ذہنیت کا فرق
4 نومبر 1987 کو لاہور میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ریلائنس کپ کے لیے کرکٹ میچ تھا۔ اس میچ میں پاکستان کی ٹیم ہار گئی۔ یہ خبر بہت سے پاکستانیوں کے لیے اتنی سخت ثابت ہوئی کہ ان پر دل کا دورہ پڑ گیا ۔ حتیٰ کہ بعض افراد اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے (ٹائمس آف انڈیا 8 نومبر 1987)
یہی بات ہندستان میں اس وقت پیش آئی جب کہ اگلے دن 5 نومبر کو بمبئی میں انگلینڈ کے مقابلہ میں ہندستان کی ٹیم ہار گئی۔ ہندستان میں کسی کے حرکت قلب بند ہونے کی اطلاع تو نہیں آئی ۔ البتہ ایک اور شکل میں یہاں بھی موتیں واقع ہوئیں۔ دونوں طرف کے پرستاروں کے درمیان ایک سے زیادہ مقامات پر ٹکراؤ ہو گیا ۔ اور وہ نا خوش گوار چیز پیش آئی جس کو ہندستان ٹائمس (6 نومبر 1987) نے بجا طور پر میچ فسادات (Match riots) کا نام دیا ہے۔
9 نومبر کی ایک ملاقات میں اس کا ذکر مسٹر شکیل احمد خان (پیدائش 1940) سے ہوا۔ انھوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے ، اور آج کل عرب امارات کی ایک فرم میں چیف انجینئر ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں میرا طریقہ بالکل الگ ہے۔ میں کبھی شکست کے احساس سے دوچار نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ جیتنے والی ٹیم کو میں اپنی ٹیم سمجھتا ہوں :
I never lose, winning team is my team.
یہی وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانےمیں اسپورٹس مین شپ (Sportsmanship) کہا جاتا ہے۔ باعتبار مفہوم اس کو ہنر پسندی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ صحت مند ذہن کی علامت ہے۔ اس ذہن کے مطابق اصل چیز کھیل ہے نہ کہ کھیلنے والا۔ صحیح اسپورٹس مین اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کی نگاہ ہنر پر ہو۔ وہ یہ دیکھے کہ کھیل کیسا کھیلا گیا، نہ یہ کہ کون شخص کھیلا ۔
1947 کے" انقلاب" کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہندستان اور پاکستان میں اس صحت مند مزاج کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ یہاں کے لوگ ہنر مندی سے محظوظ نہیں ہو پاتے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ جیتنے والا کون ہے اور ہارنے والا کون ۔ اپنی قوم کا آدمی جیتے تو وہ خوشی مناتےہیں ، اور اگر اتفاق سے دوسری قوم کا آدمی جیت جائے تو غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں ۔
یہ صحت مند ذہنیت نہیں ، یہ مریضانہ ذہنیت ہے۔ جن لوگوں کا یہ مزاج ہو وہ کبھی کوئی اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ ان کے اندر قومی خود غرضی تو خوب ترقی کرے گی ، مگر ان کے درمیان سائنٹفک مزاج کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔ وہ مزاج جس کا ایک نمونہ موجودہ زمانہ میں جاپان نے پیش کیا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی قوم پسند یا فرقہ پسند نہ ہو بلکہ وہ معیار پسند ہو ۔ جن لوگوں کے اندر یہ صفت ہو، وہ جب کوئی کام کرتے ہیں تو ان کی ساری توجہ معیار (Quality) پر ہوتی ہے۔ وہ اپنا کام اس طرح کرتے ہیں کہ اس کے بارے میں وہ اعلیٰ معیار سے کم تر کسی چیز پر راضی نہیں ہوتے ۔
جاپانیوں کی یہی خصوصیت ہے جس کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ اپنی مصنوعات کو نقص بدرجۂ صفر (Zero-defect) کے درجہ تک پہونچا سکیں ۔ اور اپنے بڑھے ہوئے معیارکی بنا پر ساری دنیا کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیں ۔
اسرائیل کے قیام سے پہلے کی بات ہے ، ایک مسلم پہلوان اور ایک یہودی پہلوان میں کُشتی کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلہ میں مسلمان کامیاب رہا۔ اس نے یہودی پہلو ان کو منٹوں کے اندر گرا دیا ۔ بظاہر یہو دی پہلوان کے لیے یہ بڑی ذلت کی بات تھی ۔ مگر اس نے فوراً اٹھ کر مسلم پہلوان کو گلے سے لگا لیا۔ اس نے کہا : میں تمہاری ذات کی نہیں بلکہ تمہارے فن کی قدر کرتا ہوں ۔ تم نے جس فن کاری کے ساتھ مجھے گرایا ہے وہ اتنا اعلیٰ ہے کہ میں نے اس کاتصور بھی نہیں کیا تھا۔
کسی قوم میں اسپورٹسمین اسپرٹ کا ہونا یا نہ ہونا کوئی جزئی بات نہیں۔ اس کا تعلق اس قوم کے پورے کر دار سے ہے ۔ اس کا ظہور زندگی کے تمام معاملات میں ہوتا ہے۔ ایک نوعیت کا ذہن آدمی کو اپنے حریف سے صرف نفرت کرنا سکھاتا ہے۔ حریف کی خوبیاں بھی اس کو برائی کی صورت میں نظر آتی ہیں ۔ یہ چیز اس کو ہر اعتبار سے پست کردار بنا دیتی ہے ۔ اس کے برعکس دوسرا مزاج آدمی کو معیار پسند بناتا ہے اس سے آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا انسان ابھرتا ہے جس کے لیے دشمن کا عمل بھی مفید سبق حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