ایک سفر
جموں میں 12 ربیع الاول 1408ھ (5 نومبر 1987) کو میلادالنبی کا سالانہ جلسہ تھا۔ اس موقع پر شرکت کے لیے جموں کا سفر ہوا۔4 نومبر کو دہلی سے جموں جانے والا جہاز (421) روانگی کےلیے تیار تھاکہ اچانک جہاز کے اندر ایک غیر معمولی سرگرمی شروع ہوگئی۔ جہاز کا عملہ انگریزی زبان اور ہندستانی زبان میں بار بار یہ اعلان کر رہا تھا کہ دہلی سے گو ہاٹی جانے والے کوئی مسافر غلطی سے اس جہاز میں آگئے ہیں، وہ فوراً اتر جائیں۔ کیوں کہ یہ جہاز دہلی سے جموں جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر کی تلاش و تحقیق کے بعد آخر کار مذکورہ مسافر کا پتہ چل گیا اور ان کو فوری طور پر جہاز سے اتار کر دوسرے جہاز پر سوار ہونے کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ دوسری طرف میں نے دیکھا کہ جہاز کے عملہ کا ایک شخص "واکی ٹاکی "لیے ہوئے بار بار دوسرےجہاز کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ براہ کرم جہاز کو روکیے ، مسافر آ رہا ہے:
Hold the flight please. Passenger is coming.
گیٹ کے نگراں نے بورڈنگ کارڈ کو چک کر کے پتہ کیا کہ اس جہاز میں ایک غلط مسافر داخل ہو گیا ہے۔ لاوڈ اسپیکر نے مسافر کو اس کی غلطی سے مطلع کیا۔ اسی کے ساتھ وائرلیس نے دو جہازوں کو مسلسل مربوط رکھ کر اس کو ممکن بنایا کہ مذکورہ مسافر فلائٹ نمبر 421 سے اترے اور فلائٹ نمبر 487 میں جا کر سوار ہو سکے۔ اور یہ سب کچھ صرف چند منٹ کے اندر انجام پا گیا ––––– یہ اجتماعی کوشش یا ہم آہنگ عمل کا نتیجہ تھا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اجتماعی عمل میں برکت ہے۔
دہلی سے چندی گڑھ تک کی پرواز میں ہمارے نیچے زمین ہموار دکھائی دے رہی تھی۔ جموں کی قریبی فضا میں پہنچے تو زمین اونچی نیچی نظر آنے لگی۔ یہ پہاڑی اُبھار تھے جو دور سے اس طرح دکھائی دے رہے تھے جیسے کہ بے شمار اونٹ اپنی کو ہانیں بلند کیے ہوئے کھڑے ہوں ۔ زمین میں کچھ ہموار علاقے ہیں اور کچھ پہاڑی علاقے ۔ دونوں میں کچھ کمیاں ہیں اور دونوں میں کچھ خوبیاں ہیں۔ زمین اگر سب کی سب ایک انداز کی ہوتی تو اس میں کچھ خصوصیات ہو تیں اور کچھ خصوصیات نہ ہوتیں۔مگر اللہ تعالٰی نے تنوع کا اصول جاری کر کے ہماری زمین کو ہر قسم کے خیر کا خزانہ بنا دیا ہے۔ اگر زمین میں یکسانیت کا اصول جاری ہوتا تو وہ انسان کے لیے ہر قسم کے خیر کا مجموعہ نہیں بن سکتی تھی ۔
اس سے پہلے 1982 میں میں نے جموں کے اس سرسبز و شاداب علاقہ کا ایک مختصر سفر کیا تھا۔ اس وقت کا ایک تاثر میری ڈائری میں حسبِ ذیل الفاظ میں درج ہے۔
انسان زمین کے اوپر ایک تضاد ہے ۔ وہ حقیقتوں کی دنیا میں حقیقتوں کو نظر انداز کر کے رہنا چاہتا ہے۔ انسان کو ایک نہایت حسین اور مکمل دنیا دی گئی ہے۔ مگر وہ اس طرح یہاں رہتا ہے جیسے وہ اپنی دنیا کی تردید کر رہا ہو ۔
انسان کھلے ہوئے آسمان کے نیچے بند ذہن کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ لطیف ہواؤں کے درمیان اس کو صرف کثیف اخلاق کے ساتھ رہنا پسند ہے ۔ اونچے پہاڑوں کے پڑوس میں وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ سرسبز و شاداب درختوں کے ماحول میں وہ ٹھنٹھ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ دریاؤں اور چشموں کی روانی کے درمیان وہ جمود و تعطل کی تصویر بنا ہوا ہے ۔
اس صورت حال کی سب سے زیادہ عبرت ناک مثال وہ لوگ ہیں جن کو مسلمان کہا جاتا ہے ۔ 13 جولائی1982 کو میں جموں اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ دو مسلمان میرے پاس آئے جو غالباً کشمیری تھے۔ایک نے کہا "مولانا صاحب ، مجھے ایک مسئلہ بتائیے۔ لبنان میں فلسطینی بھائیوں کا خون ہو رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے خون کے صدقہ کے طور پر ایک بکرا ذبح کروں" دوسرے نے کہا " میں فلسطین جانا چاہتا ہوں، مجھے بتائیے کہ فلسطین جانے کا راستہ کیا ہے"۔ دونوں مجھ سے مشورہ چاہتے تھے ، مگر میں انکو کوئی مشورہ نہ دے سکا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے دماغ میں الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے اور اب میرے پاس ان سے کہنے کے لیےکچھ نہیں ہے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی شاید سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خیالی پرواز میں سب سےآگے ہیں اور حقیقی عمل میں سب سے پیچھے ۔ ان کو سیاست میں صرف نعرہ پسند ہے ، ادب میں شاعری اور دین میں رومانیت۔ مسلمانوں نے نہ اپنی مقدس کتاب سے کچھ سیکھا اور نہ دنیا کے تجربات سے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اصاغر و اکابر کی تمام فوج خوش فکری کے خول میں بند ہے ۔ اپنے فکری خول سے باہر کی حقیقتوں کی اسے خبر ہی نہیں۔
