جن اور عملیات
عوام میں یہ عقیدہ پھیلا ہوا ہے کہ جنات انسانوں کے اوپر قابو پالیتے ہیں اور انھیں پریشان کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل لغو ہے۔ قرآن وحدیث میں اس کے لیے کوئی بنیا د موجود نہیں ۔
قرآن سے ثابت ہے کہ شیطان جنوں میں سے ایک جن ہے (فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ ، الكھف: 50) اور شیطان کے بارےمیں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اس کو انسانوں کے اوپر کوئی عملی اختیار حاصل نہیں :
اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ( الحجر :42)
جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں مگروہ جو تیری راہ چلا بہکے ہوئے لوگوں میں سے ۔
یہی بات قرآن میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں ہے کہ شیطان کو ان لوگوں پر کوئی اختیار نہیں جو ایمان والے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ شیطان کا اختیار صرف ان لوگوں پر ہے جو اس کو اپنا دوست بنائیں (اِنَّهٗ لَيْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَي الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهٗ( النحل:99,100)
غیر اہل ایمان پر بھی شیطان کو عملی یا جسمانی اعتبار سے کوئی اختیار نہیں ۔ ان پر بھی اس کوصرف بہکانے کا اختیار ہے۔ جو لوگ معرفت حق سے خالی ہوں اور جو تو ہم پرستی میں مبتلا ہوں ان کو بہکانے میں شیطان کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہی اس کی آخری حد ہے ۔ چنانچہ قیامت کے دن شیطان اپنے پیرؤوں سے کہے گا کہ مجھے تمہارے اوپر کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ الّا یہ کہ میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری بات سنی ( مَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ ۚ ، )ابراهيم22:)
سورہ ابراہیم کی مذکورہ آیت ( 22 ) کی تشریح علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی نے ان الفاظ میں کی ہے : (وما كان لى عليكم من سلطان) من تسلط و اقتدار ( الا ان دعوتکم) لكني دعوتكم إلى الضلالة بوسوستي و تزئيني (فاستجبتم لى) فأسرعتم إجابتی۔ التفسير النسفي ، الجزء الثانی، صفحہ 260
"تمہارے اوپر مجھے سلطان نہ تھا " کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اوپر مجھے کوئی تسلط اور اقتدار حاصل نہ تھا ۔ "الا یہ کہ میں نے تمہیں پکارا"۔ یعنی میں نےتم کو گمراہی کی طرف وسوسہ اور تزئیین کے ذریعہ بلایا ۔ " تو تم نے میری پکار پر لبیک کہا " یعنی تم میری پکار پر دوڑ پڑے۔
شیطان کیا ہے ، وہ ایک جن ہے ۔ بلکہ وہ جنوں کا سردار ہے ۔ قرآن کے مطابق اس کو انسان کے اوپر کوئی عملی یا جسمانی اختیار حاصل نہیں۔ جب قرآن کا بیان یہ ہے تو ایسے تمام خیالات باطل اور لغو ہیں جن میں یہ فرض کیا گیا ہو کہ شیطان (یا جنات ) آدمی کے اوپر آتے ہیں اور وہ انسان کو جسمانی طور پر مغلوب کر کے اس کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔ شیطان (یا جنات) آدمی کو صرف بہکا سکتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ اور کرنے پر وہ قادر نہیں ۔
اسی طرح یہ خیال بھی سراسر لغو ہے کہ انسان عملیات کے ذریعہ جنوں کو مسخر کر لیتا ہے او ران سے بڑے بڑے کام لیتا ہے۔ قرآن وحدیث کے پورے ذخیرے میں اس قسم کے عقیدہ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں۔ جنات کی تسخیر کا عقیدہ در اصل یہود کی خرافات ہے ۔ یہ یہود سے دوسری قوموں میں بھی آگیا ہے ۔ یہود نے حضرت سلیمان کے معاملہ کی غلط تشریح کر کے جن کی تسخیر اور عملیات کافن ایجاد کیا اور اس کو بے بنیا د طور پر مذہبی حیثیت دیدی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام بنی اسرائیل کے مشہور پیغمبر اور بادشاہ ہیں ۔ ان کا زمانہ دسویں صدی قبل مسیح ہے ۔ انھوں نے تقریباً چالیس سال تک حکومت کی ۔ ان کا پایہ تخت پر و شلم تھا۔ شام کے علاوہ آپ کی سلطنت کے حدود ایک طرف فرات تک اور دوسری طرف مصر کی سرحد تک پھیلے ہوئے تھے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی سلطنت (930 - 1000 ق م ) کا نقشہ انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا (1984) جلد 17 صفحہ 943 پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
