عمر بن عبد العزيز
عمر بن عبدالعزیز (101 – 62 ھ) بنو امیہ کے امراء میں سے تھے ۔ ان کی ابتدائی زندگی تعیش کی زندگی تھی ۔ ان کی رئیسانہ چال اتنی مشہور ہوئی کہ اس کو عمری چال ( المشية العمرية) کہاجانے لگا۔
99 ھ میں سلیمان بن عبد الملک اموی کی وفات ہوئی ۔ اس کی وصیت کے مطابق حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ مقرر ہوئے۔ وہ اگر چہ بظاہر عیش و عشرت کے ساتھ رہتے تھے۔ مگر ان کے سینے میں ایک دردمندانہ دل تھا۔ چنانچہ خلافت کے عہدہ پر تقرر کے بعد ان کی زندگی بالکل بدل گئی ۔ ذمہ داری کے احساس نے ان سے دنیوی لذت و آرام کا احساس چھین لیا۔ ان کے ایک ساتھی ان کےبارے میں کہتے ہیں :
رَأَيْتُهُ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ أَحْسَنُ النَّاسِ لِبَاسًا وَأَطْيَبُ النَّاسِ رِيحًا، وَأَخْيَلُ النَّاسِ فِي مِشْيَتِهِ ، ثُمَّ رَأَيْتُهُ بَعْدُ يَمْشِي مِشْيَةَ الرُّهْبَانِ۔ (مصنف ابن أبي شيبة،حدیث نمبر 35099)
میں نے ان کو مدینہ میں دیکھا اور وہ سب سے بہترلباس میں تھے ۔ اور سب سے اچھی خوشبو لگائےہوئے تھے ۔ اور سب سے زیادہ امیرانہ چال چلتےتھے۔ پھر میں نے ان کو اس کے بعد دیکھا کہ وہ درویش کی چال چل رہے تھے ۔
عمر بن عبدالعزیز علم میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان کی بابت ایک معاصر عالم نے کہا :
مَا كَانَ الْعُلَمَاءُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلاَّ تَلاَمِيذٌ . (مجلة الرسالة969/ 22 )
(عمر بن عبد العزیز کے سامنے علماءمحض شاگرد معلوم ہوتے تھے)
عمر بن عبد العزیز سے پہلے بنو امیہ کے خلفاء نہایت شان و شوکت کے ساتھ رہتے تھے ، مگر انھوں نے اس قسم کی تمام چیزوں کو چھوڑ دیا۔ خلافت کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ان کے سامنے شاہانہ سواری لائی گئی جو نہایت شاندار اور مزین تھی، مگر انھوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ میرا جانور میرے لیے زیادہ ٹھیک ہے :
(دَابَّتِي أَوْفَقُ لِي) (الكامل في التاريخ - 4/ 97)
حضرت عمر بن عبد العزیز شوریٰ کے اصول پر نہایت شدت کے ساتھ قائم تھے۔ خلافت کے عہدہ پر ان کا تقرر سابق خلیفہ کی وصیت کے تحت ہوا تھا ۔ مگر انھوں نے اس کو کافی نہیں سمجھا۔اس سلسلہ میں تاریخ کا بیان ہے :
وَجَمَعَ النَّاسَ فِي الْمَسْجِدِ ، وَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ لَهُمْ : إنِّي قَدْ خَلَعْتُ مَا فِي أَعْنَاقِكُمْ مِنْ بَيْعَتِي ، فَاخْتَارُوا لِأَنْفُسِكُمْ - فَصَاحَ النَّاسُ صَيْحَةً وَاحِدَةً : قَدْ اخْتَرْنَاك يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ۔ .