آخر ایسے لوگوں کو کیا مشورہ دیا جائے جو فلسطین جیسے سنگین مسئلہ میں اپنا حصہ ادا کرنے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے لیے ایک بکرا ذبح کر دیں۔ یا اپنی انتہائی بے خبری اور بے مائگی کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی طرح فلسطین پہنچ جائیں تو وہاں لڑ کر وہ اس کا سارا مسئلہ حل کر دیں گے۔
جموں ریاست جموں و کشمیر کی سرمائی راجدھانی ہے۔ یہاں ڈوگرہ راجپوت کی حکومت تھی۔ 19 ویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد دوبارہ گلاب سنگھ کا قبضہ ہو گیا۔ اب یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔
جموں کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یہ روایت ہے کہ راجہ جمبو نے ایک مرتبہ اس علاقہ میں شکار کے دوران دیکھا کہ ایک شیر اور بکری ایک ہی تلاب میں اکٹھے پانی پی رہے ہیں۔ راجہ اس سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے اس مقام کو مقدس سمجھتے ہوئے یہاں ایک نئے شہر کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور اس کو جمبو نگری کا نام دیا۔ بعد کو یہ مقام جموں کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اور راجہ جمبو لوچن کی راجدھانی قرار پایا۔
1947 تک واقعتاً یہ علاقہ ایسا ہی تھا۔ یہاں مختلف فرقے اور مختلف طبقے کے لوگ محبت کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔ مگر 1947 کے "انقلاب" نے صورت ِحال بدل دی اور وہ بدستوراب تک بدلی ہوئی ہے ۔
میرے پاس انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا 1984 کا اڈیشن ہے ۔ اس میں جموں وکشمیر کا ذکر دو مقام پر ہے، ایک ، مائیکرو پیڈیا جلد پنچم (صفحہ 512) میں، اور دوسرے میکرو پیڈیا جلد 10 (صفحہ 29) میں۔
اس سفر کے دوران میں نے چاہا کہ جموں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کروں ۔ اس کو کھولا تو دونوں مقامات پر ایک مشترک منظر تھا۔ دونوں مقامات پر ابتدائی پیرا گراف تقریباً ایک ایک انچ کے بقدر مٹایا ہوا تھا ۔ (ملاحظہ ہو نقشہ اگلے صفحہ پر) مطبوعہ سطروں پر اتنی گہری سیاہی پھیری ہوئی تھی کہ کسی طرح بھی ان سطروں کا پڑھنا ممکن نہ تھا۔ غور کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ ہند سر کار کے حکم سے مٹایا گیا ہے ۔ غالباً اس میں کچھ ایسے الفاظ تھے جو ہندسر کار کے نزدیک قابل اعتراض تھے۔ اس قیاس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ انسائیکلو پیڈیا کی جلدوں میں ابتدائی صفحہ پر اسٹیمپ کےذریعہ بعد کو یہ الفاظ ثبت کیے گئے ہیں:
The external boundaries of India as depicted in the maps are neither correct not authentic.
(انڈیا کی بیرونی سرحدیں جو نقشوں میں دکھائی گئی ہیں وہ نہ صحیح ہیں اور نہ مستند)
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ہندستان کی تمام قابل ذکر لائبریریوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ادارہ اپنی اس کتاب کے ذریعہ ہندستان سے ہر سال کروڑوں روپیہ حاصل کرتا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب (اسی نوعیت کی دوسری کتابوں کی طرح ) مغربی علم کی برتری کی ایک خاموش تبلیغ ہے۔ وہ ہندستان کے اوپر ایک قسم کا فکری حملہ (Intellectual invasion) ہے۔ یہ فکری حملہ اتنا قوی ہے کہ وہ خود "جموں اینڈ کشمیر" کے اس آرٹیکل میں بھی بالواسطہ طور پر موجود ہے جس کی چند سطروں پر سیاہی پھیر کر ہند سرکار اپنے کو فتح مند سمجھ رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں آرٹیکل کی حسب ذیل سطریں ملاحظہ ہوں :
In the early 1970s, after a quarter of a century, the "Kashmir problem" remained intractable. Although there was a clear Muslim majority in the state before the 1949 partition and its economic, cultural, and geographic continuity with the Muslim-majority area of the Punjab could be convincingly demonstrated, the accidents of history have resulted in a division of territory that has no rational basis (Vol. 10, p. 32).
