قرآنی نظریۂ سزا کا اعتراف
ٹائمس آف انڈیا (30 جون 1987) نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالہ سے ایک خبر شائع کی ہے۔ اس کے مطابق ٹیکساس کے اٹارنی جرنل جم میڈا کس نے اپیل کی ہے کہ ان کی ریاست میں سزائے موت کے واقعات کو فلمایا جائے تاکہ عوام دیکھیں کہ کس طرح ایک مجرم کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موت کی (موجودہ) سزائیں معمول کی چیز بن گئی ہیں۔ انھوں نے اپنی مانع ِجرم حیثیت کھو دی ہے۔ ریاست ٹکساس نے 1982 سے اب تک 28 قیدیوں کو سزائے موت دی ہے۔ یہ سب سزائیں مہلک انجکشن کے ذریعہ دی گئیں۔ سزائے موت کا یہ سلسلہ امریکی سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد شروع ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ریاستوں کو چاہیے کہ وہ موت کی سزا کو دوبارہ شروع کریں ۔ اس سے پہلے امریکہ میں سزائے موت کو یہ کہہ کر بند کر دیاگیا تھا کہ وہ سزا کا بے رحمانہ طریقہ ہے :
FILMING EXECUTIONS: Texas Attorney General Jim Maddox is calling for executions in his state to be filmed so the public can see how a criminal is put to death, reports AFP from Huntsville, Texas. He says executions have become so routine that their deterrent purpose is being lost. Texas has executed 28 prisoners ––all by lethal injection –– since 1982, after a supreme court ruling allowing states to reintroduce capital punishment, earlier banned as a 'cruel and unusual punishment' (p. 7).
امریکہ میں سزائے موت کو بے رحمانہ قرار دے کر اسے بند کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کے بعد جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ۔ چنانچہ 1982 میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت اسے دوبارہ کھولا گیا۔ تاہم اب بھی مجرم کو موت کی سزا دینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ اسے بے ہوش کر کے مہلک انجکشن دیا جائے۔ اور پھر خاموشی سے اس کو دفن کر دیا جائے ۔
ایسی حالت میں سزائے موت صرف ایک خبر تھی نہ کہ عوامی سبق ۔ اب امریکہ کے مدبرین کو احساس ہوا کہ سزائے موت کو عوامی مشاہدہ میں بھی آنا چاہیے تا کہ وہ دوسروں کو جرم سے روکنے کا سبب بن سکے ۔ حتیٰ کہ وہ چاہتے ہیں کہ سزائے موت کے عمل کو فلم پر ریکارڈ کیا جائے اور اس کو ٹیلی وزن پر دکھا کر تمام لوگوں کے لیے عبرت کا سامان بنا دیا جائے ۔