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدِ ابْتُلِيتُ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْ غَيْرِ رَأْيٍ كَانَ مِنِّي إِلَيْهِ، وَلَا طَلْبَةَ لَهُ، وَلَا مَشُورَةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنِّي قَدْ خَلَعْتُ مَا فِي أَعْنَاقِكُمْ مِنْ بَيْعَتِي، فَاخْتَارُوا لأَنْفُسِكُمْ، فَصَاحَ النَّاسُ صَيْحَةً وَاحِدَةً، قَدِ اخْتَرْنَاكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ۔(سير السلف الصالحين - إسماعيل الأصبهاني3/ 854)
عمر بن عبد العزیز نے تقرری کے بعد لوگوں کو دمشق کی جامع مسجد میں جمع کیا ۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ میری بیعت کا قلادہ جو تمہاری گردن میں تھا اس کو میں نے اتار دیا۔ پس تم خود اپنے لیے کسی کو پسند کر کے خلیفہ بنالو۔ یہ سن کر تمام لوگ ایک آواز چیخ اٹھے ، اے امیر المومنین ہم آپ ہی کو منتخب کرتے ہیں ۔
سابق خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے انتقال کے بعد لوگ مسجد میں جمع کیے گئے۔ رجاءبن حَیَوہ نے سلیمان بن عبد الملک کا وہ وصیت نامہ پڑھ کر سنایا جس میں عمر بن عبد العزیز کو خلیفہ نامزد کیا گیا تھا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا حال اس وقت یہ تھا کہ وہ خلافت کے لیے اپنا نام سن كر إنا لله وانا اليه راجعون پڑھ رہے تھے ۔ اس تحریر کو سن کر وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہ گئے ۔ ایک شخص نے ہاتھ پکڑ کر انھیں اٹھایا اور لے جا کر منبر پر بٹھایا۔ اس کے بعد خلافت کی بیعت ہوئی ۔ جب آپ بیعت سے فارغ ہو کر گھر واپس آئے تو آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔
خلافت کے بعد آپ کی خدمت میں سواری کے لیے شاہی گھوڑے پیش کیے گئے تو آپ نے فرمایا : میرا جانور میرے لیے زیادہ بہتر ہے (دَابَّتِي أَوْفَقُ لِي) اسی طرح آپ سے کہا گیا کہ شاہی محل میں قیام کریں ۔ آپ نے فرمایا کہ میرا خیمہ میرے لیے کافی ہے (فِي فُسْطَاطِي كِفَايَةٌ)
وَفِي فُسْطَاطِي كِفَايَةٌ (الكامل في التاريخ -4/ 97)
سلیمان بن عبد الملک کا ایک بھتیجا عبد العزیز بن ولید بن عبد الملک تھا۔ سلمان بن عبد الملک کی وفات کے وقت وہ دار الخلافہ سے باہر تھا۔ اس کو عمر بن عبدالعزیز کی بیعت کا حال معلوم نہ ہو سکا تھا۔ چنانچہ اس نے سلیمان کی وفات کی خبر سن کر خلافت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی فوج لے کر دمشق کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب وہ دمشق پہنچا اور اس کو معلوم ہوا کہ عمر بن عبدالعزیز کےہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی ہے تو بلا تاخیر وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے ہاتھ پرخلافت کی بیعت کی ۔
عبد العزیز بن ولید نے کہا کہ مجھ کو آپ کی بیعت کا حال معلوم نہ تھا ، ورنہ میں اپنی خلافت کا اعلان نہ کرتا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ اگر تم خلافت کے لیے کھڑے ہو جاتے تو میں ہر گز تمہارے مقابلہ پر نہ آتا بلکہ اس سے الگ ہو کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتا۔ عبد العزیز بن ولید نے کہا کہ خدا کی قسم آپ کی موجودگی میں کسی اور کو میں خلافت کا مستحق نہیں سمجھتا۔
مسلمانوں میں انتہا پسند خوارج کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ حضرت علی کے زمانہ سے ہرحکمراں کے خلاف جنگ چھیڑے رہتا تھا۔ مگر جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو خوارج نے حکومت سے لڑائی ختم کر دی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم ایسے صالح آدمی سے جنگ کریں۔