ہند سرکار نے 30 جلدوں کی اس کتاب کی جن چند سطروں پر اعتراض کیا تھا، اگر اس کےناشرین اس اعتراض کو نہ مانتے اور ان سطروں کو مٹانے پر راضی نہ ہوتے تو یقینی تھا کہ اس کتاب کی درآمد ہندستان میں بند کر دی جائے ۔ مگر انھوں نے اس اعتراض کو بلا بحث قبول کرتےہوئے اس کو مٹا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے اپنی کتاب کی درآمد کا وسیع دروازہ کھل گیا ۔
بعض اوقات اپنی لکھی ہوئی سطروں کو خود اپنے ہاتھ سے مٹانا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ زیادہ وسیع دائرہ میں لکھی جائیں ۔ یہ زندگی کا اہم ترین رازہے ۔ اگر چہ بہت کم لوگ ہیں جو اس راز کو جانیں ، اور اس سے بھی کم وہ لوگ ہیں جو اس پر عمل کرنے کا حوصلہ کر سکیں ۔
جموں و کشمیر ہندستان کی واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ وادی کےعلاقہ میں مسلمان 90 فی صد ہیں۔ جموں کے علاقہ میں مجموعی طور پر 30 فی صد ہیں ۔ اور پوری ریاست جموں و کشمیر میں تقریباً 65 فی صد ۔ مزید یہ کہ اس ریاست کو دستور ہند کی دفعہ 370 کے تحت مخصوص تحفظاتی درجہ ملا ہوا ہے ۔
اس اعتبار سے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے لیے یہاں ترقی کا خصوصی راستہ کھلا ہوا تھا مگر میرا اندازہ ہے کہ جموں وکشمیر کے مسلمان اپنی اس خصوصی حیثیت کا وہ فائدہ حاصل نہ کر سکے جو وہ حالات کے اعتبار سے حاصل کر سکتے تھے ۔ اس کا واحد سبب وہی ہے جس کو مذہب کی اصطلاح میں عدم ِقناعت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کے لیے عملاً جو چیز قابل حصول تھی ، اس پر وہ قانع نہیں ہوئے۔ اور جو چیز عملاً قابلِ حصول نہ تھی، اس کے پیچھے دوڑتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے "ناممکن" کے تعاقب میں " ممکن " کو بھی کھو دیا ۔
ماضی کو بھلا کر حال پر قانع ہونا ، مستقبل کی تعمیر کا واحد راز ہے ۔ لوگ ماضی کو بھلا نہیں پاتے ، اسی لیے وہ حال کے امکانات کو بھی استعمال نہیں کر پاتے ۔ یہ تبصرہ موجودہ زمانے کے تمام مسلمانوں پر صادق آتا ہے ، خواہ وہ اقلیتی علاقے کے مسلمان ہوں یا اکثریتی علاقے کے مسلمان۔
کچھ لوگوں نے بتا یا کہ پونچھ میں دیو بندی اور بریلوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ حتی ٰکہ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی ۔ گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کہ بریلوی حضرات کس قسم کی باتیں کرتے ہیں ،جس کے ذریعہ وہ مسلم عوام کو دیوبندیوں کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مثلاً ایک بریلوی مقرر کھڑا ہو کر کہے گا، دیکھو قرآنی آيت ۔لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ(48:2)کا ترجمہ دیوبندی عالم نے اس طرح کیا ہے:" تا کہ اللہ تمہارے سب اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف کر دے" ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے محبوب پیغمبر بھی گنہگارتھے۔ اور جو شخص خدا کے محبوب پیغمبر کو گنہگار بتائے وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے –––––– اس قسم کی باتوں سے امت میں تفریق پیدا ہوتی ہے ، مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا یہ تضاد عجیب ہے کہ ایک طرف ہر ایک اتحاد کی بات کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہر ایک مذکورہ نوعیت کی ایک یا دوسری بات لے کر امت کوٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ رہا ہے ۔
حافظ عبد الرحمن (پیدائش 1960) نے اپنی زبان میں کہا "یہ جو 1947 ہوئی ، وہ اسلام کے اندر رکاوٹ بن گئی " انھوں نے بتا یا کہ پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی نفرت نہیں تھی۔ اس وقت مذہبی تعصب نہیں تھا ۔ کوئی مسلمان فقیر ( بزرگ ) آگیا تو ہندو مسلمان سب اس کی عزت کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ بہت سے غیر مسلم اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیتے تھے اور کوئی برا نہیں مانتا تھا۔ اس وقت لوگ سادہ تھے ۔ کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ اب محاذ آرائی ہونے لگی۔ اس کی وجہ سے ماضی کے تمام امکانات برباد ہو گئے ۔ اگر پہلے والے حالات جاری رہتے تو اب تک کیا سےکیا ہو گیا ہوتا ۔
