوں میں سے ایک فریق دوسرے فریق کو فنا کردے۔

9 - رجال کو معیار بنانا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنّۃ نبیہ (مؤطأ، النہی عن القول بالقدر) یعنی میں تمھارے اندر دو بنیادی چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک تم ان کو پکڑے رہوگے، تم گمراہ نہ ہوگے۔ یہ دو چیزیں ہیں— خدا کی کتاب، اور اس کے رسول کی سنت۔ یہ بلاشبہہ اسلام کا ایک اہم عروہ تھا، لیکن بعد کے زمانہ میں یہ عروہ عملاً بالکل توڑ دیا گیا۔ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کے دین کا ماخذ اصلاً قرآن اورسنت نہیں رہا، بلکہ ان کے اکابر ان کے دین کا ماخذ بن گئے۔ اس تبدیلی نے اصل اسلام کو عملاً ایک معطّل دین بنا دیا ہے۔ اب تقریباً تمام مسلمان دین کے نام پر خود اپنے اکابر کے مذہب پر قائم ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں لوگوں کے سامنے قرآن اورسنت کا حوالہ دیجئے تو ان کو زیادہ اہم معلوم نہ ہوگا،لیکن اگر ان کے اپنے اکابر کے اقوال وآراء کا حوالہ دیجئے تو وہ فوراً اس کو قبول کرلیں گے۔ وہ اِس آیت قرآن کے مصداق بن جائیں گے: إذا ہم یستبشرون ( الزمر: 45)۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ان کے دین کا ماخذ قرآن اورسنت نہیں ہے، بلکہ عملاً ان کے اپنے اکابر ان کے لئے ان کے دین کا ماخذ ہیں۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا عین وہی حال ہوا ہے جس کو قرآن میں یہود کا شیوہ بتایا گیا ہے: اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أربابا من دون اللہ (التوبۃ: 31)

آخری بات

مذکورہ روایت میں ایک لفظ تشبّث استعمال ہوا ہے، تشبث کے لفظی معنی ہیں چمٹنا (to cling) روایت میں بتایا گیا ہے کہ جب اسلام کا ایک حکم ٹوٹے گا اور اس کی جگہ دوسری صورت آجائے گی تو لوگ اس دوسری صورت پر قائم ہوجائیں گے۔ جیسا کہ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب میری امت میں تلوار داخل ہوگی تو وہ پھر اس سے اٹھائی نہ جاسکے گی (إذا وضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہا إلی یوم القیامۃ) ایسا کیوں ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی قوم میں کوئی روایت (tradition)لمبی مدت کے بعد قائم ہوتی ہے، اور جب ایک روایت ٹوٹ جائے تو دوبارہ ان تاریخی اسباب کو یکجا کرنا سخت مشکل ہوجاتا ہے، جن کے تحت وہ روایت قائم ہوئی تھی۔ اس لئے کوئی روایت ٹوٹنے کے بعد عملاً قائم نہیں ہوتی۔کسی نے بجا طور پر کہا ہے کہ—ایک چھوٹی سی روایت بنانے کے لیے بہت لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے:

It requires a lot of history to make a little tradition.

اسلام کی تاریخ میں یہ اصول واقعہ بن چکا ہے- جو حکم ایک بار توڑ دیا گیا، و ہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کے غیر دانش مند رہنماؤں نے جذباتی سیاست کے تحت بار بارروایتوں کو توڑ ڈالا، چناں چہ اب امتِ مسلمہ تمام صالح روایات سے کٹی ہوئی ایک قوم بن چکی ہے۔ اس کے مہلک نتائج کا علم ہر ایک کو ہے، لیکن وہ مزید نادانی یہ کررہے ہیں کہ وہ اس کو ’’اغیار کی سازش‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اپنی غلطی کو مان کر ان روایتوں کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom