تشویہِ حقائق
دار العلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے ایک عربی اخبار نکلتا ہے جس کا نام الرائد ہے ۔ اس کے شمارہ 21 صفر 1408 ھ (16 اکتوبر 1987) میں صفحہ اول پر ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اسلام کے معاندین اسلام کو پیش کرنے میں جو طریقہ اختیار کرتے ہیں ، اس کو اس مضمون میں بجا طور پر تشویه الحقائق سے تعبیر کیا گیا ہے ، یعنی حقیقتوں کو مسخ کر کے پیش کرنا۔
معاندین اسلام کا یہی عام طریقہ ہے جو دور اول کے یہود سے لے کر موجودہ زمانہ کے مستشرقین تک میں پایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ وہ اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے حقیقت کو اس کی اصلی اور واقعی صورت میں پیش کیا تو وہ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے ۔ اس لیے وہ اسلام کی تعلیم یا اسلام کی تاریخ کو بگاڑ کر خود ساختہ صورت میں پیش کرتے ہیں تا کہ آسانی کے ساتھ اس کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاسکے ۔
مثال کے طور پر ہجرت، اسلامی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ اس واقعہ کو اگر سادہ طور پر"ہجرت " کہا جائے تو اس سے یہ تصوّر سامنے آتا ہے کہ یہ مقامِ عمل کی تبدیلی تھی جو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی۔ مگر معاندین اسلام بالقصد اس کے لیے ایسا لفظ استعمال کرتے ہیں جو فرار کے ہم معنی ٰہو۔ اس طرح ہجرت کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے ۔ اب اس کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ نعوذ باللہ یہ ایک بزدلانہ فعل تھا جو انفعالی نفسیات کے تحت اختیار کیا گیا ۔
الرسالہ کے مشن کے خلاف آج کل بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے ۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہےکہ یہ تمام لوگ بلا استثناء اسی طریقہ (تشویہِ حقائق) کو استعمال کر رہے ہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ یعنی الرسالہ کی بات کو بگاڑ کر پیش کرنا اور اس خود ساختہ بات کو الرسالہ کی بات قرار دے کر اس کی تنقید و تنقیص کرنا۔ مزید حیرت یہ ہے کہ خود ندوہ کے مذکورہ عربی اخبار (الرائد) نے بھی اسی آزمودہ طریقہ کو نہایت بے تکلفی کے ساتھ ہمارے خلاف استعمال کیا ہے ، اور اس کا یہ استعمال عین اسی شمارہ میں ہے جس میں اس نے یہو دیوں اور عیسائیوں کو تشویہ ِحقائق کا مجرم قرار دے کرشدت کے ساتھ ان کو نشانۂ ملامت بنایا تھا ۔
الرائد کے مذکورہ شمارہ میں آخری صفحہ پر "اخبار و تعلیقات "کے تحت ایک مضمون درج ہے ۔ اس میں راقم الحروف (وحید الدین خاں) کے ایک مطبوعہ مقالہ (ٹائمس آف انڈیا 15ستمبر 1987) کا حوالہ دیتے ہوئے میرے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ –––––– " انھوں نے اس میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اکثریتی فرقہ کی نسبت سے شکایت اور ناگواری کا طریقہ چھوڑ دیں اور اپنے مطالبات سے دستبردار ہو جائیں اور حالات کی تبدیلی کا اعتراف کر لیں اور شکست کو قبول کر لیں اور حقیقتِ حال کا سامنا کریں اور اپنے سیاسی موقف سے ہٹ جائیں اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھ جائیں اورنئے حالات کی روشنی میں نئے دور کا آغاز کریں "۔ الرائد کے اصل الفاظ یہ ہیں :
نصح فيه المسلمين بأن يتركوا طريق الشكوى والكراهية بالنسبة للأغلبية ويتنازلوا عن مطالبهم ويعترفوا بتغير الوضع ، ويقبلوا الهزيمة، ويواجهوا حقائق الوضع ، وينسحبوا من موقفهم السياسي، ويقعدوا في المقاعد الخلفية ويبدؤا عهداًجديداً في ضوء الظروف الجديدة -
الرائد کی مذکورہ عبارت تشویہ حقائق کی کھلی ہوئی مثال ہے۔ اس کو پڑھ کر ایک آدمی سمجھے گا کہ راقم الحروف نے مسلمانوں سے یہ کہا ہے کہ وہ نئے حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیں اور اکثریتی فرقہ کے مقابلہ میں ہزیمت اور پسپائی کی حیثیت کو قبول کرنے پر راضی ہو جائیں ۔ حالاں کہ ٹائمس آف انڈیا (15 ستمبر 1987) کے مفصل مقالہ کو پڑھ کر کوئی بھی شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں نے جو بات کہی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے ۔ میں نے تدبیری حکمت کی بات کہی ہے نہ کہ کسی قسم کی انہزا می پوزیشن اختیار کرنے کی۔
الرائد کی مطبوعہ "خبر" سے بظاہر یہ متبادر ہوتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے دور استے ہیں۔ ایک کفاح اور مطالبہ ٔحقوق کا راستہ دوسرا ، استلام اور انہزام کا راستہ۔ اس کے مطابق میرا کہنا یہ ہے کہ مسلمان کفاح اور مطالبہ کا راستہ چھوڑ کر استلام اور انہزام کا راستہ اختیار کر لیں۔ یہی ان کے لیے موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ الرائد کی یہ بات یقینی طور پر تشو یہ حقائق ہے نہ کہ اصل واقعہ کی ترجمانی ۔
ٹائمس آف انڈیا کے زیر بحث مضمون میں جو بات کہی گئی، وہ اس کے برعکس یہ تھی کہ مسلمان اس ملک میں دو چیزوں کے درمیان ہیں۔ ایک پیش آمدہ مسائل، اور دوسرے امکانی مواقع ۔ تاریخ کا تجربہ ہے کہ جو لوگ حال کے مسائل میں الجھتے ہیں۔ وہ مواقع کو استعمال کر کے اپنے مستقبل کی تعمیر نہیں کر پاتے ۔ اس ملک کے مسلمان پچھلے چالیس سال سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، اس لیے وہ مستقبل کی طرف ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے ۔
اب مسلمانوں کے لیے بہترین راہ یہ ہے کہ وہ مسائل کے بارے میں" صبر" کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مواقع کو بھر پور طور پر استعمال کریں تاکہ ان کا "کل" ان کے "آج" سے بہتر ہو سکے ۔ اس مشورہ کوانگریزی میں ان الفاظ میں درج کیا گیا تھا :
Starve the problems, feed the opportunities.