انھوں نے ایک شخص (مسٹر گنیش ایم اے) کا قصہ بتایا۔ ان کو اسلام سے سخت نفرت تھی۔ اسی نفرت کی وجہ سے انھوں نے اسلام پر کتا بیں پڑھیں ۔ وہ ابتداءً نفرت کا شکار تھے۔ وہ" رنگیلا رسول" کی باتیں دہراتے تھے۔ مگر مطالعہ کے بعد ان پر اسلام کی سچائی آشکارا ہو گئی۔ حافظ عبدالرحمٰن صاحب سے اپنی روداد بیان کرتے ہے ہوئے انھوں نے انھوں نے کہا " مگر اب میں کیڑا مسلمان ہوں"۔ ان کا نیا نام عبد الاحد ہے ۔ اب وہ راجستھان میں رہتے ہیں ۔
موجودہ مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف کچھ کہہ دے تو فوراً اس کو اسلام کا مستقل دشمن سمجھ لیتے ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ بہت ہی کم ہوتے ہیں جو کسی چیز کے ابدی دشمن ہوں۔ بیشتر لوگ نا سمجھی میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اگر ان کی نا سمجھی کو دور کر دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ جو شخص آج بظاہر دشمن نظر آتا ہے ، وہ کل کے دن دوست اور حامی بن جائے ۔
جموں میں ہر سال ربیع الاول کے موقع پر میلاد النبی کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ یہ جلوس روایتی شان کے ساتھ جموں شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتا ہوا جامع مسجد پہنچتا ہے ۔ یہاں "اسلامی جھنڈے "کو سلامی دی جاتی ہے۔ جھنڈے کی شان میں ایک نظم پڑھی جاتی ہے ۔ اس تقریب کے بعد ظہر کی نماز ہوتی ہے اور ظہر کی نماز کے فورا ًبعد جلسہ شروع ہو جاتا ہے۔
میں نے دیکھا تو جلوس میں کافی مسلمان شریک تھے ۔ ابتداءً میں نے سمجھا کہ یہ سب جموں شہر کے مسلمان ہیں ۔ مگر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس میں جموں شہر کے لوگ پانچ فیصد یا دس فی صد ہوں گے ۔ ورنہ زیادہ تر لوگ اطراف کے دیہاتوں سے آئے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اس قسم کے جلوسوں میں عام طور پر "شرفاء اور معززین " شریک نہیں ہوتے ۔ عوام اور جاہل قسم کے مسلمان ہی زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ اور یہی صورت حال ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔
جلوسوں کی اسی نوعیت کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جلوس کے بعد فساد شروع ہو جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر جلوس کی سیاست کا قائل نہیں ، مگر جو لوگ جلوس کے طریقہ میں یقین رکھتے ہیں ، انھیں سب سے پہلے شرفاء مسلمین کو شرکت جلوس کے لیے آمادہ کرنا چاہیے ۔ اس سے پہلے جلوس نکالنا اس مقصد کے لیے مفید نہیں ہو سکتا جس کے لیے جلوس نکالا جاتا ہے ۔
جلسہ کی دو نشستیں ہوئیں ۔ ایک ظہر اور عصر کے درمیان۔ اور دوسری نشست نماز مغرب کے بعد۔ کئی مقررین کی تقریریں ہوئیں۔ میں نے دن کی نشست میں مختصر طور پر سیرت کے اخلاقی پہلو پر گفتگو کی ۔ شام کی نشست میں مفصل خطاب کیا۔ اس خطاب کا موضوع سیرت کا عالمی اور آفاقی پہلو تھا ۔ شام کے جلسہ کی کارروائی ٹیلی وژن پر بھی دکھائی گئی ۔ 6 نومبر کو جمعہ کا دن تھا۔ لوگوں کی فرمائش پر یہاں کی جامع مسجد میں "نماز" کے موضوع پر ایک خطاب ہوا۔ وسیع مسجد پوری کی پوری بھری ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ ان نمازیوں میں بیشتر تعداد تعلیم یافتہ حضرات کی تھی۔
جموں شہر پوری ریاست جموں وکشمیر کا تجارتی مرکز ہے ۔ مگر یہاں کی تجارتوں میں مسلمانوں کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں۔ یہاں مسلمانوں کی چند معمولی دکانیں ہیں۔ تمام بڑی بڑی تجارتیں99 فی صد سے بھی زیادہ ہند و صاحبان کے قبضہ میں ہیں۔ حتیٰ کہ سیرت النبی کے جلسہ کے لیے جوٹنٹ لگایا گیا تھا ، میں نے دیکھا تو اس پر انگریزی میں لکھا ہوا تھا : "را ماٹنٹ اینڈ لائٹ ہاؤس "۔
شہر میں گھومتے ہوئے میں نے دو کافی بڑی بڑی بلڈنگیں دیکھیں ۔ یہ دونوں بلڈنگیں مسلم اوقاف کے محکمہ کی ہیں۔ یہ دونوں اہم مقامات پر ہیں اور ان میں بہت سی دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ مگر اس خالص " مسلم جائداد" میں بھی زیادہ تر دکانیں غیر مسلم صاحبان کی تھیں ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اوقاف والوں نے دکان کو الاٹ کرنے کے لیے " ایڈوانس " رقم کی شرط لگا رکھی تھی۔ مسلمان اپنی اقتصادی کمزوری کی وجہ سے ایڈوانس رقم کی شرط پوری نہ کر سکے۔ اس لیے زیادہ ترد کا نیں غیرمسلم صاحبان کے قبضہ میں چلی گئیں ۔