قرآن کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان کو غیر معمولی طاقتیں حاصل تھیں ۔ ہوا ان کے تابع تھی ۔ جنات ان کے لیے مسخر کر دیے گئے تھے۔ وہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے ۔ وہ غیر معمولی واقعات ظہور میں لانے پر قا در تھے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ چیزیں پیغمبر کی حیثیت سے دی گئی تھیں ۔ مگر یہودیوں میں ایک طبقہ پیدا ہوا جو یہ کہتا تھا کہ سلیمان جو غیر معمولی کام کرتے ہیں وہ سب جادو کے زور پر کرتے ہیں۔یہ ذہن یہودیوں میں اتنا بڑھا کہ وہ حضرت سلیمان کی پیغمبری کے منکر ہو گئے ۔ وہ کہنے لگے کہ سلیمان جادوگر تھے نہ کہ پیغمبر ۔ چنانچہ موجودہ بائبل میں حضرت سلیمان کے بارےمیں جو باب ہے وہ نہ صرف یہ کہ آپ کو پیغمبر کی حیثیت سے پیش نہیں کرتا بلکہ اس کو پڑھ کر آپ کے کردار کے بارے میں بھی کوئی اونچی تصویرنہیں بنتی : لَمَّا ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا نَزَلَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ، سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، وَعَدَّهُ فِيمَنْ عَدَّه مِنَ الْمُرْسَلِينَ، قَالَ مَنْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ مِنْ يَهُودَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ مُحَمَّدٍ! يَزْعُمُ أَنَّ ابْنَ دَاوُدَ كَانَ نَبِيًّا، وَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا سَاحِرًا. ( تفسیر ابن کثیر، الجزء الاول ، صفحہ 136)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر کیا جو سلیمان بن داؤد کے بارے میں آپ پر اترا تھا اور ان کو پیغمبروں میں سے شمار کیا تو مدینہ کے یہودیوں نے کہا کہ کیا تم محمد پر تعجب نہیں کرتے، ان کا گمان ہے کہ ابن داؤد نبی تھے۔ خدا کی قسم وہ تو صرف ایک جادو گر تھے۔
یہود کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانےمیں انہوں نے جادو اور عملیات کا زبردست کاروبار پھیلا رکھا تھا۔ جیوش
انسائیکلو پیڈیا میں اس کا تفصیلی ذکر ہے ، اس سلسلے میں مقالہ نگار نےیہ الفاظ لکھے ہیں :
Adultery and sorcery have destroyed everything, the Majesty of God departed from Israel. Exorcism also flourished. The Greco-Roman world regarded the Jews as a race of Magicians.
Jewish Encyclopedia, Vol. VII, p. 255.
بدکاری اور جادو نے ہر چیز کو برباد کر دیا تھا۔ خدا کی عظمت اسرائیل سے رخصت ہو گئی تھی۔ جھاڑ پھونک بھی ان کے درمیان کثرت سے پھیلا ہوا تھا۔ یونانی اور رومی دنیا یہود کو جادوگروں کی ایک نسل سمجھنے لگی تھی ۔
جادو اور عملیات کے اس کاروبار کو یقینی ثابت کرنے کے لیے انھیں کوئی حوالہ درکار تھا اور یہ حوالہ انھوں نے حضرت سلیمان کی زندگی میں دریافت کر لیا ۔ حضرت سلیمان کے حیرت انگیز واقعات لوگوں کو معلوم تھے۔ یہود نے کہا کہ سلیمان یہ تمام واقعات جادوگری کے زور پر کرتے تھے نہ کہ پیغمبری کے زور پر ۔