(مَا يَنْبَغِي لنا أَن نُقَاتِل هَذَا الرجل ) (أخبار أبي حفص عمر بن عبد العزيز ۔ص63)
عمر بن عبد العزیز ابتداء سے ایک حق پرست اور با اصول آدمی تھے۔ خلافت سے پہلے وہ مدینہ کے امیر تھے ۔ ان کو حجاج بن یوسف کے ظلم کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے اس کی شکایت لکھ کر خلیفہ کے نام روانہ کی۔ مگر حجاج خلیفہ کے ذہن پر چھایا ہو ا تھا۔ چنانچہ حجاج کی معزولی تو نہیں ہوئی۔ البتہ اس شکایت کی بنا پر خود عمر بن عبد العزیز امارت مدینہ سے معزول کر دیے گئے۔ یہ واقعہ 93 ھ کا ہے ۔
خراسان کے عامل جراح بن عبد اللہ نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ اہل خراسان بہت نا ہموار لوگ ہیں، وہ تلوار کے بغیر سیدھے نہیں ہوں گے۔ اس لیے ان کے خلاف تلوار کے استعمال کی اجازت دی جائے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ اہل خراسان تلوار کے بغیر درست نہ ہوں گے ۔ انصاف کرنا اور حق دار کو اس کا حق پہنچانا وہ چیزیں ہیں جو ہر ایک کو درست کر دیتی ہیں۔ اس لیے تم ان کے درمیان انہیں دونوں چیزوں کی اشاعت کرو۔
وقت کے تمام علماء نے آپ کے غیرمعمولی علم کی گواہی دی ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ ہم عمر بن عبدالعزیز کے پاس اس خیال سے آئے کہ وہ ہم سے کچھ سیکھیں گے ، مگر ان کے پاس آنے کے بعد ہمیں خود ان سے سیکھنا پڑا ––––– اس سے مراد کتابی علم نہیں ، بلکہ وہ وہ علم ہے جوخشیت ِخداوندی (فاطر : 28) سے پیدا ہوتا ہے۔ کتابی علم کی ایک حد ہے، مگر خشیت کے ذریعہ ملنے والے علم کی کوئی حد نہیں ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کا دینی مقام اتنا بلند ہے کہ وہ عمر ثانی کہے جاتے ہیں۔ ان کے مخالفین تک ان کی عظمت اور پاکبازی کا اعتراف کرتے تھے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ بنوامیہ میں وہ واحد شخص تھے جن کا احترام بعد کو آنے والے بنو عباس کرتے تھے ، حتیٰ کہ وہ شیعوں کے درمیان بھی انتہائی محترم سمجھے جاتے تھے جو دوسرے مسلمانوں سے الگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد علی کی پیروی کرتے ہیں :
He, alone of the Umayyads, was respected by the later Abbasid dynasty, and was highly regarded even among the Shi'ites, schismatic followers of Muhammad's son-in-law Ali (X/248).
جراح بن عبد اللہ اسلمی خراسان کے عامل (گورنر) تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس شکایت پہنچی کہ اہل ذمہ میں سے جو لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں، جراح بن عبد اللہ ان سے بھی جزیہ وصول کرتے ہیں۔ آپ نے فوراً جراح بن عبد اللہ کے پاس یہ حکم بھیجاکہ جو شخص نماز پڑھتا ہو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے ۔ اس خبر کو سننے کے بعد لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے ۔
جراح بن عبد اللہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا کہ اگر ایسی پالیسی اختیار کی گئی تو ہماری آمدنی بہت کم ہو جائے گی اور حکومت کو سخت مالی نقصان ہو گا ۔ آپ نے فرمایا : تمہارا برا ہو، محمد ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے نہ کہ مال گزاری وصول کرنے کے لیے (ویحک إن محمداً بُعث هادياً ولم يُبعث جابيًا )
إِنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم بُعِثَ هَادِيًا، وَلَمْ يُبْعَثْ جَابِيًا. ( تفسير المنار 11،/ 24)