شیطان کی پیروی
روایات میں آتا ہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق مدینہ کی مسجد نبوی میں آئے تو دیکھا کہ صحابہ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ ذکر کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اگر چہ اس بات کو بیان کرنے والے صحابہ کرام تھے اور یہ بات مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر بیان ہو رہی تھی ، مگر حضرت عمر نے اس سے انکار کیا کہ وہ محض سن کر اس کو مان لیں ۔ انھوں نے کہا کہ میں اس کے بارے میں اس وقت تک کوئی رائے نہیں دے سکتا جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دریافت نہ کرلوں۔
چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ پر آئے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر آواز دی ۔ آپ سے اجازت لے کر اندر داخل ہوئے اور مذکورہ خبر بیان کر کے اس کی اصل حقیقت دریافت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں میں نے طلاق نہیں دی ہے ۔ حضرت عمر اس کے بعد دوبارہ مسجد نبوی میں آئے اور اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عورتوں کو طلاق نہیں دی ہے ۔ اس پر قرآن میں یہ آیت اتری :
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا (النساء : 83)
اور جب ان کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اس کورسول تک یا اپنے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو ان میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت کو جان لیتے۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے ۔
آج کل فساد یا فرقہ وارانہ خبروں کے معاملہ میں تمام مسلمان اس اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق شاید چند مسلمان بھی اس ملک میں ایسے نہیں ہیں جو ہند و تعصب یا فرقہ وارانہ فساد کی کوئی خبر سنیں تو اس کی پوری طرح تحقیق کریں اور اس کےتمام متعلقہ پہلوؤں کی جانچ کے بعد اپنی رائے قائم کریں ۔ ہر ایک کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہند و یا حکومتی شعبوں کے بارے میں جو کچھ سنا اسکو مان لیا اور فوراً ہی اس کو پھیلانا شروع کو کر دیا ۔
آج کل کسی بات کو پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ اخبارات ہیں۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کے اردو اخبارات کو دیکھئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی ممنوعہ عمل کی ایجنسی بن گئے ہیں مسلمانوں نے آج کل بے شمار اخبارات نکال رکھے ہیں ، ان اخبارات کا مشترک کاروبار یہی ہے کہ ہندو-مسلم مسائل سے متعلق کوئی بات پا جائیں تو فوراً اس کو بڑھا چڑھا کر چھا پیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کریں ۔
صحابہ کرام سے تو اس قسم کی ایک معمولی لغزش محض وقتی طور پر ہوگئی تھی۔ اور تنبیہ کے بعد وہ فورا ًپلٹ آئے۔ مگر اس ملک کے مسلمان نصف صدی سے اسی قسم کی صحافت میں گم ہیں۔ صحافت کی اس قسم کو موجودہ زمانہ میں زرد صحافت (ایلو جرنلزم ) کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ نے اس زرد صحافت کو نہایت نفع بخش کاروبار سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے ۔ مگر انھیں جاننا چاہیے کہ یہ عین وہی جرم ہے جس کو قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں اتباع شیطان کہا گیا ہے ۔
مذکورہ آیت میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی اہم خبر ملے تو اس کو رسول کی طرف اور اصحابِ امر کی طرف لوٹاؤ۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ ایسی ہر خبر کو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور آپ کی چھوڑی ہوئی سنت کی روشنی میں جانچنا چاہیے ، اور اسی کی روشنی میں اس کے بارے میں اپنارویہ متعین کرنا چاہیے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس طرح کے امور میں وہ سنت ِرسول کی پابندی کریں نہ یہ کہ قومی جذ بات جدھر چلنے کا تقاضا کریں اسی طرف تمام لوگ چل پڑیں ۔
دوسری چیز اصحاب امر کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اس حکم کی تعمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ مسلمانوں کے درمیان "اصحابِ امر" کا وجود ہو۔ اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کا اہتمام کریں ۔ اگر با اختیار اصحاب امر موجود نہ ہوں تو رضا کارانہ بنیاد پر اپنے درمیان اصحاب امر کو وجود میں لائیں اور تمام اہم امور میں اسی اجتماعی ادارہ کے فیصلہ کی پیروی کریں نہ کہ اپنی انفرادی رائے کی ۔