میں نے سوچا کہ مسلم اوقاف کی بلڈنگ پر ہند و صاحبان کا قبضہ کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس نے غیر مسلم صاحبان کو یہ موقع دیا کہ وہ ایک مسلم جائداد پر قابض ہو جائیں۔ اس کا جواب ایک لفظ میں "انٹرسٹ " ہے۔ یہ دنیا انٹرسٹ کا کھیل ہے۔ ہر آدمی اپنے مفاد کے تحت عمل کرتا ہے ۔ محکمۂ اوقاف کو مالی فائدہ اس میں نظر آیا کہ وہ اپنی دکانیں غیر مسلم صاحبان کو دے ۔ اس لیے اس نے اپنی دکانیں غیر مسلم صاحبان کو دے دیں۔ اس کے برعکس اگر وہ دیکھتے کہ مسلمانوں کو دینے میں فائدہ ہے تو وہ اپنی دکانیں مسلمانوں کے حوالے کرتے۔ مسلمان اگر اس ناگزیر شرط کو پورا نہ کر سکیں تو وہ یقینی طور پر ناکام رہیں گے ۔ خواہ وہ مسلم اقلیت کے ملک میں ہوں یا مسلم اکثریت کے ملک میں۔ رعایت کی بنیاد پر کبھی کوئی قوم اس دنیا میں کھڑی نہیں ہو سکتی ۔
ایک صاحب ایک کتاب لائے جس کا نام "أنوار الانتباه " تھا۔ اس میں عجیب و غریب قسم کی طلسماتی باتیں درج تھیں ۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ تھا کہ بزرگوں سے مدد مانگنا جائز ہے۔ "امام شیخ الاسلام شہاب رملی سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء و مرسلین اور اولیاء وصالحین سے فریاد کرتے اور یا رسول الله ، یا علی ، یا شیخ عبد القادر جیلانی اور ان کے مثل کلمات کہتے ہیں ۔ یہ جائز ہے یا نہیں ، اور اولیاء بعد انتقال کے مدد فرماتے ہیں یا نہیں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ بیشک انبیاء و مرسلین اور اولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی مدد فرماتے ہیں"۔
ایک "واقعہ " ان الفاظ میں درج تھا : ایک بار حضرت سیدی مدین بن احمد شمونی نے وضوفرمانے میں ایک کھڑاؤں بلا د مشرق کی طرف پھینکی۔ سال بھر بعد ایک شخص حاضر ہوئے اور کھڑاؤں ان کے پاس تھی ۔ انھوں نے حال عرض کیا کہ جنگل میں ایک بد وضع نے ان کی صاحبزادی پر دست درازی کرنا چاہا۔ لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیرو مرشد حضرت سیدی مدین کا نام یا د نہ تھا۔ یوں ندا کی : یا شیخ أبی لاحظنی (اے میرے باپ کے پیر مجھے بچائیے) یہ ندا کرتے ہی وہ کھڑاؤں آئی۔ لڑکی نے نجات پائی۔ وہ کھڑاؤں ان کی اولاد میں اب تک موجود ہے ، صفحہ 16 ۔
اسی قسم کے خرافاتی عقائد اور جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جن میں موجودہ زمانہ کے مسلمان جی رہے ہیں ۔ یہ مسلمان ایک خود ساختہ اسلام پر قائم ہیں نہ کہ اس اسلام پر جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے لائے تھے ۔
4 نومبر کو لاہور میں ریلائنس ورلڈ کپ 1987 کے لیے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ کا سیمی فائنل تھا۔ میں جموں کے بازار میں نکلا تو ہر دکان پر لوگ ٹیلی ویژن کے اوپر بھیڑ لگائے ہوئے کھڑے تھے۔ کچھ لوگ اس حال میں راستہ چل رہے تھے کہ انھوں نے اپنے کان کے ساتھ ٹرانسسٹر لگا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ سوا پانچ بجے چاروں طرف سے پٹاخے کی آوازیں آنے لگیں۔ معلوم ہوا کہ پاکستان ہار گیا ہے اور آسٹریلیا 18 رن سے جیت گیا ۔ اس خوشی میں ہند و صاحبان پٹاخے چھوڑ رہے ہیں۔
اگلے دن 5 نومبر کو دوسر ا منظر تھا۔ آج بھی دوبارہ سیمی فائنل کا مقابلہ تھا۔ یہ مقابلہ ہندستان اور انگلینڈ کے درمیان ہو رہا تھا۔ سہ پہر کے وقت میں یہاں کے ایک مسلم محلہ میں تھا کہ اچانک پٹاخہ کی آوازیں آنے لگیں ۔ معلوم ہوا کہ آج ہندستان ہار گیا ہے اور انگلینڈ 35 رن سےجیت گیا ہے ۔ اب مسلمانوں کی خوشی کی باری تھی ۔ آج کے دن مسلمان پٹاخے چھوڑ رہے تھے ۔
میں نے ایک مسلمان سے کہا۔ یہ سراسر حماقت ہے ۔ آخر مسلمان ایسی احمقانہ حرکت کیوں کرتےہیں۔ انھوں نے جواب دیا ۔ اس کے ذمہ دار ہند و صاحبان ہیں۔ وہ لوگ پاکستان کی ہار پر خوشی مناتے ہیں۔ اس کے رد عمل میں مسلمان بھی ہندستان کی ہار پر خوشی منا رہے ہیں۔ میں نے کہا اگر یہی وجہ ہے تو ایسا کرنے سے ہند و صاحبان کا یہ ذہن مزید بڑھے گا اور مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جائے گا۔ ہندو پٹاخہ بازی کا جواب مسلم پٹاخہ بازی نہیں ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہندو پٹا خہ چھوڑیں تو مسلمان پٹاخہ نہ چھوڑیں۔ اس کے بعد ہندو پٹاخہ بازی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
