ممکن اور نا ممکن
سابق وزیر اعظم ہند لال بہادر شاستری جنوری 1966 میں انتقال کر گئے ۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی نے مسز اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنایا۔ تاہم مرارجی ڈیسائی سے ان کی کش مکش جاری رہی۔ کیوں کہ وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے ۔ 1967 کے الکشن کے بعد مرار جی ڈیسائی کو نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔
مگر مرار جی ڈیسائی نائب وزیر اعظم کے عہدہ کو اپنے لیے کمتر سمجھتے تھے۔ چنانچہ کش مکش بدستور جاری رہی ۔ سابق وزیر اطلاعات مسٹر اندر کمار گجرال نے لکھا ہے کہ 1969 میں مسز اندرا گاندھی نے ان کے ذریعہ مرارجی ڈیسائی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو مزید اعزاز دے کر راشٹرپتی (پریسیڈنٹ) کا عہدہ دیدیا جائے ۔ مسٹر گجرال کا بیان ہے کہ جب انھوں نے یہ پیش کش مرار جی ڈیسائی کے سامنے رکھی تو بلا تاخیر ان کا جواب یہ تھا :
Why not she herself?
اندرا گاندھی خود کیوں نہیں (ٹائمس آف انڈیا 12 جولائی 1987) یعنی اندرا گاندھی خود پریسیڈنٹ بن جائیں اور مجھے وزیر اعظم بنا دیں ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مرارجی ڈیسائی کانگریس سے الگ ہو گئے۔ انھوں نے وزیر اعظم بننے کے لیے سارے ملک کو الٹ پلٹ ڈالا۔ مارچ 1977 کے الکشن میں جنتا پارٹی کی جیت کے بعد وہ مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بن بھی گئے۔ مگر جلد ہی بعد وہ سیاسی زوال سے دوچار ہوئے اور پھر کبھی ابھر نہ سکے ۔
مرار جی ڈیسائی کی سیاسی ناکامی کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ ممکن کو چھوڑ کر نا ممکن کی طرف دوڑے۔ اگر وہ اس راز کو جانتے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے جو آخری ممکن چیز ہے وہ صدارت ہے نہ کہ وزارت عظمیٰ، تو یقیناً وہ ذلت اور ناکامی سے بچ جاتے۔ مگرناممکن کے پیچھے دوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممکن سے بھی محروم ہو کر رہ گئے ۔
نا ممکن کے پیچھے دوڑنا ، آدمی کو ممکن سے بھی محروم کر دیتا ہے ۔ جب کہ ممکن پر قانع ہونےوالا ممکن کو بھی پاتا ہے اور بالآخر ناممکن کو بھی۔