دنیا اور آخرت
موجودہ دنیا میں حق کے پاس دلیل ہے مگر طاقت نہیں ۔ آخرت کی دنیا میں حق کے پاس دلیل بھی ہوگی اور طاقت بھی ––––– یہی ایک لفظ میں موجودہ دنیا اور آخرت کی دنیا کا خلاصہ ہے۔
اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کو آخرت کی دنیا میں عزت اور ترقی کا مقام دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کے سامنے اس وقت جھک گئے جب کہ وہ حق کے سامنے جھکنے کے لیے مجبور نہ تھے ۔ جنھوں نے حق کا اعتراف اس وقت کیا جب کہ وہ اس کا انکار بھی کر سکتے تھے ۔
موجودہ دنیا میں انسان کی سب سے بڑی خوبی اعتراف ہے ۔ اپنے سے باہر جو واقعہ موجود ہے ، اس کا اعتراف کسی تحفظ ذہنی کے بغیر کرنا ، یہی کمال انسانیت ہے ۔ یہی وہ بنیا دی انسانی صفت ہے جس سے دوسری تمام صفات انسانی پیدا ہوتی ہیں ۔ جس آدمی کے اندر جتنا زیادہ اعتراف کا مادہ ہو گا ، اتنا ہی زیادہ اس کی انسانیت ترقی کرے گی۔ اور کسی شخص کے اندر اعتراف کے معاملہ میں جتنی کمی ہوگی اتنا ہی وہ گراوٹ کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔
اس اعتراف کا اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے ۔ خدائی سطح پر ، اور علمی حقائق کی سطح پر ۔ مومن کے جذبۂ اعتراف کا اظہار ذات خداوندی کی سطح پر ہوتا ہے جو نہ صرف سب سے بڑی حقیقت ہے بلکہ تمام حقیقتیں اسی کی مخلوق ہیں ۔ غیر مومن کے جذبہ ٔاعتراف کا اظہار ان حقائق کی سطح پر ہوتا ہے جن کا ادراک کرنے کے لیے صرف عقلی قوتوں کا اعتراف کافی ہو۔
سچا مومن خدا پرست ہوتا ہے اور سچا انسان حقیقت پرست ۔ جو لوگ واقعی معنوں میں حقیقت پرست اور حقیقت پسند ہوں وہی لوگ اس امتحان کی دنیا میں ایمان (بالفاظ دیگر اعترافِ صداقت) کی توفیق پاتے ہیں ۔ جو لوگ اس ابتدائی انسانی صفت سے خالی ہوں وہ گویا حیوان ہیں جن کے اوپر انسان کا لباس اوڑھا دیا گیا ہے ۔ وہ دنیا میں باعتبار حقیقت اندھے ہیں اور آخرت میں وہ باعتبار حقیقت بھی اندھے ہوں گے اور باعتبار واقعہ بھی۔