ان مواقع پر مسلمان اگر اس چیز کا مظاہرہ کرتے جس کو "اسپورٹس مین اسپرٹ " کہا جاتا ہے تو وہ ملک میں ایک مفید روایت کو رواج دینے کا کریڈٹ پاتے ۔ اس کے بر عکس رد عمل کا مظاہرہ کر کے وہ صرف اس چیز کا اضافہ کر رہے ہیں جس کو ہندستان ٹائمس ( 6 نومبر 1987) نے میچ فسادات (Match riots) کا نام دیا ہے ۔
ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ مسلمانوں کو حقیقت پسند بننا چاہیے۔ حقیقت پسندی ہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے ، خواہ آپ ہندستان میں ہوں یا کسی دوسرے ملک میں۔ میری یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ ریلائنس کپ کے میچ کے زمانہ میں وہ تمام دن گھر پر بیٹھے ہوئے کمنٹری سنتے رہتے ہیں ۔ بجلی آرہی ہے تو ٹیلی ویژن پر اور اگر بجلی نہیں ہے تو ٹرانسسٹر پر۔ میں نے سوچا کہ جن لوگوں کا ذہن سطحی چیزوں میں اتنا زیادہ مشغول ہو وہ آخر کوئی گہری بات کس طرح سمجھ سکتے ہیں ۔
جموں میں محکمہ ٔاوقاف نے ایک نہایت وسیع اور شاندار جامع مسجد تعمیر کی ہے۔ مولانا صدر الدین قاسمی اس مسجد کے امام ہیں۔ ان کے حالات کو قریب سے جاننے کا اتفاق ہوا۔ میرااحساس یہ ہے کہ ائمہ کی جماعت کے لیے وہ ایک نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مسجد کے امام کو عام طور پر بہت کم تنخواہ ملتی ہے ۔ اس لیے ہر امام کے سامنے یہ مسئلہ رہتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کو کس طرح بڑھائے ۔ عام طور پر ائمہ یہ کرتے ہیں کہ وہ یا تو تعویذ گنڈے کا کاروبارشروع کر دیتے ہیں۔ یا متولیوں اور بڑے لوگوں کی خوشامد اور حاضر باشی کے ذریعہ مزید فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ائمہ مسلمانوں کے اختلاف اور نزاع کو بڑھا کر اپنی اہمیت ثابت کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے کچھ فائدے حاصل کر سکیں۔ مولانا صدرالدین قاسمی نے اس قسم کی کوئی تدبیر نہیں کی۔ اس کے بجائے انھوں نے اپنے دو بھائیوں کی مدد سے تجارت کا سلسلہ شروع کردیا۔ 20 سالہ محنت کے نتیجہ میں آج یہاں ان کی دو کامیاب دکانیں وجود میں آچکی ہیں۔ ایک کپڑے کی اوردوسری کتابوں کی۔ ایک بھائی کپڑے کی دکان پر بیٹھتے ہیں اور دوسرے بھائی کتابوں کی دکان پر ۔
تجارت کا یہ راستہ ہر امام کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اپنے حالات کے لحاظ سے ہر امام اپنے مقام پرکوئی تجارت شروع کر سکتا ہے اور محنت اور استقلال کے ذریعہ اس میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
عبدالمجید صاحب یہاں کی ایک مقبول شخصیت ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب تو وہ بزنس میں لگ گئے ہیں۔ مگر اس سے پہلے وہ سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے اور مقامی الکشن میں حصہ لے کر یہاں کے کو نسلر بھی منتخب ہوئے ۔ میں نے پوچھا کہ جموں شہر میں تو مسلمانوں کی تعداد بمشکل 5 فی صد ہوگی ، پھرآپ کس طرح یہاں کے الکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔
انھوں نے مسکرا کر کہا کہ میری پالیسی وہی ہے جس کا آپ الرسالہ میں سبق دیتے ہیں۔ میں سب سے یکساں طور پر خوش اخلاقی کے ساتھ ملتا ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ سب کے ساتھ میرےاچھے تعلقات ہیں۔ چنانچہ الکشن میں جس طرح مسلمانوں نے مجھے ووٹ دیا ، ہندوؤں نے بھی بڑی تعداد میں مجھ کو ووٹ دیا اور میں کامیاب ہو گیا۔ اگر چہ میرے مقابلے میں ایک ہندو امیدوار بھی تھا ––––– جموں میں عبد المجید صاحب کے لیے جو موقع تھا، وہی موقع مسلمانوں کے لیے پورے ملک میں ہے۔بشر طیکہ وہ اس کو جانیں اور سلیقہ اور ہوش مندی کے ساتھ اس کو استعمال کر سکیں۔
عبد المجید صاحب نے کہا کہ چلیے آپ کو شہر کی سیر کرا دیں ۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کر میں وہاں پہنچا جس کو "باغ ِبہو " کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک پرانا قلعہ تھا۔ اس کے آس پاس کی زمین کو ترقی دے کراس کو پر فضا تفریحی مقام بنا دیا گیا ہے۔