ہندستان کے مسلمان اپنے لیڈروں کی رہنمائی میں احتجاجی طریقہ پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، میں تعمیری طریقہ اختیار کرنے کا داعی ہوں ۔ یہی بات مذکورہ مضمون میں بھی کہی گئی ہے۔ مطبوعہ ریکارڈ کے مطابق، یہ بات میں نے پہلی بار انجمن تعلیمات دین کے ایک جلسہ میں پیش کی تھی جو 21 اکتوبر 1960 کو گونڈہ میں ہوا تھا اور جس میں مولانا ابو الحسن علی ندوی اور قاضی عدیل عباسی وغیرہ شریک تھے ۔ 66 – 1965 کے دوران میں نے یہی بات ندائے ملت(لکھنؤ) کے صفحات میں پیش کی ۔ 1967 سے 1974 تک میں اس کو الجمعیۃ ویکلی (دہلی) میں پیش کرتا رہا اب 1976 سے یہی بات ماہنامہ الرسالہ کے صفحات میں پیش کر رہا ہوں ۔
ٹائمس آف انڈیا کے مذکورہ مقالہ میں بھی میں نے یہی بات کہی ہے۔ یہ موجودہ حالات کے اعتبار سے عین اسلامی بات ہے۔ اور یہ وہی بات ہے جس کا ایک اعلیٰ نمونہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صلح حدیبیہ کی صورت میں ملتا ہے ۔ مقالہ کا حسب ذیل پیراگراف میرے نقطہ ٔنظر کا خلاصہ ہے :
In this world (of competition) it is only those who stop railing against defeat and accept it with a view to doing something positive about the situation who can ultimately succeed. We should never lose sight of the fact that a strategic retreat makes it possible to return to the fray. Such tactics were very well understood by the Muslims 1,400 years ago when they drew up the peace treaty of Hudaibiya which, although apparently over-conciliatory towards the opponent, ultimately permitted the Islamic mission to go forward unhindered.
یعنی یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے ۔ یہاں جو لوگ شکست کے خلاف شکوہ شکایت چھوڑ دیں اور حالات کے بارے میں کچھ مثبت کام کرنے کی خاطر اس کو مان لیں، وہی آخر کار کامیاب ہوتے ہیں ۔ ہمیں کبھی اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے کہ تدبیری طور پر پیچھے ہٹنا ، دوبارہ میدان مقابلہ میں آنے کو ممکن بناتا ہے ۔ اس حکمت عملی کو چودہ سو سال پہلے مسلمانوں نے بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا جب کہ انھوں نے حدیبیہ کے صلح نامہ کو تیار کیا تھا۔ یہ صلح اگر چہ بظاہر دشمن سے بہت زیادہ جھک کر کی گئی تھی۔ مگر آخر کار اس نے اسلامی مشن کو یہ موقع دیا کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتاچلا جائے ۔
ٹائمس آف انڈیا کے مذکورہ مضمون میں ایک ذیلی سُرخی ان الفاظ میں قائم کی گئی تھی :
Strategic Retreat.
یعنی تدبیری واپسی ۔ یہ عین وہی بات ہے جو خود قرآن (الانفال :16) میں کہی گئی ہے۔ مگر الرائد نے تشویہ حقائق کے اصول کے تحت یہ کیا کہ اس نے صرف لفظ Retreat کو لے لیا اور دوسرے لفظ Strategic کو حذف کر دیا ۔ یعنی جو چیز " تدبیری واپسی "کے طور پر کہی گئی تھی اس کو صرف "واپسی" بنا کر پیش کر دیا ۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کے ذریعہ کسی نے قرآن سے یہ حکم نکال لیا تھا کہ "نماز کے قریب نہ جاؤ" اور اس عجیب و غریب قرآنی تعلیم کا ماخذ یہ تھا کہ اس نے قرآن کی ایک آیت کو ادھوری شکل میں پیش کیا۔ قرآن میں کہا گیا تھا کہ : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ۔ (النساء :43) اس نے سادہ طور پر یہ کیا کہ آیت کے آخری لفظ کو حذف کر دیا اور کہا کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ: لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ اگر یہ کوئی طریق استدلال ہے تو اس طرح ہر بات ثابت کی جاسکتی ہے ، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ الٹی بات کیوں نہ ہو ۔