بالفاظ دیگر ، یہود نے حضرت سلیمان کو پیغمبروں کی صف سے نکال کر عام انسانوں کی صف میں کھڑا کر دیا ۔ اگر وہ انہیں پیغمبر کہتے تو ان کے غیر معمولی واقعات معجزہ قرار پاتے اور معجزہ صرف پیغمبر سے صادر ہوتا ہے ۔ عام انسان معجزہ دکھانے پر قادر نہیں۔ مگر جب انھوں نے حضرت سلیمان کو ایک عام انسان قرار دیا ۔ اور ان کے غیر معمولی واقعات کو جا دو بتایا تو ان واقعات کا ظاہر کرنا عام آدمی کے بس کی چیز بن گیا۔ کیوں کہ جادو کے کرشمے عام انسان دکھاتا ہے ، اس کے لیے پیغمبر ہونے کی ضرورت نہیں ۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد کچھ مفاد پرست یہودیوں نے یہ کیا کہ جھوٹے قصے کہانیاں بنا کر انھوں نے مشہور کیا کہ حضرت سلیمان جو غیر معمولی کارنامے کرتے تھے وہ کوئی پیغمبری کا معاملہ نہ تھا ، وہ جادو کا معاملہ تھا ۔ پیغمبر کا معجزہ صرف پیغمبر کے لیے خاص ہوتا ہے ۔ وہ ایک استثنائی واقعہ ہوتا ہے جس کو دوسرا عام آدمی دہرا نہیں سکتا۔ اس لیے انھوں نے آپ کے کارناموں کو معجزہ کے بجائے جادو بتایا تاکہ اس کے نام پر اپنا عملیاتی کاروبار جاری کر سکیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے :
وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ (البقره :102)
(یہود کے ایک گروہ نے آسمانی کتاب پس پشت ڈال دی) وہ اس چیز کے پیرو بن گئے جو شیاطین سلیمان کی بادشاہت پر پڑھتے تھے۔ اور سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے ۔
اس آیت میں کفر سے مراد سحر ہے جیسا کہ آیت کا اگلا ٹکڑا واضح کر رہا ہے ۔ سحر کو کفر اس کی شناعت کی بنیاد پر کہہ دیا۔ جیسے کوئی نوجوان جھوٹ بولے تو کوئی شخص کہے : یہ تم نے کیا شیطانی کی، ایسی شیطانی تو تمہارے باپ نے کبھی نہیں کی تھی۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہودیوں نے آپ کی طرف منسوب کر کے سحر اور عملیات کا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ اسی کی بابت فرمایا گیا کہ تم یہ جو سلیمان کی طرف منسوب کر کے کر رہے ہو یہ صرف تمہاری سرکشی ہے ورنہ سلیمان کا تعلق اس قسم کے جادو اور عملیات سے ہر گز نہ تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام پیغمبر تھے ۔ وہ جو کچھ کرتے تھے ، خدا کی مدد سے کرتے تھے۔ اس کے بر عکس سحر نام ہے غیر اللہ میں تصرف کی طاقت فرض کر کے اس کی بنیاد پر باطل کر شمے دکھانے کا۔ مثلاً ستاروں میں تاثیر کا عقیدہ ، جنات کو مسخر کرنے کا عقیدہ، وغیرہ ۔ مشرک قوموں اور توہم پرست طبقوں میں اس کا رواج کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مگر جب اسلام آیا تو اس نے ان چیزوں کوحرام قرار دیدیا۔ یہاں سحر (جا دو) سے متعلق کچھ حدیثیں نقل کی جاتی ہیں :
إِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاء، فَجَاءَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ، ۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر 2865 )
حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بندوں کو سیدھا اور صحیح پیدا کیا ہے۔ پھر شیطانوں نے ان کو ان کے دین سےپھیر دیا۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مَنْ أَتَى عَرَّافًا أَوْ كَاهِنًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ
جو شخص نجومی یا کاہن کے پاس جائے تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمد پر اتاری گئی ہے ۔
مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً وَنَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ(تفسير ابن كثير ۔1/ 251)
جس شخص نے گرہ لگائی اور اس میں پھونک ماری تو اس نے جادو کیا ( اور جادو اسلام میں نہیں )
حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ (سنن الترمذی،حدیث نمبر 1460)
ساحر کی حد اس کو تلوار سے مارنا ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کی بنا پر فقہاء اسلام نے لکھا ہے کہ جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ شیاطین اس کے لیے جو چاہے کر سکتے ہیں تو وہ کافر ہے (مَنِ اعْتَقَدَ أَنَّ الشَّيَاطِينَ تَفْعَلُ لَهُ مَا يَشَاءُ فَهُوَ كَافِرٌ ، تفسیر ابن کثیر، الجزء الاول صفحہ 147)