یہاں قلعہ کے پاس ایک صاف ستھری مسجد نظر آئی ۔ معلوم ہوا کہ اس مسجد کو غالباً تین سوسال پہلے یہاں کے ہندو راجہ نے بنوایا تھا۔ یہ ایک علامت ہے کہ قدیم زمانہ میں یہاں کوئی ہندو مسلم مسئلہ نہ تھا۔ میں نے مسجد کو اندر جاکر دیکھا۔ اس کی از سر نو آرائش کی گئی ہے۔ میں نے تلاش کیا کہ کہیں اس کا ابتدائی سنِ تعمیر لکھا ہوا ہو تو اس کو نوٹ کروں ۔ ایک بورڈ نظر آیا ۔ قریب جا کر دیکھا تو اس پر "شاہی مسجد کے ساتھ ""786 " لکھنے کا اہتمام تو ضرور کیا گیا تھا، مگر وہاں مسجد کا سن تعمیر درج نہ تھا۔ مسلمانوں میں روایتی ذوق ضرورت سے زیاد ہ پایا جاتا ہے ، مگر تاریخی ذوق ان کے اندر بقدر ضرورت بھی نہیں ۔
باغ بہو کے قریب ایک جگہ بہت بڑے پیمانہ پر کھدائی اور تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ ریلوے لائن کی توسیع کی جارہی ہے ۔ 1947 میں دہلی سے صرف پٹھان کوٹ تک ریلوے لائن تھی ۔ اس کے بعد اس کو بڑھا کر جموں توی تک پہنچایا گیا۔ اب مزید 65 میل کی توسیع کے ذریعہ اس کو اودھم پور تک لے جایا جا رہا ہے۔ یہ پورا راستہ اونچے پہاڑوں اور گہری کھائیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ریلوے لائن کا بہت بڑا حصہ پلوں اور سرنگوں کے درمیان سے گزرے گا۔ 1947 کے بعد کشمیر کے علاقہ میں جس رفتار سے کام ہو رہا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کچھ زیادہ بعید نہیں کہ ایک دن یہ ریلوے لائن دہلی سے براہ راست سری نگر تک پہنچا دی جائے گی۔ مسئلہ صرف اس کی "قیمت " کا ہے ، اور ہندستان بہر حال اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے ۔
راستہ میں ایک "چھتری " نظر آئی ۔ ایک پہاڑی پر بیٹھنے کی جگہ بنا کر اس کے اوپر خاص طرح کی چھتری بنی ہوئی تھی۔ محکمہ ٔسیاحت کی طرف سے اس علاقہ میں اس قسم کے بہت سے تفریحی مقامات بنائے گئے ہیں ۔ اوپر چڑھ کر ہم لوگ کچھ دیر تک وہاں بیٹھے ۔ یہ یہاں خالص ہوا تھی ۔ چاروں طرف سرسبز پہاڑوں کا منظر پھیلا ہوا تھا۔ دور جموں شہر نیچا اونچا بسا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ قدرت کے اس ماحول میں آدمی خدا کی تجلیات میں گم ہو جاتا ہے۔ دل نے کہا کہ زندگی کے تقاضے اگر مجبور نہ کریں تو میں خدا کی اس حسین دنیا میں کھو جاؤں اورپھر کبھی اس سے باہر نہ آؤں۔
مگر موجودہ دنیا میں انسان سے یہ مطلوب نہیں ۔ چڑیاں اگر اس سرسبز دنیا میں اڑیں تو وہ ان کے لیے زندگی کی سرگرمیوں کے ہم معنی ٰہے ۔ لیکن انسان اگر ایسا کرے تو وہ اس کے لیےزندگی سے فرار کے ہم معنیٰ بن جائے گا۔
جب ہم لوگ چھتری کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت میری نظر نیچے کی سڑک پر گئی۔ سڑک کے کنارے ایک پتھر لگا ہوا تھا جس پر یہ انگریزی الفاظ لکھے ہوئے تھے :
Drive with care.
(احتیاط کے ساتھ گاڑی چلاؤ) میں نے سوچا کہ سڑک بظاہر خاموش ہے ۔ مگر وہ کتنی بڑی حقیقت کا اعلان کر رہی ہے۔ زندگی بھی ایک سڑک کی مانند ہے ۔ یہاں ہم اکیلے نہیں چل رہے ہیں۔ بلکہ ہماری طرح دوسرے بہت سے لوگ اس پر اپنی گاڑیاں دوڑارہے ہیں۔ ایسی حالت میں محفوظ سفرکاواحد یقینی طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی چوکنّا رہے ، ہر آدمی احتیاط کے ساتھ اپنی گاڑی چلائے۔
سٹرکوں سے گزرتے ہوئے راستہ میں کئی جدید طرز کی کالونیاں دکھائی دیں۔ کشادہ سڑکیں، کھلے مکانات ، صاف ستھری زندگی۔ میں نے پوچھا کہ ان کالونیوں میں مسلمان کتنے ہوں گے۔ جواب ملا کہ ایک بھی نہیں ۔ "مسلمان تالاب کھٹیکان سے نکلنا پسند نہیں کرتے" ۔ یہی ذہنیت اکثر مقامات پر مسلمانوں کی ہے۔ مگر میں اس کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہوں ۔ اس طرح مسلمان بیک وقت دو چیزوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ ایک، ذہنی وسعت اور دوسر ے ، جدید مواقع سے فائدہ اٹھانا ۔
واپسی میں جب ہم قدیم جموں کے علاقہ میں پہنچے تو ایک جگہ سڑک کے ایک طرف چند ٹھیلے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس بنا پر وہاں سڑک تنگ ہو گئی تھی اور صرف ایک ہی گاڑی کے گزرنے کا راستہ باقی تھا۔ اتفاق سے عین اسی وقت سامنے کی سڑک پر ایک اور گاڑی آگئی۔ ایک لمحہ کےلیے دونوں گاڑیاں رک گئیں۔ اس کے بعد سامنے والے ڈرائیور نے اپنی گاڑی پیچھے کی طرف چلا کرایک کنارے کھڑی کر دی۔ اب ہماری گاڑی کے لیے راستہ کھل گیا ۔ ہم تیزی سے گزر گئے ۔ اس کے بعد دوسری طرف کی گاڑی بھی روانہ ہو کر آگے چلی گئی ۔
کبھی آگے بڑھنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی ڈکشنری میں صرف آگے بڑھنے کا لفظ لکھا ہوا ہو ، پیچھے ہٹنے کا لفظ ان کی ڈکشنری میں درج نہ ہو، ایسے لوگوں کے لیے اس دنیامیں اپنی منزل پر پہنچنا مقدر نہیں ۔
ایک مسلمان ایک ادارہ کی طرف سے اس کی ایک شاخ کا مقامی انچارج تھا۔ اس نے فریب دہی کے ذریعہ اس کی اس عمارت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ۔ اب وہ اپنے ناجائز قبضہ کو جائز ثابت کرنے کےلیے جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مشغول ہے ۔
اس سفر میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے مذکورہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مسلمان کا کہنا ہے کہ ہمارے اکابر خود غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر میں نے بھی ایک غاصبانہ قبضہ کر لیا تو اس میں کیا ہرج ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کی کوئی مثال بتائیے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسلمان اس سلسلے میں آپ کی مثال پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے جمعیۃ بلڈنگ (دہلی)کے دو کمروں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹی بات ہے ۔ جمعیۃ بلڈنگ کا جو حصہ میرے پاس ہے اس کا میں با ضابطہ کرایہ دار ہوں ۔ جمعیۃ ٹرسٹ سوسائٹی کے سابق چیرمین حاجی عبد العزیز صاحب کی رضا مندی سے طرفین کے درمیان ایک تحریری اتفاق نامہ ہوا جس پر دونوں نے دستخط کیے ۔ اس طرح طرفین کے متفقہ فیصلہ کے تحت اس کی کرایہ داری قائم ہوئی اور میں 1974 سے مسلسل ماہ بہ ماه اس کا مقررہ کر ایہ ادا کر رہا ہوں ۔ کوئی بھی شخص ہمارے دفتر میں آکر 1974 سے اب تک کی رسید یں دیکھ سکتا ہے ۔
مذکورہ صاحب میرے جواب سے مطمئن ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ مجھے صحیح صورت حال کا علم نہ تھا۔ اس مسلمان کا آپ کے خلاف پروپیگنڈا یقیناً ایک بہتان ہے۔ البتہ اگر وہ بھی آپ کی طرح عمارت کے اصل مالک سے اتفاق نامہ کرلے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے تو اس کے بعد اس کے معاملہ کو جائز معاملہ کہا جاسکتا ہے ۔ ورنہ موجودہ صورت حال میں تو وہ خود اپنےاقرار کے مطابق غاصب اور خائن ثابت ہو رہا ہے ۔
ایک صاحب نے لیتھو پر چھپا ہوا ایک اردو اخبار پیش کرتے ہوئے کہا : یہ ابھی ہفت روزہ ہے۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اس کو روزنامہ بنا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ ہفت روزہ کے بجائے روز نامہ ہو ، اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ معیار نامہ ہو ۔ اردو زبان میں بے شمار اخبارات نکلتے ہیں ، مگر شاید ان میں سے کوئی بھی نہیں جو جدید معیارِ صحافت کے مطابق ہو ۔
میں نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ الله جميل ويُحبّ الجمال۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جمال و کمال کے اعلیٰ معیار پر ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ جو کام کریں وہ سطح خداوندی کے مطابق ہو۔ آج کل مسلمان جو اخبارات نکال رہے ہیں وہ جدید معیار صحافت کے اعتبار سے سطحِ انسانی کے مطابق بھی نہیں ، کجا کہ ان کو سطحِ خدا وندی کے مطابق کہا جائے ۔
6 نومبر 1987 کی سہ پہر کو انڈین ایر لائنز کی فلائٹ 422 کے ذریعہ دہلی واپسی ہوئی ۔ راستہ میں ہوائی کمپنی کے ماہنامہ سواگت (اکتوبر 1987) میں ایک مضمون پڑھا۔یہ مغل یادگاروں کے بارے میں تھا۔ اس مضمون میں اکبر (1605 – 1556) سے لے کر شاہجہاں(1658 – 1627) تک کی مختلف عمارتوں کی تفصیل درج تھی ۔ مضمون نگار مسٹر جگموہن مہاجن نے مثل عمارتوں کا با تصویر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مغلوں کے ظہور کے بعد ہندستان کے فن تعمیر نے ایک نیا انداز اختیار کیا :
Indian architecture took on a new aspect
with the advent of the Mughals (p. 81).
موجودہ مسلمان ماضی کے "لال قلعہ" اور ماضی کے "تاج محل " پر فخر کرتے ہیں۔ مگر آج کے ہندستان کو وہ کوئی نیا لال قلعہ اور کوئی نیا تاج محل نہ دے سکے ۔ مسلمانوں کی اسی کو تا ہی میں ان کی تمام محرومیوں کا راز چھپا ہوا ہے ۔
6 نومبر 1987 کی شام کو میں جموں سے دہلی واپس آیا۔